صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے!

March 03, 2019

حالیہ بھارتی جارحیت پر امریکی وزیر خارجہ مائیکل رچرڈ پومپیو نے اپنے ردِعمل میں جو بیانیہ اختیار کیا، انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان کو اِس بیانیہ پر سنجیدگی سے غور اور قومی سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے نئی خارجہ پالیسی مرتب کرنا ہو گی کیونکہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے 26 فروری کو مائیک پومپیو کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’بھارت کی طرف سے دہشت گردی کے تدارک کے لئے 26 فروری کو کئے جانے والے اقدامات کے بعد میں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات کی، جس میں سیکورٹی کے حوالے سے ہماری انتہائی قریبی شراکت داری پر زور دیا اور خطے میں امن وسلامتی برقرار رکھنے کے نصب العین پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ میں نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی بات کی اور اُن پر زور دیا کہ وہ فوجی اقدامات سے گریز کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر حالیہ کشیدگی کو ختم کریں اور پاکستان ہنگامی طور پر اُن دہشت گرد گروہوں کے خلاف بامعنی کارروائی کرے، جو اس کی سرزمین پر سرگرم ہیں‘‘ اس بیان میں سفارتی آداب کا خیال رکھا گیا اور سفارتی لغت استعمال کی گئی۔ بیان میں بھارت کی طرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی، جارحیت اور پاکستان پر حملے کو واضح طور پر دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے تعبیر کیا گیا۔ بیان میں بھارت کو یہ پیغام دیا گیا کہ امریکہ اُس کے ساتھ اپنی سیکورٹی پارٹنر شپ کی پاسداری کرے گا یعنی پاک بھارت جنگ کی صورت میں امریکہ بھارت کا ساتھ دے گا۔ بیان میں پاکستان کو تاکید کی گئی کہ وہ جوابی فوجی کارروائی نہ کرے اور اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف بامعنی کارروائی کرے۔ اِس بیان میں جو بیانیہ اختیار کیا گیا ہے، اسے سمجھنے کے لئے سفارت کاری میں کسی مہارت کی ضرورت نہیں۔ اِس بیانیہ میں مستقبل میں جو کچھ ہونے والا ہے، وہ بقول غالب:

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور استبدادی کارروائی سے تنگ آکر ہم جب بھی اپنے غم وغصے کا اظہار یا مزاحمتی کارروائی کریں گے تو بھارت اُس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دے گا اور پاکستان کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہو گا۔ امریکہ اور اُس کے حواری بھارتی جارحیت کو دہشت گردی کے خلاف اقدام سے تعبیر کریں گے اور بھارت کو جارحیت سے روکنے کے بجائے پاکستان پر دبائو ڈالیں گے۔ 26فروری کی بھارتی جارحانہ کارروائی نے یہ واضح کردیا ہے کہ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں شاید احساس ہو گیا ہے کہ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان اپنے لئے نئے مواقع تلاش کر رہا ہے اور اب امریکی کاسہ لیس کے طور پر وہ مزید کردار ادا نہیں کرے گا۔ عالمی سیاست میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار اور روس جیسی طاقت کی عالمی سیاست میں اپنے مؤثر کردار کی بحالی کی خواہش نے پاکستان کے لئے کئی مواقع پیدا کردیئے ہیں۔

پاکستان کو ’’قابو‘‘ میں رکھنے کے لئے امریکہ اور بھارت کی ’’انتہائی قریبی سیکورٹی پارٹنر شپ‘‘ سے ہمیں کبھی بھی غفلت نہیں برتنا ہو گی اور ہر جارحیت کا اسی طرح جواب دینا ہوگا، جس طرح پاکستان کی افواج خصوصاً پاک فضائیہ نے بھارتی طیارے گرا کر دیا ہے لیکن اس بات کا ضرور خیال رہے کہ اس وقت امریکہ اور بھارت میں حکمراں سیاسی قیادت کے بارے میں ان کے اپنے اور پرائے سب اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ملکوں کی یہ سیاسی قیادت جنونیت، انتہا پسندی اور پاگل پن کا شکار ہے۔ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کے لئے یہ چیلنج ہے کہ وہ اپنے تدبر اور حکمت عملی سے پاکستان کو تنگ کرنے والی بھارتی پالیسی کو، جسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی حاصل ہے، جنگ میں تبدیل نہ ہونے دے۔

بھارت اور اس کے مؤقف کی حمایت کرنے والی قوتیں دنیا میں یہ تاثر پیدا کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں انتہا پسند رہتے ہیں اور پاکستان ان انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اس پروپیگنڈے کا توڑ کرے اور اس کے مخالف بیانیہ کی ترویج کرے، جو دنیا میں کہیں نہ کہیں پہلے سے رائج ہے۔ وہ بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ دیا اور اسی انتہا پسندی کی بنیاد پر وہ اپنے عالمی سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کرتا ہے۔ پاکستان اب چیخ چیخ کر دنیا کو بتائے کہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف انتہا پسندوں کے ذریعہ ’’پراکسی وار‘‘ لڑی۔ امریکہ نے پاکستان میں انتہا پسندی کو پروان چڑھایا۔ اب یہ بھی کھل کر دنیا کو بتانا ہوگا کہ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر صرف اور صرف انتہا پسندی پر انحصار کرتا ہے۔ تمام انتہا پسند گروہ امریکی عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔ دنیا کو یہ بھی احساس دلانا ہو گا کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ مصنوعی ہے اور پاکستان ان انتہا پسندوں کے خلاف حقیقی جنگ لڑ رہا ہے۔ دنیا پر یہ بھی منکشف کرنا ہو گا کہ افغانستان اور پاکستان پر حملہ کرنے والے انتہا پسند گروہوں کی پشت پناہی بھارت کرتا ہے۔ دنیا کو اس حقیقت سے بھی آشکار کرنا ہو گا کہ بھارت کے ایٹم بموں پر مودی اور اس کی مذہبی انتہا پسند بی جے پی کا کنٹرول ہو گیا ہے۔ یہ بیانیہ دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور زیادہ حقیقت پسندانہ ہے لیکن اسے ترویج دینا ہو گی۔ یہ سب کچھ ہم اُس وقت کرسکتے ہیں، جب ہم دنیا کی بعض قوموں کی طرح اپنے قومی مفادات کے بارے میں واضح سوچ اختیار کر لیں گے۔ ان قومی مفادات کے تحفظ کے لئے جرأت مندی کا مظاہرہ کریں گے، یہ تب ممکن ہو گا جب ہم اپنے ملک کو سیاسی وجمہوری طور پر مضبوط کریں گے۔ سیاست دانوں کو مضبوط کریں گے اور کسی کے کہنے پر جرأت کا مظاہرہ کرنے والے کسی قوم پرست سیاسی رہنما کو ’’عبرت کا نشان‘‘ نہیں بنائیں گے۔ اس وقت پاکستان کے لئے بہت چیلنج ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے درست سمت میں کام کا آغاز جرأت مند سیاسی قیادت ہی کرسکتی ہے۔