خود کو ’ شاعر آخر الزماں‘ کہنے والے شاعر

February 22, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.


شاعر ہوں یا نثر نگار، انشائیہ پرداز ہوں یا مضمون نویس، انہوں نے سب کیلئے علم و ادب کے نئے پیمانے چھوڑے ہیں۔یہ تعارف ہے خود کو’شاعرِ آخرالزماں‘کہنے والے جوش ملیح آبادی کا جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

دِلی فتح کرنے والے نادر شاہ درانی نے اپنا شجرہ شمشیر ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر بتایا تھا، جبکہ جوش ملیح آبادی کو شاعر ابن شاعر بن شاعر کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے والد، دادا اور پردادا اپنے وقتوں کے معروف شعر اتھے جبکہ دادی کا تعلق کسی اور سے نہیں بلکہ اُردو شاعری کے سرتاج مرزا غالب کے خاندان سے تھا۔

جوش صاحب،جوانی میں صرف اپنے اور کوئے جاناں کے طواف کے قائل تھے تاہم بڑھاپا آیا تو پکار اُٹھے،کہ کوئی آیا ، تری جھلک دیکھی۔ کوئی بولا، سُنی تری آواز۔

علمی و ادبی خدمات پر بھارت میں پدم بھوشن جبکہ پاکستان میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

ان کے شعری مجموعوں کی تعداد 28 ہےجبکہ ایک درجن کے قریب کتابیں بھی تصنیف کیں۔

ان میں یادوں کی بارات زیادہ مشہور ، اور زیادہ متنازع ہے۔ جس میں انہوں نے گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور اور خود سمیت کئی دیوقامت ہستیوں کی خامیوں کا پردہ چاک کیا اور شہرت کے ساتھ بدنامیاں بھی سمیٹیں۔

برصغیر پاک و ہند کا یہ چہیتا سپوت،،، زبان و بیان کا یہ مشترکہ سرمایہ،، اور علم وادب کا یہ تابناک سورج پانچ دسمبر 1898کو بھارتی شہر ملیح آباد میں طلوع ہوااور 22 فروری 1982ء کو کراچی میں غروب ہوگیا۔