پاکستانی قوم مستعد!

February 28, 2019

پیر اور منگل کی درمیانی شب بھارتی ایئر فورس کے طیاروں نے مظفرآباد سیکٹر میں آزاد کشمیر کی حدود کی خلاف ورزی کی جو کوشش کی،پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی کے باعث اس کی ناکامی اور بھارتی طیاروں کے بدحواسی کے عالم میں بالاکوٹ کے قریب اپنا پے لوڈ (گولہ بارود)پھینک کر فرار ہونے کے واقعے کے بعد بدھ کی صبح دو مختلف سیکٹرز میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی ایک اور کوشش یہ واضح کر رہی ہے کہ نئی دہلی کے حکمران پاک بھارت کشیدگی بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں جسے ناکام بنانے کیلئے پوری پاکستانی قوم بلاشبہ مستعد و تیار ہے مگر عالمی برادری پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کرّہ ارض کو اس سنگین خطرے سے بچانے کیلئے موّثر تدابیر کرے جس کی طرف حالات بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔بدھ کی صبح دو مختلف سیکٹرز سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی کوشش کرنے والے دونوں طیاروں کو پاک فضائیہ نے باقاعدہ وارننگ دے کر زمین بوس کیا ہے۔ان میں سے ایک طیارے کا ملبہ آزاد کشمیر کی حدود میں اور دوسرے کا ملبہ مقبوضہ کشمیر کی حدود میں گرا۔ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔بھارت نے اپنی خفت مٹانے کیلئے پاکستان کا ایک ایف 16طیارہ مار گرانے کا جو دعویٰ کیا،اس کی تردید کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مذکورہ کارروائی میں پاکستان نے کوئی ایف 16طیارہ استعمال ہی نہیں کیا۔ دفتر خارجہ نے یہ بات دہرائی ہے کہ اسلام آباد کشیدگی بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتا مگر اس نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ہے۔دفتر خارجہ کی وضاحت سے ظاہر ہے کہ بدھ کی صبح دن کی روشنی میں دراندازی روکنے کا مذکورہ اقدام اس جوابی کارروائی کا حصّہ نہیں جس کا اعلان پاکستان نے اپنے منتخب کردہ وقت اور مقام پر دینے کے حوالے سے کیا ہے۔پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے منگل کے اجلاس کے بعد بدھ کے روز نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے)کی میٹنگ کرنے، پارلیمانی رہنمائوں کو بند کمرے میں بریفنگ دینے اور جمعرات کو پارلیمنٹ کے اجلاس کی طلبی کے فیصلے اس قومی سوچ اور عزم کے ترجمان ہیں کہ وطن عزیز نہ تو دوسرے ملکوں کی حدود میں مداخلت پر یقین رکھتا ہے نہ ہی یہ اجازت دے سکتا ہے کہ کوئی اس کی سرزمین کے تقدس کو پامال کرے۔بھارتی قیادت نے 14؍فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے بڑے کانوائے میں شامل ایک بس پر کار بم خودکش حملے کے جس واقعہ کو جواز بنا کر پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا اور جنگی ہیجان کی کیفیت پیدا کی،ماضی میں بھارت کے خود تخلیق کردہ سانحات کی اصلیت سے واقف پاکستانی قوم کیلئے اسے سمجھنا مشکل نہیں۔وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دی گئی اس علانیہ ضمانت کے باوجود کہ پلوامہ واقعہ میں پاکستان کی طرف سے کسی کے ملوّث ہونے کے بارے میں قابل اعتماد انٹیلی جنس معلومات دی گئیں تو اسلام آباد کارروائی کرے گا،اس کا کوئی جواز نہیں تھا کہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا نام لے کر دراندازی کا مرتکب ہوتا۔عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں پہلی بار بھارت کو یہ پیشکش بھی کی تھی کہ اسلام آباد دہشت گردی سمیت ہر مسئلے پر نئی دہلی سے مذاکرات کیلئے تیار ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر باہر سے دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے ہوں یا پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ملک میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے والے، دونوں ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔یہ پاکستان کے ماضی کے اس موّقف سے بہت آگے کی بات ہے جس کے تحت پاکستان زور دیتا تھا کہ پہلے مسئلہ کشمیر پر بات ہونی چاہئے۔پاکستانی حکام نے اس باب میں بعض تنظیموں پر پابندی لگانے اور مدارس کا انتظام خود سنبھالنے سمیت ٹھوس اقدامات بھی کئے ہیں۔بدقسمتی سے بھارت میں اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے یا انتخابات میں کامیابی کیلئے حادثات و سانحات خود تخلیق کر کے پاکستان کو موردالزام ٹھہرانا اور ہیجانی کیفیت سے فائدہ اٹھانے میں کوئی عار نہیں سمجھا گیا جس کا اشارہ کئی بھارتی لیڈروں کے بیانات میں بھی ملتا ہے۔بھارت نے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک میں جیش محمد کا کیمپ تباہ کرنے اور 350سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر علاقے کے لوگوں اور عینی شاہدین کے مطابق ’’پے لوڈ‘‘گرائے جانے سے چند درخت ٹوٹے،دو گھر متاثر ہوئے اور ایک شخص زخمی ہوا۔بدھ کے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا مقصد کسی نئے جانی و مالی نقصان کی صورت میں منگل کے جھوٹ کو سہارا دینا معلوم ہوتا ہے۔وجوہ جو بھی ہوں،ایک طرف عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو معقولیت کی راہ پر لانے کی تدابیر کرے جس میں مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی سمت پیش قدمی بھی شامل ہے۔دوسری جانب پاکستان میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے داخلی محاذ پر مکمل یکجہتی نظر آنی چاہئے۔ اس مقصد کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کے اہتمام کی ضرورت ہے تاکہ میاں نواز شریف،آصف زرداری، اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام رہنمائوں کی طرف سے دنیا کو یہ پیغام جائے کہ ہر چیلنج کے مقابلے کیلئے تمام پاکستانی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔ یہ پیغام ایک جانب نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کی صورت میں جا رہا ہے جو جوہری اسلحے اور میزائل سسٹم کی آپریشنل کمان اور کنٹرول کی نگرانی کا ادارہ ہے جبکہ ہماری ایٹمی و میزائل صلاحیت کا اس کے اسمارٹ ہتھیاروں اور فنی مہارت کی بنیاد پر دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے۔ہماری ایئرفورس دنیا کی مانی ہوئی ایئرفورس اور برّی فوج وہ واحد طاقت ہے جس نے دہشت گردی کے منہ زور عفریت کو زیر کر لیا۔ہماری بحریہ بین الاقوامی سمندروں کی نگرانی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک طرف ان سب کی صلاحیتوں کو یکجا کر کے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم ہر چیلنج سے نمٹنا جانتے ہیں دوسری جانب متحرک سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو کشمیر کی صحیح صورتحال سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔سیاسی و فوجی قیادت اور صاحبان فکر کی اجتماعی دانش بروئے کار لانے کے ایسے انتظامات ضروری ہیں جن کی موجودگی میں جذباتیت کی بجائے ہر قدم احتیاط اور دانشمندی سے اٹھایا جائے۔موجودہ وقت آزمائش کا بھی ہے اور خود کو منوانے کا بھی۔ اپنی اجتماعی دانش کو منظّم کر کے ہم وطن عزیز کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنا سکتے اور عالمی برادری میں ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