وزیراعظم کے تین مثبت اقدام

March 09, 2019

وزیراعظم عمران خان سے، اُن کی سیاست پر ہمیں ایک سو ایک اختلافات ہو سکتے ہیں۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی جس طرح وہ برسر اقتدار آئے، اُس سب پر جرح و تنقید کے ایک سے بڑھ کر ایک مقامات آہ و فغاں موجود ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ جن مسائل پر اپنے سیاسی مخالفین کو پیہم موردِ الزام ٹھہراتے رہے، آج وہ خود اُن تمام مسائل پر ایمان کامل لا چکے ہیں۔ ہم نے کرکٹ کے اِس سابق کھلاڑی اور موجودہ وزیراعظم پر بہت سے تنقیدی مضامین لکھے ہیں مگر آج اس خوگرِ تنقید سے تھوڑی سی توصیف بھی سن لیں۔

حالیہ دنوں میں وزیراعظم نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اظہارِ خیال یا طرزِ اظہار کا کسی حد تک دھونا دھونے کی کوشش کی ہے۔ انڈین حکومت کے جنگی بخار پر اُنہوں نے کسی نوع کی اشتعال انگیزی دکھانے کے بجائے اپنی امن پسندی کا پیغام بھیجا۔ ضیاء الحق مرحوم کہا کرتے تھے کہ میں بھارت پر امن کے حملے کرتا رہوں گا۔ اِن دنوں یہی کردار عمران خان نے اتنی خوبصورتی سے نبھایا ہے کہ خود بھارت کے اندر سے اُن کے حق میں کئی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے جو دو تقاریر کی ہیں وہ دونوں ہی مختصر الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے جامع پیغام کی حامل تھیں۔ اُن کے بالمقابل وزیراعظم مودی نے اپنے جلسوں میں جس نوع کی بونگیاں چھوڑی ہیں، اُن پر خود مودی کے حامی بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے جن نام نہاد ہلاکتوں کی درفنطنی چھوڑی تھی اگرچہ مقصد اُس کا اپنے پھیلائے ہوئی جنگی جنون میں قومی مورال کی بحالی تھا لیکن اُس سفید جھوٹ کے ذریعے انہوں نے اپنا ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کا سر بھی شرم سے جھکا دیا ہے۔ رہی سہی کسر رافیل اسکینڈل نے نکال دی ہے۔ کانگرسی رہنما راھول گاندھی نے مودی سرکار کی کارکردگی کا جائزہ کتنے اچھے الفاظ میں لیا ہے ’’روز گار غائب، فصلوں کی بیمہ پالیسی غائب اور اب رافیل طیاروں کی دستاویزات بھی غائب‘‘۔

بلاشبہ ہندوستان ہم سے پانچ گنا بڑا ملک ہے۔ معاشی اور عسکری حوالے سے اُن کی برتری کے باوجود یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند کے فوری بعد اگر ہم امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے تو بھارت بھی غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کا باضابطہ و سرکردہ حصہ ہوتے ہوئے سوویت کیمپ کا طویل عشروں تک حصہ رہا ہے۔ لہٰذا بنیادی طور پر اُن کے پاس اگر روسی اسلحہ ہے تو ہمارے پاس امریکی۔ سو دونوں کا تکنیکی فرق سب پر واضح ہے۔ امریکیوں کی طرف سے اگرچہ روز اول ہمیں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ ہمارا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ مودی جی حب الوطنی کے نام پر بہت واویلا کر رہے ہیں کہ دیکھو ہندوستانی لیڈرو تمہارے بیانات سے پاکستانی اخبارات میں سرخیاں لگ رہی ہیں، اپنی فوج پر اعتبار کرو، اپنی فوج کو جھوٹا ثابت نہ کرو لیکن سچ تو یہ ہے کہ مودی جی کے یہ جھوٹ آئندہ الیکشن میں بھی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے امن پسندی کے پیشِ نظر کالعدم شدت پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی ڈوزئیر کی مطابقت میں بہاولپور میں جیشِ محمد کے ہیڈ کوارٹر اور مدرسے کو سرکاری کنٹرول میں لے لیا گیا ہے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ پاکستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سرگرمیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں ہمارے خلاف ایک شور بپا ہے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ ڈان لیکس کیا تھی؟ ایسے دہشت گرد گروپوں یا تنظیموں کے متعلق ہماری ماضی میں روا رکھی گئی پالیسیوں کے باعث صرف امریکہ یا مغربی طاقتور ممالک ہی نہیں، ہمارا قریب ترین دوست ہمسایہ ملک چین بھی ہم سے نالاں ہے۔ سعودی عرب سمیت ہمارے دیگر دوست اسلامی ممالک بھی ہمیں اس طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کے لئے پورا لائحہ عمل طے کر دیا گیا تھا مگر افسوس کہ اس پر کماحقہ عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ آج وقت نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم ان تمام جہادی اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف عالمی رائے عامہ کی مطابقت میں مضبوط اقدام اٹھائیں۔ ہم علی وجہ بصیرت یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا نعرہ جیسا تیسا بھی تھا، اُس کا بیڑہ غرق کرنے میں اصل کردار اِنہی جہادی سوچوں اور گروپوں کا ہے جن کی وجہ سے پوری دنیا ہمیں انتہا پسندوں کا سرپرست خیال کرتی ہے اور اسی کا فائدہ بشمول مودی ہمارے تمام مخالفین اٹھا رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہمارے تمام ادارے قومی مفاد میں لائی گئی اس شعوری تبدیلی کا لحاظ رکھیں گے اور ہماری حکومت بھی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے اس حوالے سے بیان کیے گئے تحفظات دور کرے گی۔ کیونکہ ہمارے دین میں بھی ذاتی جہاد کی کوئی گنجائیش نہیں ہے۔

وزیراعظم کا تیسرا قابلِ تحسین اقدام فیاض الحسن چوہان جیسے جنگجو وزیر سے چھٹکارا دلانا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء کو حکومتی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، اِس لئے کئی وزراء حکومتی کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود اپوزیشن جیسا ایجی ٹیشن والا رنگ ڈھنگ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہماری استدعا ہے کہ اس ذہنیت کے دوسرے جوشیلے وزراء یا تو ہوشمندانہ و ذمہ دارانہ اسلوب سیکھ لیں یا فیاض الحسن چوہان کی طرح اُن سے بھی چھٹکارا دلا دیا جائے۔ صرف اپوزیشن کے خلاف ہی نہیں، چینلز اور اخبارات سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ بھی فیاض الحسن چوہان کا رویہ قابلِ اعتراض تھا۔ ہماری محب وطن ہندو کمیونٹی کے خلاف اُنہیں اس نوع کی زبان استعمال نہیں کرنا چاہئے تھی۔ ہمارا دین ہمیں دوسری مذہبی اقلیتوں کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق بھی تمام اقلتیں مملکتِ پاکستان میں برابر کی شہری ہیں۔ بلاسفیمی قوانین جس طرح مسلمانوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بھی آئینی و قانونی طور پر یہ حق دیتے ہیں کہ اُن کی تعلیمات کا بھی اُسی طرح احترام کیا جائے۔ وزیراعظم نے غیر ذمہ دار وزیر کے خلاف جو ایکشن لیا ہے اگرچہ اُس کی دیگر وجوہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن پاک ہند موجودہ خراب تعلقات کے پس منظر میں عین موقع پر اُس کا جو جواز بنایا گیا ہے اُس کی تحسین اندرونِ ملک ہی نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان میں بھی اس کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھانا ہو گا۔