اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام (حصہ اول)

March 17, 2019

فلسطین کے شہر’’ الخلیل‘‘ میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے منسوب قبر

حضرت ابراہیم علیہ السّلام، اللہ کے جلیل القدر اور مقرّب ترین پیغمبروں میں سے ایک ہیں، جنہیں خلیل اللہ یعنی’’ اللہ کے دوست‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ حضرت نوح علیہ السّلام کے بعد، آپ ؑ وہ پہلے نبی ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت پھیلانے کے لیے مبعوث فرمایا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عراق، مِصر، شام،فلسطین سے لے کر عرب کی صحرائی وادیوں تک توحید کی دعوت عام کی۔ پھر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سرزمینِ عرب میں اپنے بڑے بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السّلام، شام و فلسطین میں دوسرے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السّلام اور مشرقی اُردن میں اپنے بھتیجے، حضرت لوط علیہ السّلام کو مقرّر فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں 69 مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے آباءواجداد عرب سے ہجرت کر کے ’’بابل‘‘میں آباد ہو گئے تھے، وہیں آپ ؑ کی ولادت ہوئی۔آپ ؑ کے والد کا نام ’’تارخ‘‘تھا، لیکن’’ آزر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پیدائش کے وقت آزر کی عُمر 75سال تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے علاوہ آزر کے دو بیٹے اور تھے، ایک کا نام ناحور اور دوسرے کا حاران تھا۔ حاران کا انتقال آزر کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔حاران کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام ’’لوط ؑ‘‘تھا۔لوط ؑ نے باپ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ چچا، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ گزارا، یہاں تک کہ اللہ ربّ العزّت نے حضرت لوط علیہ السّلام کو بھی نبوّت سے سرفراز فرمایا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد، آزر کا پیشہ بُت تراشی اور بُت فروشی تھا۔

بابل پر نمرود کی حکم رانی

بابل اور اُس کے آس پاس کے علاقوں پر نمرود کی بادشاہی تھی، جو ایک بہت طاقت وَر،متکبّر،جابر اور بُت پرست حکم ران تھا۔کہتے ہیں سر پر تاج سب سے پہلے نمرود ہی نے پہنا تھا۔ یہ بہ زورِ طاقت رعایا سے اپنی پرستش کرواتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے عجیب و غریب خواب دیکھا کہ آسمان پر ایک بڑا، روشن اور خُوب صورت ستارہ نمودار ہوا، جس کی روشنی اتنی تیز تھی کہ اُس نے آسمان پر چمکتے چاند اور لاکھوں ستاروں کی روشنی کو ماند کر دیا۔ صبح ہوئی، تو نمرود نے شہر کے تمام بڑے کاہنوں اور نجومیوں کو دربار میں طلب کر کے اپنا خواب سُنایا اور تعبیر مانگی۔ نجومیوں نے تعبیر بتائی کہ اس شہر میں عن قریب ایک ایسا بچّہ پیدا ہونے والا ہے جو عظیم بادشاہ کے زوال کا باعث بنے گا اور ہمارے خدائوں کے مقابلے میں ایک خدا اور اس کے دین کا پرچار کرے گا۔ نجومیوں کی اس خبر نے نمرود کو سخت پریشان کر دیا۔چناں چہ اُس نے فوری حکم جاری کیا کہ جو بھی بچّہ پیدا ہو، اُسے فوری قتل کر دیا جائے۔بادشاہ کے حکم پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا اور بابل کی سرزمین نوزائیدہ بچّوں کے خون سے سُرخ ہو گئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ولادت

ابھی بادشاہ کے فرمان کو کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ولادت کا وقت قریب آ گیا۔ آزر اور اُن کی بیوی کو اپنی اولاد کا خون کسی صُورت قبول نہ تھا،لہٰذا دونوں نے اُسے چُھپ کر پالنے کا فیصلہ کر لیا اور بچّے کی پیدائش سے پہلے ہی بابل کے پہاڑوں کے درمیان ایک غار تلاش کر لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی والدہ نے اس غار میں بچّے کو جنم دیا اور بچّے کو اللہ کے سُپرد کر کے گھر واپس آگئیں۔ والدہ باقاعدگی سے چُھپتے چُھپاتے غار میں جاتیں اور بچّے کو دودھ پلا کر واپس آ جاتیں۔ کچھ ہی عرصے بعد آپ بڑے ہو گئے، تو والدین گھر لے آئے۔

