سر رہ گزر

January 02, 2013

طاہر القادری کاملین مارچ، پس پردہ کیاکھیل ہورہا ہے ڈی چوک تحریر سکوائر بھی بن سکتا ہے، ایم کیو ایم کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک شخص نے قوم کی زبوں حالی دیکھ کر آواز دی لاکھوں زخم خوردہ جمع ہوگئے اور ایم کیو ایم نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تو کیا غلط کیا۔ اس ملک میں شک شبہ ، افواہ اس قدر عام ہے کہ اگر کوئی حج پر روانہ ہو تو بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ وہاں سے سونا لینے جارہا ہے کہ وہاں سستا ہے، ابھی تو ملین مارچ ہوا بھی نہیں اور پہلے ہی سے تحریر سکوائر کی باتیں ہونے لگیں ہیں حالانکہ یہاں بے پیر سکوائر پہلے ہی موجود ہے ، پس پردہ کیا ہوگا جبکہ سرے سے کوئی پردہ ہی نہیں، پانچ برس جو بھی کیا پیا کھایا بے پردہ ہی تھا لیکن کوئی تحریر سکوائر نہ بنا، ایم کیو ایم غریبوں کی جماعت ہے اور طاہر القادری سخت سردی کے باعث کینیڈا سے جو بھاگے سیدھے آکر مینار پاکستان پر دم لیا اور یہاں کے حالات دیکھ کر موسم کا اندازہ لگا کے وہ تپ گئے، خدا کرے کہ پس پردہ اس پیش پردہ پر وار نہ ہو اور یہ جو طاہر القادری نے محسوس کیا کہ #
غریبوں کی سنو وہ تمہاری سنے گا
تم ایک پیسہ دوگے وہ دس لاکھ دے گا
مارچ فنڈز میں انہوں نے اپنی اہلیہ، بہو اور بیٹی کا زیور دینے کا بھی تاحال اعلان کردیا ہے ، قوم کا درد رکھنے والا کینیڈا کی شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان تشریف لے آیا تو کیا یہ کم ہے ، اپنے اوپر تو وہ انقلاب لاگو کرچکے ہیں باقی رہی بات قومی انقلاب لانے کی تو #
پتل بنایا ای سونا بنساں عملاں نال
لگتا ہے طاہر القادری اور ایم کیو ایم سے خدا کوئی کام لینے والا ہے، اللہ کرے کہ یہ کام قوم کے کام آئے، آمین ثم آمین۔ پس پردہ کھیل کی بات کرنے والے لاکھ چھپائیں چھپ نہ سکے گا اصلی نقلی چہرہ۔
#######
حکومت نے اپنے چہیتوں کے ذریعے گیس کے 32کنویں غیر ملکیوں کو فروخت کردئیے ہیں۔ 2کروڑ چولہے ٹھنڈے ہونے کا امکان ہے۔
مظلوموں پر اپنے اور بدیشی ظالم ظلم کررہے ہیں اور مظلوم ہیں کہ سہتے چلے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے غلط امیدواروں کو منتخب کرنے کا انجام کسی ایک جگہ نہیں وطن کے ہر چپے چپے کو متاثر کررہا ہے۔ اس وقت شہروں میں گیس کی سپلائی کا یہ عالم ہے کہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ،چولہا جلتا نہیں صارفین کے دل جلاتا ہے اور صارفین کس مٹی سے بنے ہیں کہ خود اپنے لئے ظالمین بن گئے ہیں، لوگ کہتے ہیں پھر کیا کریں ہم کہتے ہیں پھر انتخابات آرہے ہیں پھر ا ور چوپو گے کیونکہ حکمران اپنی خو نہ بدلیں گے عوام اپنی وضع کیوں بدلیں۔یہ32کنویں اگر غیر ملکیوں کو فروخت کررہے ہیں تو ہمارے پاس تو صرف بھربھری مٹی رہ جائے گی مگر ہم اسے گیلا کرکے ارباب اقتدار کے منہ پر نہیں ملیں گے کہ ہمیں وطن کی مٹی سے بہت پیار ہے اور اس کا جوہر دوسروں کے ہاتھ فروخت کرنے پر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ بعض نئے کھلاڑی انقلاب کی بات کرتے ہیں اگر انقلاب لانا ہے تو آئندہ انتخابات ہی کو انقلاب بنادیں کسی ایسے کو ووٹ دیں جو وطن کا سودا نہ کرے، جو سارے زخموں کا علاج کرے، جو دلوں پر راج کرے، اب گیند عوام کے کورٹ میں ہے ،وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ کاسٹ کریں اور چاہیں تو پانسہ بدل دیں، سیاسی لیڈروں کا سٹاک سامنے ہے، ہر ذی شعور آسانی سے انتخاب کرسکتا ہے جو بھی ہیرا پھیری ہوگی وہ دیہی آبادی میں زیادہ ہوگی اور وہ ہے غریب مزارعوں کے جبری ووٹ ۔