دولت کی غیرمساوی تقسیم؟

January 23, 2019

دنیا بھر کے انسانوں کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل وجہ عدم مساوات پر مبنی وہ نظام ہے، جس نے دنیا کی آبادی کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسرے کی غربت میںمستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں آکسفام ویلتھ المعروف ایکس تھنک ٹیکس کی رواں سال کی سالانہ رپورٹ جس کو ’’ پبلک گڈ اور پرائیویٹ ویلتھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی عوامی مفاد یا ذاتی دولت خصوصی توجہ کی حامل ہے۔ اس کے مطابق 2016میں امیروں کی دولت میں12فیصد یومیہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ ڈھائی ارب ڈالر بنتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل معاشی بحران کے بعد سے امیر ترین افراد کی تعداد دگنا ہو گئی ہے جبکہ دنیا کی نصف آبادی کی دولت میں گیارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ دنیا کے 26افراد کے پاس 1.4ٹریلین ڈالر ہیں، جو 3ارب 8کروڑ افراد کی دولت کے مساوی ہیں۔ 2017میں43افراد کے پاس دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی تھی جبکہ2016 میں61افراد کے پاس دولت دنیا بھر کی نصف آبادی کی دولت کے برابر تھی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں امیر ترین افراد کی دولت میں اضافہ ہوا ہے ۔ ویلتھ ایکس کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں5لاکھ چالیس ہزار افراد کی دولت ایک ملین ڈالر سے 30ملین ڈالر کے درمیان ہے، دنیا بھر کی مجموعی دولت 317ٹریلین ڈالر ہے جبکہ مجموعی آبادی سات ارب بیس کروڑ سے زائد ہے۔ اگر اس دولت کو مساوی طور پر تقسیم کر دیا جائے تو دنیا کا ہرفرد 44028ڈالر کا مالک بن جائے گا۔یہ رپورٹ دنیا میں پائی جانے والی عدم مساوات کی ہی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ ان اقوام کیلئے باعث شرم ہونی چاہئے، جو باشعور ہونے اور دنیا کو عدم مساوات سے پاک نظام فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ضروری ہے کہ عالمی سطح پر لوگوں کو مفت تعلیم،صحت اور سوشل سیکورٹی کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور انتہائی امیر لوگوں اور اداروں پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے ،ٹیکس وصولی کا منظّم نظام وضع کیا جائے اور ٹیکس سے حاصل شدہ رقم غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کی جائے۔