انصاف ہیلتھ کارڈ کا اجرا اپنی بڑی کامیابی تصور کرتا ہوں، شہرام خان ترکئی

February 24, 2019

جنگ پینل : ارشد عزیز ملک ،سلطان صدیقی، گوہر علی خان،پشاور…

عکّاسی: فرمان اللہ جان

سینئر صوبائی وزیر ِبلدیات، انتخابات و دیہی ترقّی ، شہرام خان ترکئی کا تعلق، خیبر پختون خواکی تحصیل اور ضلع، صوابی کے ایک سیاسی و کاروباری خاندان سے ہے۔ اُن کے والد، لیاقت خان ترکئی سینیٹر ہیں۔شہرام خان کے تعلیمی سفر کاآغاز، برن ہال اسکول سےہوا، جہاں چار سال زیر ِتعلیم رہنےکےبعداُن کا داخلہ فضل ِحق کالج ، مردان میں ہوگیا، دو سال بعد اُنہیں پشاور پبلک اسکول میں داخل کروادیا گیا، جہاں سے اُنہوں نے میڑک اور ایڈورڈز کالج، پشاور سے ایف ایس سی کیا۔لڑکپن سے جوانی کی دَہلیز پر قدم رکھتے ،شہرام خان کا دھیان پڑھائی سے زیادہ کاروبار کی جانب تھا، لہٰذا انہوں نے اِنٹر کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروبارشروع کردیا۔لیکن محض چار سال کی قلیل مدّت ہی میں اُن کی توجّہ دوبارہ حصولِ علم کی طرف راغب ہوگئی، تب اُن کے والدنے کہا کہ’’ مجھے اُمّید ہے کہ اب تم اپنی تعلیم ضرورمکمّل کروگے، میں نے دِل پہ پتّھر رکھ کر تمہیں کاروبار کی اِجازت دی تھی، اچھا ہوا کہ تمہارادِل خود ہی حصولِ علم کی طرف مائل ہوگیا۔‘‘ شہرام کو اَدُھوری تعلیم مکمل کرنے کا شوق اس لیے ہوا، کیوں کہ اُن کے بیش تَردوست اور ہَم جماعت،بڑے تعلیمی اداروں سے،اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے، مگر وہ، صرف بزنس کے ہوکر رہ گئے تھے۔ اُس کے بعد اُنہوںنے انگلینڈ جاکر کیمبرج اور آکسفورڈ سےپڑھا۔ آسٹریلیا سے بزنس کی تعلیم میں سندلی اور 2005ء میں وطن واپس آکر دوبارہ کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔تاہم، محض ڈھائی ماہ بعد خاندان کےبزرگوں کے مشترکہ فیصلے سے سیاست کے میدان میں قدم رکھااور بلدیاتی انتخابات میں ضلعی ناظم منتخب ہوئے۔ گرچہ ان کا خاندان ،کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی سر گرم تھا، مگر شہرام کا اِس میدان میں قدم رکھنا غیر متوقع تھا۔وہ 2009ء تک ضلعی ناظم رہے۔پھر2013ءکےعام انتخابات میں ، عوامی جمہوری اتّحادپارٹی (اے جے آئی پی)کے ٹکٹ پر،جس کی بنیاد اُن کے والد نے رکھی تھی ، صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئےاور اُس وقت کے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا،پرویز خٹک کی کابینہ میں سینئر وزیر برائے ایگری کلچر/ آئی ٹی اور بعدازاں وزیر ِصحت بھی رہے۔ 2018ءکےعام انتخابات میں پاکستان تحریک ِانصاف کے ٹکٹ پرصوبائی اسمبلی ، خیبرپختون خوا کی نشست پر کام یاب قرار پائے۔ شہرام خان ، اس وقت موجودہ وزیر ِاعلیٰ کے پی کے،محمود خان کی کابینہ کا حصّہ ہیں اور اُن کے پاس بلدیات،انتخابات و دیہی ترقّی کا قلم دان ہے۔گزشتہ دِنوں اُنہوں نے روزنامہ جنگ ،پشاور کے بیورو آفس کا دَورہ کیا، تو اِس موقعے پر اُن سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
جنگ پینل سے گفتگو کرتے ہوئے

