یومِ پاکستان اور قراردادِ لاہور کی موہوم یاد

March 24, 2019

23 مارچ 1940 کے عہد ساز اعلامیے کی یاد میں ڈوبا، جب میں یہ تحریر رقم کر رہا ہوں تو ٹیلی وژن پہ یومِ پاکستان کی عظیم الشان پریڈ کی گھن گرج قومی سلامتی کی یقین دہانی کرا رہی ہے۔ قوم بھی اِس عسکری جاہ و جلال پہ مسرور ہے کہ اب بیرونی خطرے کی (ماسوا باہمی یقینی ایٹمی تباہی کے) کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کاش! جس طرح بیرونی خطرات سے نپٹنے کا مؤثر بندوبست کیا گیا ہے، اندرونی سلامتی اور انسانی سلامتی کے لیے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی۔ لیکن، چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو، ہماری قسمت میں کہاں؟ مملکتِ خداداد کی بس یہی استعداد تھی کہ یہ اپنی بیرونی سلامتی کو یقینی بنائے۔ اب اندرونی اور انسانی سلامتی کی طرف پلٹنے کا وقت ہے اور اس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ سامانِ حرب سےبھوکے لوگوں کے شکم بھرنے سے رہے، بیماروں کو علاج ملنے سے رہا، بیروزگاروں کو روزگار میسر ہونے سے رہا اور ناخواندہ بچوں کو تعلیم ملنے سے رہی۔ اِس بار یومِ پاکستان پر ملائشیا کے بزرگ وزیراعظم مہاتیر محمد مہمانِ خصوصی تھے۔ معزز مہمان نے ہمیں یہ جتلایا کہ ملائشیا ایک تجارتی قوم ہے جس کی کسی سے دشمنی نہیں اور اسے فکر ہے تو اپنی معاشی ترقی اور اپنے لوگوں کی خوشحالی کی۔ اُنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو تحفہ دیا بھی تو میڈ اِن ملائشیا کار کا جس کی پیداوار اب پاکستان میں شروع ہونے جا رہی ہے۔ مطلب یہ کہ اصل میں تجارتی تعلقات ہی ہیں جو اہم ہیں، باقی سب بہلاوے ہیں۔