کیا الیکشن حکومت کے پاس جاگیرداروں وڈیروں کی نادر شاہی کا کوئی علاج ہے جو وہ آئندہ انتخابات میں لاگو کرینگے۔ غریب آدمی کسی نجات دہندہ کو ووٹ دینا چاہتا ہے مگر اس کے نام نہاد مالک ایسا نہیں کرنے دیتے۔انجام تو ابھی سے نظر آرہا ہے مگر کوئی سچے دل سے دوسرے کا ہاتھ پکڑے تو سہی #
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
#######
وزارت کی نئے سال کی پہلی ترجیح چوہوں سے نجات قرار پائی ہے۔
وزارت خارجہ نے عوامی سطح پر تسلیم کرلیا ہے کہ اس کے دفاتر میں چوہے ہی چوہے ہیں اور ان میں کو ایجوکیشن رائج ہے جس کے باعث یہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ یہ ہراس فائل کو کتر ڈالتے ہیں جس سے قوم کو فائدہ پہنچنے کا خطرہ ہو، جب وزارت خارجہ چوہوں سے عبارت ہوگی تو حیرانی ہے کہ ان چوہوں کے لئے چوہے مار گولیاں باہر والے آکر تقسیم کرینگے یا مقامی سطح پر بھی کچھ نیک دل چوہے مار موجود ہیں جو وزارت خارجہ کو چوہوں سے خالی کردے تو باقی وزارتوں سے بھی چوہوں کا صفایا ہو کیونکہ یہ تو اب پتہ چلا کہ قوم کو جو ایک عرصے سے مسائل کا طاعون چپکا ہوا ہے اس کا کچھ تو مداوا ہو، یہ چوہا کلچر تو فصلوں سے لے کر اگلوں پچھلوں کو تباہ کررہا ہے ۔ حکومتی دفاتر جتنے بڑے ہوتے ہیں ان میں چوہے بھی ا تنے ہی بڑے ہیں۔ کہتے ہیں چوہوں کی کثرت عذاب ہے ہم سے پہلی قوموں پر بھی آتا رہا ہے، وزارت خارجہ اگر چوہوں سے پاک ہوجائے تو پاکستان سر اٹھاکے چل سکتا ہے۔ یہ سرکاری دفاتر و وزارتوں میں چوہوں کی کثرت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان کے سردار چوہے کو کڑکی میں نہیں پھنسایا جاتا مگر کڑکی لگائے گا کون؟ چوہوں کے خاتمے کے لئے وزارت خارجہ نے خطیر رقم کے ٹینڈرز طلب کرلئے ہیں کہیں ان ٹینڈرز کو بھی چوہے ہضم نہ کرڈالیں۔ اس لئے اب تو احتیاط لازم ہے، یہ تو وزارت نے ازخود اپنے اندر چوہوں کی کثرت کا اقرار کرلیا ہے حالانکہ #
پتہ پتہ بوٹا بوٹا ان چوہوں کو جانےِ ہے
جانے نہ جانے وہ ہی نہ جانے کہ وہ بھی تو اک چوہا ہے
چوہے بڑے شیطان ہوتے ہیں اگر بوتل میں پڑے شہد تک اس کا منہ نہ پہنچ سکے تو اپنی دم بوتل میں ڈال کر اسی کو چاٹ لیتا ہے،پانچ برس سے یہ چوہے وزارت خارجہ کو کتر رہے ہیں اور جب کچھ نہ بچا تو وزارت نے جاتے جاتے چوہا مار ٹینڈر طلب کرلئے تاکہ اور کچھ نہیں تو چوہے کی دم ہی سہی، یہ چوہے تو ختم ہوجائیں گے یہ الگ بات ہے کہ دوسرا جنم لے کے پھر آجائیں اور وہ ڈرون حملے پھر سے شروع کرادیں کیونکہ وہ بھی اپنی کثرت سے تنگ ہیں کہ کئی چوہے بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔
#######
لالی ووڈ کی اداکارہ صائمہ نے کہا ہے، فلم انڈسٹری کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے میدان میں نکلنا ہوگا۔