س: صوبائی حکومت کی کار کردگی سے مطمئن ہیں؟

ج: وزیر ِاعلیٰ ،محمود خان بہت اچھے انسان ہیں اور ہم اُن کی ٹیم کا حصّہ ہیں۔ ہم وزیر ِ اعلیٰ کے ساتھ مِل کر صوبے کے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ، وزیر ِ اعظم عمران خان کا انتخاب ہیں اور ہمیں اپنے کپتان پر پورا بھروسا ہے۔ پچھلی مرتبہ، جب ہمیں حکومت ملی تھی، تو سوائے پرویز خٹک کے، تقریباً تمام وزرا،نا تجربہ کار تھے، مجھے پھر بھی نظامت کا تجربہ تھا۔ مگر اُس کے باوجود ہم سب نے بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا، جیسے میں نے شعبۂ صحت میں، عاطف خان نے شعبۂ تعلیم میں ، اِسی طرح مختلف وزرا نے اپنے اپنے شعبوں میں اچھی کار کردگی دِکھائی ۔ اب ہمارے پاس لگن بھی ہے اور تجربہ بھی، اِس لیے کارکردگی مزید بہتر ہوگی۔

س: لوکل گورنمنٹ میں کیا بہتری لا رہے ہیں؟

ج:لوکل گورنمنٹ ایک وسیع محکمہ ہے ، اسی لیے اس کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ گزشتہ پانچ سالہ حکومت کے دوران ،اس میں بہت بہتری لائی گئی ہے۔ تاہم، یہ محکمہ مزید بہتری کا متقاضی ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ یہاں حاضری کے نظام کو بائیو میٹرک کرنےکی ضرورت ہے ،پورے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہے۔ ہم نے پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی اے) کا سارا نظام کمپیوٹرائزڈ کر دیاہے ۔پی ڈی اے میں احتساب، بہتر کام کرنے اور چیزوں کو شفّاف بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اسی طرح ،ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) کو بھی بہتر کر رہے ہیں۔جائزہ لیا تو، پتا چلا کہ ایک ٹی ایم اے ،ایسا بھی ہے، جس میںجونیئر کلرک کی 104،سینئر کلرک کی 35اور کلاس فورکی 90اسامیاںہیں،جب کہ خاکروب صرف120ہیں۔ حالاں کہ خاکروب انتہائی اَہم ہیں، سب سے زیادہ بھرتیاں ان کی ہونی چاہئیں۔ مستقبل میں انہی آسامیوں پر بھرتیاں ہوںگی، جن کی ضرورت ہو اور ملازمتیں اقربا پروی کی بنیاد پر نہیں بلکہ باقاعدہ ٹیسٹ کے ذریعے دی جائیں گی۔ہم نے محکمے کے کارکنان کو ہدایات دی ہیں کہ محکمے کےسوشل میڈیا اکاونٹس پرایکٹیو رہیں، محلّے، گائوں کے نام ، وہاں کے ترقیاتی کام اور تمام ریکارڈ اَپ ڈیٹ کریں، تاکہ جو بھی کام ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے آئے۔ہم، ٹی ایم ایز اور ہائوسنگ اتھارٹیز کے مابین صفائی کےمقابلےبھی منعقد کروائیں گے ،جن میں بہتر کارکردگی دِکھانے والوں کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ویسے بھی یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب کسی کےکام کو سراہا جاتا ہے، تو اس میں کام کو بہتر طور پر کرنے کا جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان مقابلوں کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ’’ٹاپ فائیو ‘‘ملازمین کے ساتھ ’’لاسٹ فائیو‘‘ کےنام بھی سامنے آئیں گےاور کارکنان کی کار کردگی بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائےگی ، جس سے عوام کو سہولتیں میسّر آئیں گی۔

س: کئی اَدوارسے سنتے آرہے ہیں کہ کچرے سے بجلی بنائی جائے گی، مگر اس حوالے سے عملی اقدمات نظر نہیں آتے، ویسٹ انرجی کا کوئی پلان ہے؟

