تاریخ کا قرض

March 07, 2019

چند سال پہلے سری لنکا کے مسلم آبادی والے علاقوں میں فسادات ہوئے۔ تامل مسلمانوں نے سری لنکا کے بجائے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کی تو بدھ مت کے سنہالی پیروکار مشتعل ہو گئے۔ تامل مسلمان کئی زمانوں سے سری لنکا میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت کم نے کبھی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ وہ پاکستان میں بولی جانے والی کوئی زبان نہیں سمجھ سکتے نہ ہی ہم تامل زبان سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ ایسی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں جس کی کوئی تشریح نہیں کی جا سکتی۔ بھارتی سیاست دان ہندو قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اکثر بھارتی مسلمانوں پر ’’دل سے پاکستانی‘‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے تو بھارتی مسلمانوں کے مٹھائی تقسیم کرنے کی خبریں بھی آتی ہیں۔ تقسیم سے قبل ہندوستان میں رہنے والے اُن مسلمانوں، جن کے دیہات یا شہر کسی طور پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے تھے، نے آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کی تخلیق میں ہاتھ بٹایا۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا قرض ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قرض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ چند ماہ قبل مقبوضہ کشمیر میں ایک گیارہ سالہ بچی کوبھارتی فوج نے شہید کردیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کشمیری بھارتی تسلط سے کس قدر نفرت کرتے ہیں۔ وہ آزادی کے خواہاں ہیں۔ بچی کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا، جبکہ اُس کی والدہ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے لگارہی تھی ۔ اس دلیروالدہ نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کردیا تھا۔ یہ پاکستانیوں پر معمولی قرض نہیں ہے ۔

کئی صدیوں کے جبر ، خاص طور پر ہولو کاسٹ کے بعد یہودی خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی آخری جائے پناہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے پاکستان دوسراگھر، اور آخری جائے پناہ ہے ۔ جب بھی بیرونی دنیا اُنہیں دھمکی دے گی، یا دھتکارے گی، یہ قوم اُنہیں اپنے سینے سے لگائے گی ۔

ہم نے بھارت میں اقلیتوں کو متواتر جبر کا شکار دیکھا ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا خون بہایا گیا۔ اس کے بعد گجرات کے فسادات ابھی حال کی ہی بات ہے۔ ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں بھارتی سیکورٹی اہل کار مسلمانوں پر تشدد کرتے ہوئے اُنہیں ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کہنے پرمجبور کر رہے ہیں اور ایسا صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک بس ڈرائیور کو ایک سبز رنگ کے پرچم پر سے بس گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس پرچم پر کچھ مقدس کلمات بھی لکھے ہوئے تھے۔ اس پرڈرائیور کے جذبات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک سولہ سالہ لڑکے کو مقبوضہ کشمیر میں نیم فوجی دستوں نے روکا اور اُسے مجبور کیا کہ وہ اپنی ناک سے اُن کی جیپ کے گرد کیچڑ میں لکیر کھینچے۔ یہ نوجوان، عادل ڈار، اس توہین آمیز غیر انسانی سلوک کو برداشت نہ کر سکا۔ اُس نے اپنے جذبات کا اظہار پلوامہ واقعے میں کر دیا۔ اسلام خود کش حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی ذی شعور شخص ان کا جواز پیش نہیں کرتا لیکن کشمیر میں بھارتی فوج کے روا رکھے گئے اذیت ناک اور جابرانہ رویے کا ردعمل ضرور آئے گا۔ پلوامہ کے بعد بھارت میں ہندو ہجوم نے کشمیری طلبہ اور ملازمین پر حملے کیے۔ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بہت توہین آمیز انداز میں ہندوئوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا پڑا۔ اگر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو آئے روز اپنی حب الوطنی ثابت کرناپڑے تووہ خود کو اجنبی کیوں نہیں سمجھیں گے۔