آزر کے بُت اور حضرت ابراہیمؑ

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے صراطِ مستقیم پر رکھا تھا اور اپنا رسول منتخب کر لیا تھا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم اُن (کے حال)سے واقف تھے۔‘‘(سورۃ الانبیاء51:)حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے والد کو بُت تراشتے اور اُن کو پوجتے دیکھا، تو اُن سے سوال کیا،یہ کیا ہیں؟ والد نے کہا کہ’’ یہ ہمارے خدا ہیں۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تعجّب سے کہا’’ یہ کیسے خدا ہیں کہ جن کو آپ پتھر کے ٹکڑوں سے تراش رہے ہیں۔‘‘ایک دن والد نے اُنہیں ایک ٹوکرے میں بہت سے بُت رکھ کر دیئے کہ اُنہیں بازار جا کر بیچ آئو۔والد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ٹوکرا لے کر بازار پہنچ گئے اور آواز لگائی’’ اے لوگو!آئو اور اپنے اِن خدائوں کو خرید لو، جو تم کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔‘‘ لوگ جمع ہوتے، اپنے خدائوں کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو کو تعجّب سے سُنتے اور آگے بڑھ جاتے۔ بازار جانے کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ جب ایک بُت بھی نہ بِکا، بلکہ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی شکایتوں کے انبار لگا دیئے، تو آزر نے اُنہیں بازار بھیجنا بند کر دیا۔

معبودِ حقیقی کی جستجو اور نظامِ کائنات پر غور و تدبّر

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بچپن ہی میں رُشد و ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائی تھی۔ وہ جب چھوٹے تھے، تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ اپنے ہاتھوں سے تراشے پتھر کے ٹکڑے ہمارے معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟اُنہیں اس معبودِ حقیقی کی تلاش تھی، جس نے کُل کائنات کو بنایا ہے۔ دن، رات اسی جستجو اور فکر میں رہتے۔ پھر باری تعالیٰ نے اُنہیں کائنات کی کچھ اور چیزوں کا بھی مشاہدہ کروایا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’اور ہم ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دِکھانے لگے تاکہ وہ خُوب یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔یعنی جب رات نے اُن کو (پردۂ تاریکی سے)ڈھانپ لیا تو (آسمان میں) ایک ستارہ نظر آیا۔کہنے لگے’’ یہ میرا پروردگار ہے۔‘‘جب وہ غائب ہو گیا، تو کہنے لگے کہ’’ مجھے غائب ہو جانے والے تو پسند نہیں۔‘‘پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا، تو کہنے لگے’’ یہی میرا پروردگار ہے‘‘، لیکن جب وہ بھی چُھپ گیا، تو بول اٹھے کہ’’ اگر میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ نہیں دِکھائے گا، تو مَیں اُن لوگوں میں سے ہو جائوں گا، جو بھٹک رہے ہیں۔‘‘پھر جب صبح سورج کو دیکھا کہ وہ آسمان پر جگمگا رہا ہے، تو کہنے لگے’’ میرا پروردگار یہ ہے،یہ سب سے بڑا ہے،‘‘ مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا، تو کہنے لگے’’ لوگو!جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو، مَیں اُن سے بے زار ہوں۔یہ ڈوبنے اور غائب ہونے والے میرا ربّ نہیں ہو سکتے۔وہ کوئی اور ہی ہستی ہے جس نے اِن سب کو پیدا کیا ہے،جو کُل کائنات کا مالک اور خالق ہے۔مَیں نے سب سے یک سُو ہو کر اپنی ذات کو اُس کی طرف متوجّہ کر لیا ہے،جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور مَیں مُشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(سورۂ انعام 75-79:)

