آبادی پر قابو کیسے پائیں؟

February 15, 2019

کراچی میں رہنے اور پھر با رسوخ ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کراچی میں سب سیٹھ اور مالدار لوگ بستے ہیں، پیسے بنانے کے علاوہ کبھی کراچی جم خانہ کی مدد کر دی اور نفیس مہمانوں کے کمرے بنا دیئے۔ کبھی کراچی آرٹس کونسل کی مدد کر دی اور اب تو نئی تحریک ادب فیسٹیول کے نام سے نہ صرف ظاہر ہوئی بلکہ یہ بہار پھولوں کے ساتھ کراچی گورنر ہائوس تک پہنچی۔ بے چارہ گورنر ہائوس، جس کو کہنے کو تو عوام کے لئے کھولا گیا ہے مگر ایک پخ یعنی شناختی کارڈ کے بغیر آپ بے شک طرم خان ادیب ہوں گے مگر کچھ نہیں۔ بس یہی افسرانہ خامی تھی کہ عام لوگ شاید ڈر کر نہیں آئے۔ مگر پھر بھی ہنگامہ اور تشنگان ادب کبھی گیارہ بجے اور کبھی شام کے ساتھ ہی وارد ہوئے۔ مسئلہ بلوچستان کا ہو کہ لیاری کا یا پھر افغانستان کا، بزرگ بہت اور نوجوان کم مگر سب سوال نوجوانوں نے کئے۔ آصف فرخی اور امینہ سید نے دنیا کو بتایا کہ کمال نظم کیا ہوتا ہے۔ زہرہ آپا نے حسب معمول سودا سے لیکر میر کے شعر سنائے۔ آج کے شاعر بھی تو ابتلا کے بارے میں لکھ رہے ہیں مگر زہرہ آپا تو دو چار کی جگہ دس بارہ مرنے والوں کا حزینہ سنا کر سب کا دل جیت لیتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں اب صرف وہی ہیں، سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔

ہر چند دوائیوں والوں نے آئو بھگت میں کوئی کمی نہیں ہونے دی مگر ایک موضوع جو آج کل عمران خان اور تمام میڈیا کو یاد آ رہا ہے، وہ ہے بڑھتی ہوئی آبادی کا۔ جس کے بارے میں اشتہار تو دے رہے ہیں مگر اسکی غایت اتنی بھی ظاہر نہیں ہو رہی جتنی کہ ڈیم کے اشتہاروں میں ظاہر ہوتی رہی۔ ہر چند ڈیم نہ اسطرح بنتے ہیں اور نہ آبادی میں اضافہ روکنے کیلئے بوسیدہ اشتہاروں کے ذریعے لوگوں اور خاص کر مردوں کے دماغ میں کوئی بات اتاری جا سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے 1966میں فیملی پلاننگ کے موضوع پر ہمارے انفارمیشن کے ادارے نے ایک مولانا سے اسلام کی رو سے آبادی کو کنٹرول کرنے کے مقاصد اور فوائد پر کتابچہ لکھوایا تھا۔ وہ دن اور آج 50برس بعد بھی اسی لہجے میں میڈیا پہ بات کی اہمیت کو ٹالا جا رہا ہے۔ سید محمد جعفری اور سید ضمیر جعفری کے علاوہ انور مسعود نے بھی خوبصورت مزاحیہ شاعری میں خاندان کو قابو کرنے کے بارے میں کچوکے لئے ہیں۔ انہیں ہی آزمانے کی کوشش کرلیں یا پھر، دوسرے ملکوں خاص کر بنگلہ دیش میں آبادی کو کس طرح قابو میں کیا گیا، یا پھر سری لنکا ہی کی مثال دیکر، مردوں کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ آپ بھی کہیں گے کہ پھر مردوں کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ اس دفعہ تو میرے اس رویے کی حمایت کریں کہ عورت اگر خود کم بچوں کی تحریک کے لئے آگے بڑھے تو ہمارے 80فی صد مرد اسکو تسلیم نہیں کرتے۔ ہر چند کہ اب تو دیہات میں بھی ہیلتھ یونٹ کام کر رہے ہیں۔ ابھی بھی50فیصد دیہی خواتین گھر پر ہی بچے کی پیدائش کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب طبیعت بگڑنے لگے تو کوئی رکشے یا کوئی ریڑھے پر ہچکولے کھا کھا کر بچے سمیت زندگی ہار جاتی ہے۔ مردوں کے لئے بھی انجکشن کے علاوہ دیگر طریقے رائج العمل ہیں مگر جسے مردانگی کہتے ہیں اسکا زعم، بیشتر مردوں کو کچھ بھی نہیں کرنے دیتا ہے۔ اس موضوع کو میڈیکل والے چھیڑتے ہی نہیں ہیں، عورتوں کے لئے بھی نئے انجکشن بازار میں دستیاب ہیں۔ یہ چھ ماہ سے لیکر سال دو سال کے لئے بھی کارآمد ہو سکتے ہیں۔ اسکے بارے میں باقاعدہ اشتہار دینے اور لوگوں کو راغب کرنے کی ضرورت کو اسطرح اجاگر کیا جائے، جیسے بچے کو دو سال تک دودھ پلانے کے لئے دستاویزی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں ہر موضوع پر اب تو کارٹون فلمیں بچوں اور بڑوں دونوں میں مقبول ہو رہی ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں باہر سے پڑھ کر آ رہے ہیں اور نئے خیالات کو پیش کرنے کی جرات کر سکتے ہیں۔ ان سے کام لیں۔ کوئی بھی جامع طریقہ آزمائیں، پرانی دائیوں کو نئے طریقے سکھائیں۔ عملی شکل میں بھی سمجھائیں، پھر کہیں جا کر دو یا تین بچوں کی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔

جب تک مدیحہ گوہر زندہ تھیں وہ ہمارے ساتھ دیہات میں جا کر اسٹریٹ تھیٹر کے ذریعے صحت و صفائی اور بچوں کی پیدائش میں وقفے کے بارے میں پیغام، محلے محلے پہنچایا کرتی تھی مگر وہ تھیٹر دیکھ کر بھی عورتیں کہا کرتی تھیں ’’ہمیں کیا سمجھا رہی ہو، ہمارے مردوں کو سمجھائو‘‘۔