جوش ملیح آبادی کی غزلیں

February 20, 2019

میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی

شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی

بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں

ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی

منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر

چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی

صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں

دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی

ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو

شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی

……٭٭……

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا

سوئی جو عقل روح نے بیدار کر دیا

اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں

اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا

یا رب یہ بھید کیا ہے کہ راحت کی فکر نے

انساں کو اور غم میں گرفتار کر دیا

دل کچھ پنپ چلا تھا تغافل کی رسم سے

پھر تیرے التفات نے بیمار کر دیا

کل ان کے آگے شرح تمنا کی آرزو

اتنی بڑھی کہ نطق کو بیکار کر دیا

مجھ کو وہ بخشتے تھے دو عالم کی نعمتیں

میرے غرور عشق نے انکار کر دیا

یہ دیکھ کر کہ ان کو ہے رنگینیوں کا شوق

آنکھوں کو ہم نے دیدۂ خوں بار کر دیا

……٭٭……