مارچ کا مہینہ اور تاریخ کی خوشبو

March 12, 2019

مارچ کا مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت سی یادوں کی خوشبو لاتا ہے۔ یادیں خوشگوار بھی ہوتی ہیں اور تلخ بھی۔ یہی تلخی اور مٹھاس زندگی ہے کیونکہ زندگی کے سفر میں تلخی، مٹھاس، کامیابی، ناکامی، آگ، پانی، بہار اور خزاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اگست اہم ترین مہینہ ہے کہ چودہ، پندرہ اگست 1947کی نصف شب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہ شبِ قدر کی مبارک رات تھی۔ 15اگست 1947ستائیسویں رمضان اور جمعۃ الوداع تھا۔ آزادی اپنے ساتھ خون کی ندیاں لائی لیکن نوزائیدہ ریاست کو خون کی ندی میں ڈبونے اور مسائل کے پہاڑ تلے دبانے کی سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ گزشتہ دنوں ایک معتبر کالم نگار نے فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کے حوالے سے لکھا کہ ہندوستان نے پاکستان کے حصے میں آنے والے فنڈز روک لئے تھے لیکن جب گاندھی جی نے مرن بھرت رکھا تو وہ فنڈز ریلیز کر دئیے گئے۔ اس بیان میں صرف اس قدر اصلاح کی ضرورت ہے کہ ہندوستان نے 500ملین ریلیز کر دئیے لیکن 50 ملین روک لئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح مسلمانوں کا ’’شہادتِ عام‘‘ ہو رہا ہے اور جس طرح پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور مختلف مقامات پر کشمیریوں کو نفرت، ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اُس نے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ قائداعظم کا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ فاروق عبداللہ اور ان کے مرحوم والد گرامی شیخ عبداللہ کانگریس کے حلیف رہے ہیں اور وہ تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔ ان دنوں مجھے ہندوستان سے بہت سی وڈیو کلپس موصول ہوئیں (بشکریہ وٹس ایپ) جنہیں دیکھ کر میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا رہا، جس نے ہمیں ایک آزاد اسلامی ریاست عطا کی۔ قائداعظم کو دعائیں دیتا رہا جسے اللہ پاک نے مستقبل میں جھانکنے کی بصیرت، مسلمانوں کے حقوق کیلئے زندگی اور وسائل وقف کرنے کی توفیق اور اتنا اعلیٰ کردار عطا کیا کہ ان کے شدید ترین دشمن بھی ان پر الزام نہیں لگا سکتے۔ اب تو دنیا بھر میں قائداعظم پر تحقیق اور کتابیں چھاپنےکا سلسلہ جاری ہے۔ یقین رکھئے جوں جوں وقت گزرے گا قائداعظم کا عالمی تاریخ میں قد بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا اور ان کے سامنے مائونٹ بیٹن، نہرو، پٹیل جیسے لیڈر ’’بونے‘‘ نظر آئیں گے۔ ہاں اس بار مارچ ایک افسوسناک خبر بھی لایا ،یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس (UCLA) امریکہ کے نامور پروفیسر جناب اسٹینلے والپرٹ وفات پا گئے۔ پروفیسر والپرٹ کی کتاب’’جناح آف پاکستان‘‘ ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اسٹینلے والپرٹ نے نہرو، بھٹو اور دوسرے موضوعات پر بھی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ اس امریکی پروفیسر کی تحقیق کے مطابق تاریخ میں ایک کے سوا کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک لیڈر نے بیک وقت تین کارنامے سر انجام دئیے ہوں۔ والپرٹ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’چند لیڈران نے نمایاں طور پر تاریخ کا دھارا بدلا۔ کم لیڈران نے دنیا کا نقشہ بدلا۔ شاید ہی کسی کو قومی ریاست کے قیام کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہو۔ تاریخ میں محمد علی جناح واحد لیڈر ہیں، جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سرانجام دئیے‘‘ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے، یہ میری پسند یا ناپسند کا مسئلہ نہیں، اب ان الفاظ کی روشنی میں تحریک آزادیٔ ہند کے تمام لیڈروں کے قدوقامت ناپیں تو احساس ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کتنےبڑے لیڈر تھے۔ میرے سامنے جب نیلسن منڈیلا نے قائداعظم کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا تو مجھے قلبی خوشی ہوئی اور ان دانشوروں پہ رحم آیا جو طریقے طریقے سے قائداعظم کی تنقیص کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ نام لکھ کر آپ کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال امریکی پروفیسر مرگیا لیکن ہمیں قائداعظم پر ایک اچھی کتاب دے گیا۔ پاکستان میں قائداعظم پر بہت کم کام ہوا ہے اور ہماری معلومات کا یہ حال ہے کہ کالم نگار اور ٹی وی پلیئرز (Players)قائداعظم بارے بےسروپا باتیں اڑاتے رہتے ہیں۔ ایک بہت بڑے کالم نگار اکثر لکھتے ہیں قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستانیوں کو ایک قوم بننے میں ایک سو سال لگیں گے۔ میں نے سارا مواد کھنگال مارا، مجھے کہیں قائداعظم کے ان الفاظ کا ثبوت نہیں ملا۔ کچھ حضرات ابھی تک لکھتے جا رہے ہیں کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو قیامِ پاکستان سے چند روز قبل بلایا اور ان سے ترانۂ پاکستان لکھنے کو کہا۔ میں درجن بار لکھ چکا ہوں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ قائد اعظم نہ جگن کو جانتے تھے، نہ بلایا اور نہ ہی ان سے ترانہ لکھوایا۔