والد سے مناظرہ

خلعتِ نبوّت سے سرفراز ہونے کے بعد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے سب سے پہلے اپنے والد کو توحید کی دعوت دی۔اس سلسلے میں اُن کا اپنے والد سے کیا مناظرہ ہوا؟اسے قرآنِ پاک کی سورۂ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے’’اور جب (ابراہیمؑ)نے اپنے والد سے کہا کہ’’ ابّا! ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو، جو سُن سکتی ہیں اور نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں۔ابّا!مجھے ایسا علم ملا ہے، جو آپ کو نہیں ملا۔ تو (آپ)میرے ساتھ ہو جایئے، مَیں آپ کو سیدھی راہ پر چلا دوں گا۔اے میرے ابّا!شیطان کی پوجا نہ کیجیے۔بے شک، شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ابّا! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب نہ آ پکڑے، تو آپ شیطان کے ساتھی ہو جائیں گے۔‘‘(سورۂ مریم42-45:)حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نہایت محبّت اور پیار سے باپ کو توحید کے بارے میں آگاہ فرمایا، لیکن مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور سختی سے بیٹے سے کہا،تُو اگر میرے معبودوں کی مخالفت کرنے سے باز نہ آیا، تو یاد رکھ میں تجھ سے بہت سختی سے پیش آئوں گا۔قرآنِ کریم میں ہے’’(آزر)نے کہا کہ اے ابراہیم! کیا تُو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تُو باز نہ آیا، تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور (تُو)ہمیشہ کے لیے مجھ سے دُور ہو جا۔ (اس موقعے پر ابراہیم ؑنے)السّلام علیکم کہا(اور کہا کہ)مَیں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش طلب کروں گا۔بے شک وہ مجھ پر مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ مریم 46-47:)

مشرکین کی عید اور بُتوں کی تباہی

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قوم کا عید کا دن قریب آیا، تو پوری قوم شہر سے باہر جا کر عید کی خوشیاں منانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی، لیکن اُنھوں نے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔دراصل، وہ کسی ایسے ہی موقعے کی تلاش میں تھے کہ جب کوئی نہ ہو اور وہ سب سے بڑے عبادت خانے میں رکھے بُتوں کو مسمار کر سکیں۔چناں چہ لوگوں نے عید کی صبح سب سے پہلے اپنے بُتوں کو سجایا، پھر حسبِ روایت اُن کے آگے طرح طرح کے کھانے سجائے۔اُن میں رواج تھا کہ میلے سے واپس آ کر اس کھانے کو بڑے احترام سے کھاتے تھے۔اس کام سے فارغ ہو کر سب لوگ شہر سے باہر میلے میں چلے گئے، تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کلہاڑا لیے بُت خانے میں داخل ہو گئے۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’حضرت ابراہیم علیہ السّلام (چُھپتے چُھپاتے)اُن کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے’’ تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟تم بولتے کیوں نہیں؟‘‘پھر اُن کو دائیں ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کر دیا۔‘‘(سورۂ الصٰفٰت91-93: )جب تمام بُت توڑ دیئے، تو آپ ؑنے کلہاڑا بڑے بُت کے کندھے پر لٹکا دیا اور گھر واپس آ گئے۔شام کو لوگ خوشی خوشی میلے سے واپس آئے اور بُتوں کے پاس پہنچے تاکہ کھانا تناول کریں، لیکن وہاں کا تو منظر ہی ہیبت ناک تھا۔سب بُت اوندھے پڑے تھے۔یہ منظر دیکھ کر وہ غصّے سے پاگل ہو گئے۔اُن میں سے بہت سوں کو یقین تھا کہ یہ کام ابراہیم علیہ السّلام ہی نے کیا ہو گا۔قرآنِ پاک میں یوں ارشاد فرمایا گیا ہے’’لوگوں نے کہا کہ’’ ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سُنا ہے، اُسے ابراہیم کہتے ہیں۔‘‘چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بُلایا گیا۔ جب آپ ؑآئے، تو مشرکوں نے کہا’’ اے ابراہیم ؑ! ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے؟‘‘ابراہیم علیہ السّلام نے کہا’’ یہ ان کے بڑے بُت نے کیا ہو گا، اگر وہ بولتے ہوں، تو ان سے پوچھ لو۔‘‘ اُنہوں نے اپنے دِل میں غور کیا، تو آپس میں کہنے لگے’’ بے شک ہم ہی ظالم ہیں، پھر (شرمندہ ہو کر) سَر نیچے کرلیا اور بولے’’ تم جانتے ہو کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔‘‘ (ابراہیم علیہ السّلام نے)کہا’’ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر کیوں ایسی چیزوں کو پوجتے ہو، جو تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نہ نقصان۔تُف ہے تم پر اور جن کو تم اللہ کے سِوا پوجتے ہو اُن پر،کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ (سورۃ الانبیاء60-67:)