یومِ پاکستان سے چند روز قبل نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ایک درندہ صفت نسل پرست دہشت گرد نے جو خون کی ہولی کھیلی تھی، اُس پہ جو صفِ ماتم بچھی، اُس میں سیاہ لباس میں ملبوس نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سب سے آگے آہ و فغاں کرتی نظر آئیں۔ مغرب میں اسلامو فوبیا کے خلاف جو پرچم وزیراعظم جیسنڈا نے انسانی بھائی چارے کے لیے بلند کیا، اُس نے جہاں سفید نسل پرست فسطائیوں کو شرمندہ کر دیا، وہیں ہمارے مذہبی انتہاپسندوں کو بھی سبق دیا کہ وحشت و نفرت کے عفریت کو کس طرح مغلوب کیا جاتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو سارے نیوزی لینڈ میں اذان گونجی، خواتین نے حجاب پہنے اور مساجد کے باہر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ مذہبی رواداری کی تعظیم میں جمع ہو کر ایک فیصد مسلم مذہبی اقلیت کے لوگوں کو اپنے ہونے کا یقین دلا رہے تھے۔ پچاس لوگوں کی شہادت نے کروڑوں مغربی انسان دوستوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور نسل پرستی کی فسطائی سیاست کرنے والوں کو شرمندہ کر دیا۔ مسلم دُنیا کے لیے اس میں بڑا سبق ہے کہ وہ سلامتی اور امن و رواداری کی اپنے کالی کمبلی والے کی روایت پر کاربند ہو جائیں اور داعش اور القاعدہ طرز کے فتنوں سے خلاصی پائیں۔ نفرت کی آگ مغرب سے شروع ہوئی یا مشرق سے اس سے اُن معصوم نمازیوں کی شہادت کو کیا غرض ہے، یا پھر جو مذہبی دہشت گردوں کا مغرب میں نشانہ بنے اور مشرقِ وسطیٰ کی خانہ جنگوں کی نذر ہوئے۔یومِ پاکستان ہی پر پاکستان مخالف جنگی ایجنڈے پہ اپنی انتخابی مہم چلانے والے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے تہنیتی پیغام میں ایک جمہوری، پُرامن، ترقی یافتہ اور تشدد و دہشت گردی سے پاک خوشحال خطے کے قیام کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ پیغام ایسے وقت میں آیا ہے جب پاک بھارت سرحدوں پر فوجیں آمنے سامنے بندوق زن ہیں اور جنگ نہ ہونے کے باوجود جنگی حالت میں ہیں۔ کرتارپور راہداری پہ دو طرفہ مذاکرات سے جو اچھا ماحول بنا ہے، اُسے تقویت دینے کی ضرورت ہے اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ فوجیں سرحدوں سے واپس بلا لیں اور حالتِ جنگ کا الارم بند کر دیں۔ لیکن بُرا ہو سیاست کا کہ ہر اچھا کام اس کے مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے خواہ خطے کی سلامتی ہی کیوں نہ دائو پہ لگ جائے۔ بھارت کی انتخابی مہم میں مخالفین ایک دوسرے کو قومی سلامتی کے معاملات، پلوامہ دہشت گردی اور پاک بھارت ہوائی جنگ پر کون کونسا الزام نہیں دے رہے۔ اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پلوامہ مودی نے کروایا اور پاکستان پہ فضائی حملے میں کامیابی کے دعوے جھوٹے ہیں اور مودی انہیں دُشمن کا بیانیہ بیان کرنے کے الزام دے رہے ہیں۔ کچھ یہی حالت ہمارے یہاں ہے۔ ابھی کالعدم تنظیموں کو کسی ٹھکانے لگانے اور نیشنل ایکشن پلان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل پر پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کی بات چل رہی تھی کہ بلاول بھٹو کے کالعدم تنظیموں بارے اس بیان کہ اُن کے سدباب کے لیے موثر کام نہیں ہو رہا پہ تحریکِ انصاف والوں کا یہ ردّعمل کہ وہ بھارت کا بیانیہ بول رہے ہیں، نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔ مجھے حیرانی اس بات پہ ہے کہ گزشتہ جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے مدیروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس ضمن میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ بلاول بھٹو کی رائے سے کیسے مختلف ہے، اور اگر عمران خان کا یہ بیان بھارتی جنگی میڈیا اپنے الزامات کی تصدیق کے لیے استعمال کرے تو ہم اپنے منتخب وزیراعظم کو بھی وہ الزام دیں گے جو بلاول بھٹو پہ لگایا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو جو اپنے نانا کی طرح بھارت بارے بڑے جارحانہ قوم پرست نقطہ نظر کے حامل ہیں، کو اِس الزام پہ وہ تلخ نوائی یاد آئی ہوگی جب اُنھوں نے نواز شریف کو مُودی کا یار ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ بلاول بھٹو کا یہ موقف قابلِ ستائش اور اٹل ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف پُرعزم جدوجہد کی جائے۔ اس پر کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جو الزام مودی پہ اپوزیشن لگا رہی ہے اُسے جب پاکستانی میڈیا پہ اُچھالا جاتا ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی والے اپوزیشن کو دیش دروہی قرار دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ الزام بازی کی سیاست میں دونوں اطراف کے سیاسی کھلاڑی پاک بھارت مناقشے کو اپنے اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ دونوں ملک بھی ایک دوسرے کو ایک سی باتوں پہ دوش دیتے ہیں۔ یومِ پاکستان پہ قراردادِ لاہور کی موہوم یاد کو پھر سے تازہ کرنے کی ضرورت ہے اور اسے حقیقی معنوں میں یومِ جمہوریہ ہونا چاہئے۔ قراردادِ لاہور ایک جمہوری، وفاقی اور روادار ریاست کا یقین دلاتی ہے جس میں سبھی لوگ بلاتفریق زبان، نسل، قومیت، مذہب اور جنس مساوی مواقع پاسکیں۔ جہاں کلاشنکوف کی جگہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب و قلم ہو، جہاں مذہبی فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی جگہ رواداری اور انسان دوستی ہو۔ جہاں پُراسرار آمرانہ روایات کی جگہ جمہوری روایات پھلیں پھولیں اور پاکستان خطے میں امن و ترقی کا عظیم دوراہا بنے۔ ایک روشن فکر، ترقی یافتہ اور استحصال سے پاک وطن جس کے ہر ریزہ پہ ہم فدا ہوں اور جاوداں و کامران بھی!