مارچ آتا ہے تو 23مارچ 1940 کی قرار دادِ لاہور (قرار دادِ پاکستان) کی یاد تازہ کرتا ہے، قرار داد پاکستان ہمارے ملک کے قیام کی بنیاد بنی اور 23مارچ 1940کو شروع ہونے والا سفر پندرہ اگست 1947 کو اپنی منزل پر پہنچا۔ اس عظیم الشان جلسے میں قائداعظم کی تقریر پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظم کی قوم کے اجزائے ترکیبی پر کتنی گہری نگاہ تھی۔ جو باتیں انہوں نے 23مارچ 1940کو کہیں وہ آج کے ہندوستان میں حقیقت بن کر متحدہ قومیت کے دعوئوں کو باطل ثابت کر رہی ہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ ا گر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو مسلمان بہت بڑی قوت ہوتے اور ہندو ان سے توہین آمیز سلوک نہ کر سکتے۔ یاد رکھو کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو سوا ارب ہندو اسی طرح 70/65کروڑ مسلمانوں سے غلامانہ سلوک کرتے جس طرح وہ آج ہندوستان کے 23/22کروڑ مسلمانوں سے کر رہے ہیں۔ ہمارے بعض لکھاری تاریخ اور تحقیق کے نام پر قرار داد پاکستان کے ’’مصنف‘‘ اور مسلم لیگ کے رویے کے بارے میں منفی اور جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے نوجوان نسلوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ اس موضوع پہ 23مارچ کے اردگرد لکھوں گا۔

مارچ کے مہینے ہی میں 12مارچ 1949کو قرار دادِ مقاصد منظور کی گئی۔ ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی کی پاس کردہ یہ قرار داد ایک تاریخی ڈاکیومنٹ ہے، جو 1956اور 1973کے دساتیر کا حصہ بنی۔ اس قرار داد کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریکِ پاکستان کے اہم لیڈر لیاقت علی خان نے پیش کیا اور اسے مسلمانان پاکستان کی آرزوئوں کا ترجمان اور اسلامی جمہوریت کا نمونہ قرار دیا۔ اس قرار داد کے ناقدین کو اعتراض ہے کہ اس سے اقلیتوں کے حقوق پر زد پڑی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریت میثاقِ مدینہ کی مانند اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتی ہے اور ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اسی حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اس وقت کے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل اس قرار داد کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ قرار داد کی منظوری کے وقت وہ وزیر قانون تھے اور ڈیڑھ سال بعد تک اُنہوں نے یہ قلمدان سنبھالے رکھا۔ منڈل صاحب 16ستمبر 1950کو ہندوستان گئے جہاں ان سے نچلی ذات کے ہندو کا سا نفرت آمیز سلوک کیا گیا اور وہ گمنامی کی زندگی گزار کر آنجہانی ہو گئے جبکہ پاکستان میں انہیں وفاقی وزیر کا اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ مارچ کے مہینے کو ایک یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کا پہلا دستور 23مارچ 1956کو نافذ کیا گیا جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندوں کی باہمی رضامندی، اتفاق اور ملکی اتحاد کا ضامن تھا۔ اسے اکتوبر 1958میں ایوب خان نے توڑ کر ملک ٹوٹنے کی بنیاد رکھی دی۔ کالم کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کر رہا ہوں کہ مارچ کے مہینے میں موسمِ بہار کی خوشبو میں ہماری تاریخ کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے، میرے لئے یہ خوشبویں راحتِ جاں ہیں۔