ج: یقیناً پوری دنیا میںکچرےسے انرجی اور دیگر چیزیں بنائی جارہی ہیں، مگر ہمارے صوبے میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہوا ۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی واضح ہدایات ہیں۔ اسی سلسلے میں پچھلے دونوں ہماری پنجاب کے صوبائی وزیر،علیم خان اور ایک کمپنی سے میٹنگ ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچرے سے انرجی اور بجلی وغیرہ بنانے کے لیے نجی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور(ڈبلیو ایس ایس پی) شہر سے روزانہ ساڑھے سات سو ٹن سے زائد گندگی، کچراکٹھا کرکے ٹھکانے لگاتا ہے، لیکن ہم اُس کچرے سے استفادہ نہیں کرپاتے، اُس سے انرجی اور فرٹیلائزر وغیرہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اِن شاء اللہ ہم ایک ہی سال کے دوران ویسٹ انرجی متعارف کروائیں گے۔

س: لوکل گورنمنٹ ایکٹ آپ ہی کی حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے، مگراب اس میں پھر ترامیم لا رہے ہیں،کیوں؟

ج: ہم نےلوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت تین ،چار سال کام کیا۔ تاہم، جہاں قوانین میں بہتری کی گنجائش ہو،وہاں ترامیم بھی کی جاتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ’’ویلیج نیبر ہُڈ کاؤنسل اور تحصیل /ٹاؤن کونسل‘‘ کی سطح پر یہ نظام جاری رہے ،مگر ضلعی سطح سے اسے ختم کردیں۔ علاوہ ازیں،ہم کاؤنسل کے ارکان کی تعداد میں بھی کمی کر رہےہیں۔ ویلیج کاؤنسل کی سطح پرپندرہ سےسترہ، افراد کے بہ جائے اگر پانچ، سات افراد ہوں، تو معاملات زیادہ بہتر انداز میں چل سکتے ہیں۔ضلعی حکومت نہیں ہوگی، تو اُس کے اختیارات تحصیل کی سطح پر منتقل ہو جائیں گے، مثال کے طور پر اگر پشاور ڈسٹرکٹ ،ایک کے بہ جائے چار یا پانچ ٹائونز پرمشتمل ہو، تونظام بہتر طور پر چلے گا اورعوام کو خدمات کی فراہمی بھی بہتر ہوگی۔ ہم نے اپنی سَمت کا تعین کیا ہوا ہے۔ ویلیج /نیبر ہُڈ کاؤنسل اور تحصیل کی سطح کے کام الگ ہوں گے۔ اِس وقت تو ڈسٹرکٹ ، تحصیل اورویلیج /نیبر ہُڈ کاؤنسل ، یہاں تک کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز، سب ایک ہی طرح کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ ترقیاتی کام لوکل گورنمنٹ ، قانون ساز اسمبلیوں اور سینیٹ کے کرنے کے ہیں۔

س: لوکل گورنمنٹ کو اکثر و بیش تر،فنڈز کے اجراکا مسئلہ رہتا ہے۔اِس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج: لوکل کاؤنسلز کے فنڈز جمع رہتے ہیں، ضائع نہیں ہوتے۔ہم نے برٹش کاؤنسل سے معاہدہ کیا ہوا ہےکہ جب یہ کاؤنسلز ختم ہوں گی اور انتخابات ہوں گے، تونئے منتخب نمائندوں کو الگ تربیت دیں گے اور لوکل کاؤنسلز کے سرکاری اہل کاروں کو الگ ۔پھر منتخب نمائندوں میں سے بھی خواندہ اور ناخواندہ اہل کاروں کوالگ انداز میں تربیت دی جائے گی، تاکہ ان کی اِستعداد کار بڑھے۔

س: اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ سڑکیں، نالیاںاور گلیاںوغیرہ بنتی ہیں ،پھر دوسرے محکموں والے اپنی کیبل پائپ وغیرہ بچھانے کے لیے، انہیں توڑدیتے ہیں، یوں فنڈز کا ضیا ع ہوتا ہے اور ترقیاتی کام بھی متاثرہو تے ہیں۔

