علموں پئے قضیے ہور

March 13, 2019

ایک زمانہ تھا جب ’کالے علم‘ کے ماہرین ہر جگہ پائے جاتے تھے ۔ شہروں کی دیواروں پر بھی اس طرح کے علم کے عاملوں کے اشتہار لگے ہوتے تھے۔ ان کا دعویٰ ہوتا تھا کہ وہ انسانوں کے دلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کر سکتے ہیں، دشمنوں کو نیست و نابود کر سکتے ہیں اور قدرتی مظاہر کو اپنے تابع کر سکتے ہیں: ان کا دعویٰ ہوتا تھا کہ وہ آندھیوں کو روک سکتے ہیں، بادلوں کو برسنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور زلزلوں کے راستے بند کر سکتے ہیں۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے اور پھر بھی خلقت کی بڑی تعداد ان پر یقین کامل رکھتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب انسان قدرت کے ہاتھوں تقریباً بے بس تھا لیکن اس کی آرزو تھی کہ وہ اپنی باطنی طاقتوں سے چشم زدن میں قدرت کے ہر عمل کو کسی طرح اپنے قابو میں کر لے۔ اب ٹیکنالوجی کے اثر و نفوذ سے اس طرح کے کالے علم پر زیادہ اعتقاد باقی نہیں رہا لیکن اس کالے علم کی جگہ جس ’سفید‘ علم نے لی ہے وہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ جادو ٹونے کی بجائے جھوٹ اور فرضی داستانوں سے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان سے وہ تباہ کن کام کرواتا ہے جو بیچارے ’کالے علم‘ والوں کے محض دعوے ہوتے تھے۔ کوئی ’کالے علم‘ والا وہ ایٹم بم نہ بنا سکا جس نے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسے شہروں کی تباہی میں لاکھوں لوگوں کا دن دہاڑے قتل کیا ہو۔

آج کی دنیا میں ملکوں اور معاشروں کی ترقی کو ماپنے کے لئے ’شرح خواندگی‘ پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ہر سیاسی اور سماجی کج روی کی فوری تشریح یہی کی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ ’ناخواندگی‘ کے باعث ہورہا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ جب سے اسکولوں کالجوں کے اضافے سے نام نہاد خواندگی کے اعداد و شمار بہتر ہوئے ہیں معاشرے میں تعصب اور مذہبی منافرت میں اسی قدر اضافہ ہوا ہے۔ اب تو کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ ان خواندہ لوگوں سے وہ ان پڑھ ہی بہتر ہوتے تھے جو اپنی محدود دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں کے آپسی رشتوں کا تھوڑا بہت احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کو کافر کا خطاب دینے کے لئے کمر بستہ نہیں رہتے تھے۔

ویسے یہ مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے علم کی نوعیت کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ نہیں کہ علم حاصل کیا جائے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس طرح کا اور کس مقصد کے لئے علم حاصل کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ صاف اور واضح بات بلھے شاہ نے اپنے کلام میں کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

علموں پئے قضیئے ہور

اکھیں والے انھیں کور

پھڑدے سادھ تے چھڈدے چور

(علم سے مزید قضیے پیدا ہو گئے ہیں۔ اس سے آنکھوں والے اندھے ہو گئے ہیںجو بے گناہ کو پکڑ لیتے ہیں اور چور کو چھوڑ دیتے ہیں)۔

اس کا مطلب ہے کہ علم کی وجہ سے آنکھوں والے بھی اندھے ہو گئے ہیں اور اب ان کے اندھے پن کا یہ حال ہے وہ بے گناہوں اور چوروں میں نہ صرف تفریق نہیں کر سکتے بلکہ وہ بے گناہوں کو چور سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس کا بد ترین اظہار تو تاریخ کے بیان کے سلسلے میں ہوتا ہے جس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ درسگاہوں اور مکتبوں میں وہ علم پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جا رہا ہے جس سے انسانیت کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی رویوں کے پرچار کو اپنا یا جاتا ہے اور مختلف نظریات اور عقیدوں کے نام پر انسانوں کے قتل تک کو جائز ثابت کیا جاتا رہا ہے۔

علم کے سلسلے میں حضرت سلطان باہو نے کافی کچھ لکھا ہے اور علم کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:

پڑھ پڑھ علم ملوک ریجھاون کیا ہویا اس پڑھیاںہو

ہرگز مکھن مول نہ آوے پھٹے ددھ دے کڑہیاں ہو

(وہ زیادہ سے زیادہ علم بادشاہوں یا حاکمانِ وقت کو خوش رکھنے کے لئے پڑھتے ہیں۔ [ان کی مثال یہ ہے ] کہ جیسے پھٹے ہوئے دودھ کوجتنا چاہے ابالا جائے ، اس سے مکھن نہیں نکل سکتا)

مزید فرماتے ہیں:

پڑھیا علم ودھی مغروری، عقل بھی گیا تلوہاں ہو

بھلا راہ ہدایت والا، نفع نہ کیتا دوہاں ہو

(علم کے ساتھ غرور میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عقل بھی نیچے کی طرف پھسلتی گئی۔ صحیح راستہ بھول گیا اور ان دونوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا)

آج بھی پوری دنیا میں جو علم کے نام پر پڑھایا جا رہا ہے وہ انسانی فلاح کی نفی ہے۔ اس طرح کے علم سے وہ تمام رجحانات جنم لے رہے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ صرف تعلیم کا نہ سوچا جائے بلکہ جو پڑھایا جاناہے اس پر توجہ

مرکوز کی جائے: انسان کش علم سے بہتر ہے کہ لوگوں کو ان پڑھ رکھا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)