سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری ؟

February 21, 2019

سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کی اسلام آباد آمد کے موقع پر حاجیوں، پاکستانی مزدوروں اور قیدیوں کا مقدمہ پیش کر کے عمران خان نے ایسا قابل تعریف کام کیا ہے جس کی داد نہ دینا صحافتی بددیانتی اور پرلے درجے کی بخیلی ہو گی۔ میں نے حج سبسڈی کے موضوع پر 5فروری کو شائع ہونے والے کالم میں یہی تجویز دی تھی کہ اگر سعودی عرب سے اُدھار تیل اور مالی امداد کی درخواست کی جا سکتی ہے تو ان عام پاکستانیوں کے مسائل پر التجا کیوں نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان کی اس دردمندانہ گفتگو کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھا جائے۔ مروت اور وضع داری میں گُندھا یہ جملہ معنوی اعتبار سے بہت اہم ہے لیکن مالی امداد ہو، قرض یا پھر سرمایہ کاری، ہر ملک اپنے مفادات کے پیش نظر فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک پر کیا نچھاور کرنا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح معزز مہمان کی راہ میں پلکیں بچھائی گئیں، بھارتی میزبانوں نے اس طرح کے چونچلے نہیں کئےکیونکہ انڈیا پاکستان کے مقابلے میں بڑی تجارتی منڈی ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد درپیش صورتحال کے تناظر میں سعودی ولی عہد کے لئے بھی بھارت کا دورہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ بھارت کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہو گی کہ مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے خلاف کوئی ایسی سخت بات شامل ہو جسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ ان حالات میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین توازن برقرا رکھنا انتہائی دشوار ہو گا۔

بھارت ہمارا بدترین مخالف ہی سہی مگر ہمیں سفارتکاری سمیت بہت سے شعبوں میں اس ہمسایہ ملک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے عالمی تعلقات کے حوالے سے بدترین مخالف اور متضاد ممالک سے جس طرح توازن قائم کر رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے مگر اس کے تجارتی روابط پاکستان کی نسبت بھارت کیساتھ زیادہ مضبوط اور گہرے ہیں۔ سعودی عرب بھارت میں 44ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر پہلے ہی دستخط کر چکا ہے جس میں مہاراشٹرا کی رتناگیری بندرگاہ کے قریب آئل ریفائنری کے قیام کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے بھی سعودی کمپنیاں بھارت میں اربوں ڈالر کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں مثال کے طور پر گجرات کے ضلع Kutchمیں ’’انفار‘‘ نامی سعودی کمپنی 300ملین ڈالر مالیت کے توانائی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس سے 300میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ 2013ء تک امریکہ سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا مگر اب بھارت کو سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کا درجہ حاصل ہے اور دوطرفہ تجارت کا حجم 28ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی تجارت کا حجم 1.8ارب ڈالر ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن 2030ء جس کے تحت آئندہ پانچ برس کے دوران 500بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جانی ہے، بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے سی ای او امیتابھ کانت نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب اس میں سے 300بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آئندہ چار برس کے دوران بھارت میں کرے گا۔ دلچسپ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے حریف ہیں مگر یہ دونوں ممالک بھارت کے حلیف ہیں۔ بھارت سعودی عرب سے روزانہ 3لاکھ 57ہزار بیرل تیل خریدتا ہے تو ایران سے یومیہ 2لاکھ 79ہزار بیرل تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ ایران اور بھارت کی دوطرفہ تجارت کا حجم 14ارب ڈالر ہے جسے آئندہ پانچ سال میں دگنا کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور ایران کی دوطرفہ تجارت کا حجم 1.3ارب ڈالر ہے۔ بھارت کے ایران کیساتھ دفاعی نوعیت کے تعلقات ہیں اور بھارت نے گوادر بندرگاہ کو ناکا م بنانے کیلئے ایران کی چابہار بندرگاہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کے ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات سعودی عرب سے معاملات طے کرنے میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر طالبان کے وفد سے ملاقات بھی ایجنڈے میں شامل تھی اور طالبان وفد کی طرف سے اسلام آباد آمد کی تصدیق نہ ہونے پر ہی اس دورے کی تاریخ تبدیل کرنا پڑی مگر وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ طالبان کا دفتر قطر میں ہے اور قطر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہیں اس لئے طالبان نے کسی نئے بکھیڑے میں پڑنے کے خدشات کے پیش نظر ملاقات سے معذرت کر لی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جو پیشرفت ہوئی وہ پاکستان کے لئے خاصی پریشان کن رہی کیونکہ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ اب طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ نہیں رہا۔ طالبان نے امریکہ سے براہ راست مذاکرات کئے اور پھر ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں یہ وضاحت بھی کر دی کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں پاکستان سمیت کسی ملک کا کوئی کردار نہیں۔

بھارت کے برعکس ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم جب ایک ملک سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو غیر محتاط اور جذباتی پیشرفت کے باعث دوسرے ملک کو ناراض کر بیٹھتے ہیں۔ بہر حال محولا بالا پس منظر کو دیکھا جائے تو سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں دلچسپی اور سرمایہ کاری کرنے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ روایتی حریف ایران کی چابہار بندرگاہ پر نہ صرف نظر رکھی جا سکے بلکہ اسے کمزور کیا جا سکے ہم اس تناظر میں کامیاب حکمت عملی سے مزید سعودی سرمایہ کاری بھی لا سکتے ہیں لیکن عالمی تعلقات کے ضمن میں توازن قائم رکھنا بے حد ضروری ہے اور اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گوادر میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش میں کہیں ہم مختلف عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کا حصہ نہ بن جائیں جو پہلے ہی بلوچستان کو میدان جنگ بنانے پر اُدھار کھائے بیٹھی ہیں۔