ج: بیرونِ ممالک میں شاہراہیں، سڑکیں اور گلیاں بنتی ہیں ،تو اس میں بجلی، گیس، کیبل، نکاسی کے لیے علیحدہ نالیاں بھی بنائی جا تی ہیں، بعد میں اگر کسی اور محکمے کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے،تو اسے پتا ہوتا ہے کہ کس کام کے لیے کون سی لائن ڈالی گئی ہے اور وہ اس میں سے اپنی کیبل اور پائپ گزار لیتے ہیں ۔جب کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ البتہ، اب ہم پی ڈی اے کو پشاور کے کسی علاقے میں ٹیسٹ کیس کے طور پر ایک پائلٹ پراجیکٹ دیں گے، پی ڈی اے میں یہ کام کرنے کی بھرپور اہلیت ہے،اُمّید ہے، جلد اِس حوالے سے علاقے کی نشان دَہی ہو جائے گی ، پھر مستقبل میں اُس ماڈل پر پلاننگ کریں گے۔

س: بس ریپِڈٹرانسفر(بی آر ٹی)، پشاور منصوبہ کب تکمیل کو پہنچے گا؟ اس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور منصوبے پر آنے والی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

ج: اس طرح کے منصوبوں کی تکمیل میں کم از کم ڈیڑھ سال لگتا ہے۔ سابقہ حکومت کی خواہش تھی کہ یہ وقت سے پہلے مکمل ہو،تا ہم ایسا نہ ہو سکا۔ اس منصوبے کو شروع ہوئےایک سال تو ہو گیاہے، چھے ماہ مزید لگیں گے۔تاہم، ہماری کوشش ہے کہ یہ جلد اَز جلد مکمل ہوجائے۔ ویسے اس کی ’’سافٹ اوپننگ ‘‘(محدود عرصے کے لیے آغاز) مارچ میں ہو سکتی ہے، مگر فی الوقت ،وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کوشش کر رہے ہیں کہ بس کے مرکزی رُوٹ پر کام چلتا رہے اور اطراف کی سڑکیں کھول دی جائیں۔ اس پرکام کی رفتار مزید بڑھا دی ہے، اِس کے دونوں اطراف تین تین لائن کی سڑکیں دیں گے۔ بی آر ٹی کے ساتھ گیس کے پائپ،بجلی کی لائنیں ، کھمبے، واٹر سپلائی کے پائپ اور نکاسیٔ آب کے نالے بھی بہت عشروں بعد تبدیل کیے ہیں۔ بسیں بھی جلد پہنچ جائیں گی ۔

س: ضم شدہ قبائلی اضلاع میں لوکل باڈیز الیکشن کے لیےکیا اقدامات کیے ہیں؟

ج:ضم شدہ قبائلی اضلاع میں پہلے صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوں گے ،پھر لوکل باڈیز الیکشن ۔ صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹوں کی تیاری و اندراج وغیرہ کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ آئینی تقاضوںکے مطابق الیکشن کمیشن کو جولائی تک انتخابات کرواکےیہ عمل مکمل کرنا ہے، لوکل باڈیز کے لیے بھی حلقہ بندیوں کا کام جلد مکمل ہوجائے گا۔ سات ضم شدہ اضلاع اورفرنٹیئر ریجن( ایف آر) کے چھے علاقے ، اُنّیس سب ڈویژنز میں تقسیم ہیں ،جن میں تحصیل ناظم کا انتخاب ہو گا ، پھر تقریباً آٹھ سو ولیج کاؤنسلز بنیں گی، بعد ازاں، اُن میں بھی انتخابات ہوں گے۔

س: رائٹ ٹو سروسز ایکٹ ،سابقہ حکومت میں پاس ہو چکا ، مگراُس پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

ج:رائٹ ٹو سروسز ایکٹ کے تحت ہرتحصیل ،ٹائون کی سطح پر ’’سٹیزن فیسی لیٹیشن سروسزسینٹرز‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں سے این او سی ،لائسنس، پیدائش و اموات کی اسناد اور دیگر سروسز فراہم کی جائیں گی۔ نادرا سے بات کر کے، اِن سینٹرز میں اِس کا ایک کاؤنٹر بھی کھولیں گے۔