کئی عشروں کے جابرانہ تسلط کے بعد بھی عالمی برادری نے کشمیریوں کی ابتلا پر کان نہیں دھرے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں کشمیر میں حالات مسلسل خراب ہوئے لیکن کشمیریوں کے لیے عالمی حمایت میں کمی آتی گئی۔ میرا خیال ہے کہ اس کا الزام بہت حد تک پاکستان پر بھی آتا ہے۔ دوسال پہلے، برہان وانی کی شہادت کے بعد جب انڈیا نے سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے پیلٹ گن کا اندھا دھند استعمال شروع کیا تو کہیں جا کر دنیا نے نہتے کشمیریوں کی شہادت اور اُن کے نابینا ہونے کا نوٹس لینا شروع کیا۔ اُس وقت پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آیا۔ انڈیا نے پاکستان کے غیر ریاستی عناصر پر اس کا الزام لگایا۔ اس پر عالمی بیانیہ بھارت کے ظلم سے ہٹ کر پاکستان کے غیر ریاستی عناصر کی طرف مڑ گیا۔اب پلوامہ حملے کے بعد انڈیا ایک مرتبہ پھر بیانیہ تبدیل کرنے کے قابل ہو گیا۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی جگہ دنیا نے پاکستان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ کہا گیا کہ اس کی سر زمین پر شدت پسندوں کے ٹھکانے ہیں۔ ایسے واقعات کے نتیجے میں پاکستان مخالف بیانیہ تشکیل پانے سے کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو نقصان پہنچتا ہے۔

ہمارے لیے یہ انتہائی صدمے کی بات تھی کہ جب بھارت نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ میں درختوں پر بمباری کی تو عالمی برادری نے بھارت کا ساتھ دیا۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی نے بھارتی حملے کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان سے غیر ریاستی عناصر کا نیٹ ورک توڑنے کا مطالبہ کیا۔ ترکی کے سوا دنیا کے کسی ملک نے غیر ریاستی عناصر پر ہماری وضاحت قبول نہ کی حتیٰ کہ او آئی سی نے اپنے افتتاحی اجلاس میں بھارت کی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی۔ اُنہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بائیکاٹ کو برداشت کر لیا، بھارت کو انکار نہ کیا۔ ہمیں ایک حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے: آج پاکستان کشمیری مسلمانوں کی حمایت کے مسئلہ پر تنہا کھڑا ہے۔

انڈیا کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک طرف پاکستان پر فوجی حملہ کیا جائے اور دوسری طرف سفارتی محاذ پر تنہائی سے دوچار کیا جائے تاہم ہماری افواج نے غیر معمولی دلیری، اور قوم کے قابل فخر سپوت اسکواڈرن لیڈر، حسن محمود صدیقی کی مہارت نے بھارتی منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ اگر بھارت کامیاب ہو جاتا تو آج پاکستان دنیا میں ایک قابل رحم تصویر بنا ہوتا۔ خوش قسمتی سے ہماری افواج نے ہماری لاج رکھ لی۔ بھارت کو اس کی اوقات دکھا دی گئی۔ اب ہمیں اس کامیابی کو آگے لے کر جانا ہے۔ ہم پر تاریخ کا قرض موجود ہے۔ اب ہمیں کشمیر کے عوام کو کبھی مایوس نہیں کرنا۔

ہمارے بہت سے مذہبی اور قوم پرست افراد کے بچے پاکستان سے باہر بہت پرسکون ماحول میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشی حقائق کا ترازو مذہبی جذبات اور قوم پرستی کے مقابلے میں اکثر جھک جاتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے ان افراد کے دل میں ابھی تک پاکستان کی محبت کی شمع روشن ہے لیکن معاشی طور پر کمزور اور انتہا پسندی سے لبریز پاکستان اس روشنی کا منبع نہیں رہ سکتا۔

اخبارات کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف سے لے کر او آئی سی اور مغربی ممالک تک، غیر ریاستی عناصر پر ہمارے بیانیے پر کسی نے اعتبار نہیں کیا حتیٰ کہ ہمارے دوست چین نے بھی ہمیں ان عناصر سے جان چھڑانے کا کہا ہے۔ اگر ہماری پالیسیاں ہمارے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو مڑ کر پیچھے دیکھنے، غلطی کا ادراک کرنے اور نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ اسی ناکام پالیسی کو ہم نے حب الوطنی کا نام دے رکھا ہے۔

اب اس پالیسی کا ناقدانہ جائزہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ اگر ان دوسو ملین پاکستانیوں کے لیے نہیں تو بھی بر صغیر کے تمام مسلمانوں، خاص طور پر کشمیریوں کے لیے، پاکستان کے خواب کو ماند نہیں پڑنا چاہئے۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)