میدان میں تو صائمہ نکلی تھیں مگر میدان ہی بھاگ گیا۔ اب اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ میدان کو وہ بھاری لگیں یا پھر یہ کہ کوئی پیسہ لگانے کو تیار نہیں۔ آخر یہ ہماری وزارت ثقافت ہے، اس کے پاس جو کروڑوں کے فنڈز ہوتے ہیں وہ کیا اسے میلاد شریف کرانے کو دئیے جاتے ہیں یا قومی ثقافت اجاگر کرنے کے لئے، آج پاکستانی کلچر کی بہترین نمائندہ اس کی فلم انڈسٹری ہی ہوسکتی ہے لیکن وہ ڈوب چکی ہے ،اگر حکومت بجائے کسی اور کے اس کی پشت پر ہاتھ رکھتی تو یہ اور ختم ہوچکے ہوتے اور صائمہ یوں واویلا نہ کرتی۔ بھارت نے فلمی میدان میں اپنے کلچر کے حوالے سے کوئی رول ادا نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہاں کے سرمایہ دار اور خود بھارتی حکومت نے بالی ووڈ کو پوری دنیا میں متعارف کرادیا ہے لیکن یہاں پاکستانی فلم انڈسٹری سر کے بل کھڑی ہے، صائمہ اکیلی کیسے اسے پاؤں پر کھڑا کرسکیں گی۔ہماری فلم انڈسٹری سے تو زیادہ بالی جٹی کا تھیٹر چلتا تھا ، صائمہ اپنے ساتھیوں کو سمجھادیں کہ بالی ووڈ کا مقابلہ اپنے کلچر سے کریں کیونکہ بالی ووڈ تو نرے بلیو پرنٹ چلانے پر آگیا ہے جو کہ کسی بھی قوم کا کلچر نہیں۔ اگر پاکستان فلم انڈسٹری اپنے ہی ملکی حالات اور خوبصور ت کلچر کے پس منظر میں اچھی معیاری فلمیں تیار کرے تو یہ بالی ووڈ کا کریز لوگوں میں ختم ہوجائے گا، یہ جو ہمارے کیبل آپریٹرز ہیں یہ بھی بالی ووڈ کی خاندان میں بیٹھ کر نہ دیکھی جاسکنے والی فلموں کو یہ بہانہ کرکے چلا رہے کہ خود لوگوں کے گھروں سے یہ بے لباس فلمیں چلانے کی فرمائش کی جاتی ہے، پیمرا تو بس ایک کیمرہ ہے جس میں ریل ہی نہیں اسے بھلا کیا نظر آئے گا۔ وزارت ثقافت سخت نوٹس لے ورنہ ہم اپنی فلم انڈسٹری تو ڈبو چکے ہیں کلچر بھی کھودینگے۔
#######
ایل ڈی اے کا خالی آسامیوں پر خواجہ سرا بھرتی کرنے کا فیصلہ۔
لگتا ہے ایل ڈی اے کے رگ و پے میں بھی خواجہ سرائی سرایت کرگئی ہے اور یہ جو اس نے ایک ٹھمکا لگایا ہے اس سے ایل ڈی اے تالیوں کی آواز سے گونج اٹھے گا۔ اب جدید دور ہے اس لئے خواجہ سرا ،کھسرا ،ہیجڑا کوئی نہیں کہتا اب اس صنف سخت نازک کو شی میل (She male)کا نیا نام دے دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ سٹیریو ٹائپ مرد اپنے ماحول کو خود کفیل کردے گا اگر کوئی شی میل قابل ہو تو اسے ہر محکمے میں کام کا موقع دیناچاہئے آخر جو خالص خواتین ہیں وہ بھی تو دفتروں میں کام کرتی ہیں تو اپنے نازو ادا کو ترک تو نہیں کردیتیں لہٰذا شی میلز کو بھی ان کے لائف سٹائل سے محروم کرنا غیر فطری سی بات ہے ،وہ بھلے تالی بجائیں، ٹھمکہ لگائیں، پرتکلف عشوہ و غمزہ دکھائیں اور میک اپ در میک اپ کریں ،کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور محکمے کے نوجوان کم از کم اتنا تو کہہ سکیں گے #
عشق مجھ کو نہ سہی وحشت ہی سہی
تیرا ٹھمکا، میرے دل کی حسرت ہی سہی
اگر شی میلز ہر دفتر میں بھرتی کئے جاتے رہیں تو دفاتر میں کچھ عرصہ تو خوب رونق سی لگی رہے گی پھر دھیرے دھیرے پورا دفتر ہی شی میل ہوجائے گا اور ممکن ہے ایل ڈی اے کو عوام الناس لاہور کھسرا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے پکارنے لگیں۔ اب تو یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ہماری ترقی میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک ہی انسان کو تین قسم کی انسان بنادیا ہے، یہ تینوں اگر مل کر کام کریں تو یہاں ترقی کا”ہنیری“ آجائے ،ایل ڈی اے نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے، بس دھیان رہے کہ قدم کیٹ واک میں نہ بدل جائیں۔