س: رِنگ روڈ، پشاور کا ایک حصّہ ورسک روڈ سے جمرود روڈ تک ابھی باقی ہے، اسے مکمل کرنے کی کیا منصوبہ بندی ہے؟

ج: ورسک سے جمرود روڈ تک، رِنگ روڈ کا بارہ کلو میٹر حصّہ ابھی باقی ہے ۔یہ بارہ ارب روپے کا پراجیکٹ ہے، اسے وفاق سے قرضہ لے کر مکمّل کریں گے۔

س: سابقہ دَورِ حکومت میں پشاور کی آرائش کی گئی تھی، مگر بی آر ٹی منصوبے کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا ہے، کیا شہر کی بہتری و خوب صورتی پربھی کچھ توجّہ دی جائے گی؟

ج: پشاور ،صوبے کا دارالحکومت ، سب سے بڑا شہر اور معاشی و اقتصادی حب ہے۔ اِس کی ترقی و خوب صورتی ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہے، ہم ہر سال پشاور کی ترقی و آرایش پر پانچ سے چھے ارب روپے خرچ کریں گے۔ بی آر ٹی منصوبہ اپنی جگہ ،مگر اس کے علاوہ دیگر سڑکوں کی تعمیر و مرمّت ، توسیع اور شہری کی خوب صورتی بحال رکھنے، اسے حقیقت میں پھولوں اور باغات کا شہر بنانے کے لیےمختلف منصوبے روبۂ عمل لائے جائیں گے۔ یہاں سگنل فِری کوریڈور، انڈر پاسز اور آرایش کے مختلف منصوبے بھی شروع کریں گے۔تاہم، اس وقت پشاورکئی گمبھیر مسائل میں گھرا ہوا ہے اور اِن پانچ برسوں میں ہم شہر کو ان سے نجات دِلانے کے اقدامات کریں گے۔

س: ریگی ماڈل ٹائون (آر ایم ٹی)کے دو فیز اب بھی کلیئر نہیں ہو ئے، اُس حوالےسےکیا اقدامات کررہے ہیں؟

ج: ڈائریکٹر جنرل، پی ڈی اے، اسرار الحق کو ہدایت کر دی ہے کہ زون ٹو اور فائیو کو جلد اَز جلد کلیئر کردیں ۔

س: آپ نے اپنی پارٹی ،پی ٹی آئی میں ضم کردی ،کیا اپنی ہی جماعت کے ساتھ آگے بڑھنا اچھا نہیں تھا؟

ج: مَیں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ضم ہونا زیادہ بہتر ثابت ہوا، کیوں کہ ہماری جماعت ، صرف ایک ضلعی سطح کی جماعت تھی، جب کہ پی ٹی آئی قومی سطح کی پارٹی ہے ۔ عمران خان نے ہمیں عزّت دی اور وہ ایمان دار انسان بھی ہیں،اچھا کام کرنے والوں کو بہت سراہتے ہیں،انہوں نےضرورت پڑنے پر میرے ایک میسیج پر اسلام آباد سے پشاور آکر میرےساتھ پریس کانفرنس بھی کی ،مَیں اُن سے بہت متاثر ہوں۔ اپنی پارٹی کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کا فیصلہ راتوں رات نہیں کیا، بلکہ میں نے ڈھائی سال اُس جماعت پر تحقیق کی،کام دیکھا،پھرانضمام کا فیصلہ کیا۔

س: شادی کب کی اور گھر والوں کی پسند سے کی یا اپنی؟

ج: شادی میری پسند سے خاندان کی لڑکی سے2001ء میں ہوئی اورہماری تین بیٹیاں ہیں۔

س: اہلیہ سے نوک جھونک ہوتی ہے؟

ج: شکر ہے ، کبھی نوک جھونک نہیں ہوئی۔ ویسے بھی میں کام کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہرہی رہتا ہوں، اس لیے نوک جھونک کا وقت ملتا ہے اور نہ ہی نوبت آتی ہے۔میری بیوی نے گریجویٹ ہے، مگر گھریلو خاتون ہیں اور ہم دونوں ایک دُوسرے کا مزاج بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