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

بُتوں کو توڑنے کا عمل نمرود اور اُس کی قوم کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم تھا، لہٰذا اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اتنی سخت اور عبرت ناک سزا دی جائے کہ آئندہ کسی کو بُتوں کی بے حرمتی کی ہمّت نہ ہو۔ چناں چہ نمرود کے حکم پر خندق کھودی گئی، پھر قوم کے ہر فرد نے اس کام کو مقدّس سمجھتے ہوئے اس میں لکڑیاں جمع کرنی شروع کیں،یہاں تک کہ اگر کسی کا کوئی کام رُکا ہوا تھا تو اس نے منّت مانگی کہ’’ کام ہو جائے، تو ابراہیم( علیہ السّلام) کو جلانے کے لیے لکڑی کا گٹّھا دوں گا۔‘‘خندق کے بَھر جانے کے بعد اس میں آگ روشن کر دی گئی۔پھر ایک منجنیق بنائی گئی، جس کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو رسیّوں سے جکڑ کر آگ میں پھینک دیا گیا۔اس موقعے پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کہا’’ ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘ (بخاری شریف)حضرت ابنِ عبّاسؓ اور سعید بن جبیرؒ سے مروی ہے کہ اُس وقت بارش والا فرشتہ اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کہہ رہا تھا کہ’’ کب مجھے حکم ملے اور بارش برسائوں؟‘‘ لیکن اللہ کا حکم (بلا واسطے کے)زیادہ تیز تھا یعنی اللہ نے خود ہی آگ کو حکم فرما دیا۔ (قصص الانبیاء۔ابن کثیر)آگ گل و گل زار بن گئی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم ؑپر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔‘‘(سورۃ الانبیاء69:)مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ تھے اور آپ ؑکی جبینِ اطہر (پیشانی)سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور اس پسینے کے علاوہ اُنھیں اور کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد کے کہے ہوئے کلمات میں سب سے اچھے کلمات وہ ہیں، جو اُس نے اپنے بیٹے کو آگ کے اندر دیکھ کر کہے تھے ’’اے ابراہیم! تیرا پروردگار، بہترین پروردگار ہے۔‘‘حضرت منہال بن عمرؒو سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اس آگ میں چالیس یا پچاس دن ٹھہرے اور اُنہوں نے فرمایا کہ’’ مَیں نے ان دنوں سے اچھی زندگی نہیں گزاری اور میری تمنّا رہی کہ میری پوری زندگی اسی کی طرح ہو جائے۔‘‘ (قصص الانبیاء۔ابن کثیر)

آگ پر چھپکلی کی پھونکیں

حضرت اُمّ ِ شریکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے چھپکلی کے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ ابراہیم علیہ السّلام پر (جلنے والی آگ کو)پھونک مار رہی تھی۔‘‘(بخاری،مسلم،ابنِ ماجہ)مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’چھپکلی کو مارو، کیوں کہ وہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو پھونکیں مار رہی تھی۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ پھر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ان کو مارتی تھیں۔ (جاری ہے)