س: کس طرح کا لباس زیب ِ تَن کرنا پسند کرتے ہیں؟

ج: ذاتی طور پر مجھے شلوار قمیص پہننا زیادہ پسند ہے، مگر اُسے روز دھونا پڑتا ہے۔البتہ’’گوروں‘‘کے لباس میں آدھا مہینہ بھی گزارلو، تب بھی مَیلا نہیں لگتا۔پھٹ جائے، تو جدیدفیشن کے مطابق ہوجاتا ہے۔جب میں بیرون ملک سےفارغ التّحصیل ہوکر وطن آیا،تو جینز، شرٹ وغیرہ زیادہ پہنتا تھا۔ ایک مرتبہ میںجینز، ٹی شرٹ پہن کر گاؤں چلا گیا،اُس وقت مجھے ضلع ناظم بنے دو سال ہو چکے تھے۔وہاں انکل سے ملنے بھی گیا،جہاںاُن کے کمرے میں کچھ ا حباب بھی موجود تھے۔ مَیں جب بات کرکے کمرے سے باہر نکلا ، تو انکل نے مجھ سے کہا’’ یہ جینز تبدیل کر لو۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اس کی جیب میںسے دھاگے نکل رہےہیں ۔ میں نے کہا، یہ پتلون پُرانی یا خراب نہیں ہے، بلکہ یہ فیشن ہے۔ اِس پرانکل کے دوستوں نے اُن سے کہا کہ ’’لباس سے کچھ نہیں ہوتا، آپ اس سے نماز اوراس کی دیگر ذمّےداریوں کے بارے میں پوچھیں۔‘‘

س: موسیقی سُننا پسند ہے؟

ج: جی بالکل! پشتو، اُردو،انگریزی تینوں زبانوں میں موسیقی سننا اورغنی خان کی شاعری بہت پسند ہے۔ خیال محمد ، نصرت فتح علی خان اور نئی نسل کے کئی گلوکاروںکو سننا بھی اچھا لگتا ہے۔ تاہم ، آج کل گانے سُننے کا وقت نہیں مِل پاتا۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد جاتے ہوئے گاڑی میں تقریباً سات ماہ بعد میوزک آن کیا، ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک کال آگئی ، بس بات کرتے کرتے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور گانا بیچ ہی میں رہ گیا۔

س: اسپورٹس سے کوئی دل چسپی ہے؟ کون سا گیم کھیلتے ہیں؟

ج:جب میں آسٹریلیا میں تھا، توکرکٹ کھیلتا تھا،میں فاسٹ بالر تھا۔فٹ بال، ٹیبل ٹینس اور ہاکی بھی کھیلی ہے۔ تاہم، کرکٹ زیادہ کھیلی۔

س: گھر والوں کو وقت دیتے ہیں؟بچّیوں سے دوستی ہے؟

ج: گھر والوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا، مگر جب بھی فراغت ہوتی ہے، تو یہی کوشش کرتا ہوں کہ سارا وقت بچیّوں ہی کے ساتھ گزاروں۔بچیّوں پر سختی،روک ٹوک اُن کی والدہ کرتی ہیں، جب کہ میں اُن کا حمایتی ہوں، اس وہ مجھ سے بہت خوش رہتے ہیں۔

س: بچیاں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتی ہیں؟

ج: میری کوئی بچّی سیاست دان نہیںبننا چاہتی۔ہاں،ڈاکٹر بننے کا شوق ہے، تاہم ابھی وہ چھوٹی ہیں، دیکھتے ہیں بڑے ہوکر کس شعبے کی طرف جاتی ہیں۔

س: کس بات پر غصہ آتا ہے؟

ج:کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں۔مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔ہم، چار بہن ، بھائی ہیں۔مجھ سے دو سال چھوٹا بھائی، بچپن میں بہت شرارتی تھا، اُس سے کوئی چیز ٹوٹتی یا شرارت کرتا ،تو والدین کے پوچھنے پروہ صاف مُکر جاتا ، مگر میں اپنی شرارت کبھی نہیں چُھپاتا تھا۔ حالاں کہ اس وجہ سے مجھے ڈانٹ بھی پڑتی تھی، لیکن میرے لیے سچ بولنا زیادہ اَہم ہے۔ مَیں اپنے ووٹرز سے بھی جھوٹ نہیں بولتا ،جو کام نہیں ہو سکتا، ووٹ حاصل کرنے کے لیے کبھی اُسے کرنے کا وعدہ نہیں کروں گا۔

س: کوئی ایسا غم ،جو آج بھی افسردہ کر دیتا ہے؟

ج: جب میں سولہ، سترہ برس کا تھا،تو والدہ فوت ہوگئی تھیں۔ وہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم ہے۔ تاہم، شُکر ہے کہ ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں، چچا، چچی، پھو پھی وغیرہ نے ہمیں سنبھالا اور اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا۔ اب بھی اگر مجھے کوئی مسئلہ دَرپیش ہوتا ہے، تو مَیں والد کو بتانے کے بہ جائے اپنے چچا سے بات کرتا ہوں۔

س: آپ کےدوست ہیں؟

ج: دوستی ایک خُوب صُورت رشتہ ہے ۔ بچپن اور اسکول کے دوستوں کی تو کیا ہی بات ہے۔ اُس دَور میں بننے والے دوست بے غرض اور دوستی بے لوث ہوتی ہے۔تاہم،سیاست کی وجہ سے اب اُن سے ملنے کا وقت نہیں مل پاتا۔ گزشتہ دس، پندرہ سالہ سیاسی زندگی میں بھی بہت دوست بنے ،مگرجب بھی بچپن اورا سکول کے دوستوں سےملتا ہوں، توجذبات الگ ہی ہوتے ہیں۔

س: اپنی زندگی کی کام یابیوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

ج: گزشتہ حکومت میں، جب مَیںوزیر ِصحت تھا ، تو رحمٰن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (آر ایم آئی)، حیات آباد میں انصاف ہیلتھ کارڈ کے اجرا کی تقریب کا افتتاح کرنے گیا۔اسپتال کے ایک نجی کمرے میں، مردان سے آیا ہوا، مہمندخاندان کا ایک شخص داخل تھا،جس کی اوپن ہارٹ سرجری ہونے والی تھی۔ غالباً،اُس کے ساتھ اُس کی بیوی یا بیٹی اور ایک بیٹا تھا، اُن کے حلیے سے صاف عیاں تھا، کہ وہ انتہائی غریب ہیں،اُس کے باوجود وہ انصاف ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے اُس جگہ علاج کروارہا تھا،جہاں امیر لوگ ہی علاج ،معالجے کا سوچ سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور مریض بھی نظر آئے، جنہیں دیکھ کر ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے کی گئی اپنی محنت پر فخر محسوس ہوا اور اللہ کا شُکر بھی ادا کیا۔ اُس موقعے پر میں نے اُن مریضوں سے کہا کہ’’ ہمارے حق میں دعا کریں، اگر آپ کی دعا ئیں قُبول ہوگئیں، تو یہی ہماری بخشش کا سامان بن جائیں گی۔‘‘جب مجھے ہیلتھ کارڈ کےاجرا سے پہلے بریفنگ دی گئی ، تو اُس میں بتایا گیا کہ وہ بہ طور ماڈل صرف چار اضلاع کے لیے ہے، جس سے صرف پندرہ فی صدلوگ ہی مستفید ہوسکیں گے۔ بریفنگ سننے کے بعد میں نے اسے پچاس فی صد تک بڑھانے اور پورے صوبے تک پھیلانے کا ٹاسک دیا، خوش قسمتی سے یہ 70 فی صد تک پھیل چکا ہے۔ مَیں صوبے میں انصاف ہیلتھ کارڈ کے اجرا کو اپنی بڑی کام یابی تصوّر کرتا ہوں۔