چھوٹےشہروں میں خواتین ووٹ ڈالنےمیں زیادہ آزاد ہیں، فافن

March 25, 2019

اسلام آباد(فخردرانی) یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہےجب لوئردیر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکاجاتاتھا۔ لیکن چند ہی سالوں میں حالات بدل چکے ہیں۔ اب اس کاشمارملک کے20بڑی ڈسٹرکٹ میں ہوتاہےجہاں نہ صرف خواتین نےووٹ دیے بلکہ اُس امیدوارکےخلاف بھی ووٹ ڈالےجنھیں ان کےحق میں خاندان کےمردوں نےووٹ دیے۔ 2018کے عام انتخابات کےنتائج سے ایک اور تاثرغلط ثابت ہواہےکہ میٹروپولیٹن شہروں کی خواتین چھوٹے شہروں کی خواتین کےمقابلے میں ووٹنگ کی ترجیحات میں زیادہ آزاد ہیں۔ ڈسٹرکٹ اور حلقوں کےحوالےسے خواتین کیلئے الگ سے قائم کیلئےگئے 17000سےزائد پولنگ اسٹیشن کے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹےشہروں میں خواتین ووٹرز نے اپنے مردوں کےانتخاب کےمقابلے میں مختلف انتخاب کیا۔ ملک کےسب سےبڑے شہراور کاروباری مرکز کراچی میں خواتین ووٹرزکی آزادی کی اوسط سب سےکم ہے۔ اوسطً قومی اسمبلی کےہرحلقےسےظاہر ہوتاہےکہ صرف 3.75 پولنگ اسٹیشن ایسےہیں جہاں خواتین نےووٹ کیلئے مردوں کے مقا بلے میں مختلف امیدوارکوترجیح دی کیونکہ 88پولنگ اسٹینش ایسے تھے جہاں خواتین مردوں کی مرضی کے خلاف گئیں اور مختلف امیدوار کو ووٹ دیا۔ ای سی پی کے ترجمان، الیکشن ماہرین اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن سب متفق ہیں کہ اِن حقائق سےیہ راہ ہموار ہوتی ہے کہ خواتین ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادیوں میں اضافہ کریں۔ پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا خیال ہے کہ خواتین کیلئے ووٹ کا حق یقینی بنانے کیلئے قوانین پہلے ہی موجود ہیں۔ تاہم یہ ثقافت ہے جو خواتین کو ووٹ کی آزادی دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خواتین کو پارلیمنٹ میں بامعنی نمائندگی ملنی چاہیئےاور اس سے دوسری خواتین کو اعتماد ملےگاکہ وہ جمہوری عمل میں سرگرم کردارا داکریں، ڈاکٹرفرزانہ باری مانتی ہیں کہ’’جب بات ووٹ ڈالنےمیں ترجیحات کی ہوتوخواتین اپنےفیصلوں میں مردوں کی نسبت زیادہ مستقل مزاج ہیں۔ مستقبل میں صرف وہ سیاسی پارٹیاں خواتین کی مرضی حاصل کرنےاوران کے ووٹ لینےمیں کامیاب ہوں گی جوان کےمعاملات حل کریں گے۔ معاشی آزادی فیصلے کرنے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ وہ خواتین جومعاشی طورپر سرگرم ہیں وہ گھریلو بیویوں کی نسبت زیادہ آزادہیں۔‘‘ فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک(فافن) کی جانب سے تجزیہ کیےگئےاتنخابی اعداد وشمارسے ظاہر ہوتاہےکہ چارسدہ کی ڈسٹرکٹ کے قومی اسمبلی کے دوحلقوں میں 75پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نے اپنے مردوں کے مقابلے میں ووٹ کیلئےمختلف انتخاب کیا۔ اوسطاً ہر حلقے میں 34پولنگ اسٹیشنز ہیں جہاں خواتین نےووٹنگ کی ترجیحات کیلئےآزادی دکھائی۔ اسی طرح پشاور میں قومی اسمبلی کے 5حلقوں کے109پولنگ اسٹیشنز ہیں جہاں خواتین نے ووٹ کیلئےمردوں کے مقابلے میں کسی اورکو ترجیح دی۔ اس کامطلب ہے کہ خیبرپختون خوامیں تقریباً 21.8پولنگ اسٹینشز پر خواتین نےووٹ کیلئے مختلف امیداوار کاانتخاب کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوئردیر کے الیکشن نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ 49پولنگ اسٹینشز پر خواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوارکاانتخاب کیا۔ فافن کے اعدادوشمار کے مطابق لکی مروت کے 35پولنگ اسٹیشنز، مالاکنڈ کے 35،مردان کے70،نوشہرہ کے57، صوابی کے60،سوات کے88اور مانسہرہ کے21پولنگ اسٹیشنزپر خواتین نے ووٹ کیلئے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوارکاانتخاب کیا۔ چترال، بٹگرام، کُرم، شانگلہ اور ٹانک یہ پانچ ڈسٹرکٹس ہیں جہاں خواتین نے کم آزادی دکھائی۔ فافِن کےاعدادو شمارکےمطابق اِن پانچ ڈسٹرکٹس میں خواتین نےپانچ پولنگ سٹیشنزسےبھی کم پرمختلف امیدوارکوترجیح دی۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں سات پولنگ اسٹیشنزہیں جہاں خواتین نےمردوں سےمختلف انتخاب کیا۔ ڈیٹا سے مزید ظاہر ہوتاہے کہ باجوڑ میں 8، خیبر ایجنسی میں 7اور کوہاٹ میں 6پولنگ اسٹیشنز ہیں جہاں خواتین نے مردوں کےمقابلے میں مختلف امیدوارکوووٹ دیا۔ پنجاب میں فیصل آباد اس فہرست میں سب سے اوپر ہےجہاں ووٹ کاانتخاب کرنےکیلئےخواتین نےزیادہ آزادی دکھائی۔ فیصل آبادمیں قومی اسمبلی کے10حلقوں میں خواتین کے203پولنگ اسٹیشنز پرخوا تین نےمردوں کےمقابلےمیں ووٹ کیلئےمختلف امیدوار کوچُنا۔ ان دس حلقوں میں مختلف ووٹنگ کارجحان این اے107، این اے 109 اور این اے110میں زیادہ تھا جہاں ہر حلقے کےتقریباً50پولنگ اسٹیشنزپرخواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوارکاانتخاب کیا۔ پنجاب کے ایک اوربڑے شہر راولپنڈی میں زیادہ آزادی نہیں دکھائی گئی۔ 2018کےعام انتخابات کےاعدادوشمار کےمطابق قومی اسمبلی کےسات حلقوں میں 85پولنگ اسٹیشنز تھےجہاں خواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوارکوووٹ دیا۔ اعدادوشمار کے مطابق این اے 62اور این اے58 صرف وہ حلقے ہیں جہاں خواتین نےسب سےزیادہ آزادی کااظہارکیاکیونکہ خواتین ووٹرز نے بالترتیب34 اور 35 پولنگ اسٹیشنزپرمردوں سےمختلف امیدوارکوووٹ دیے۔ اسی طرح گرجرانوالہ میں قومی اسمبلی کے چھ حلقوں کے 68پولنگ اسٹیشنز ایسے رپورٹ ہوئےجہاں ووٹنگ انتخاب میں خواتین نے آزادی کامظاہرہ کیا۔ چکوال میں قومی اسمبلی کے دوحلقوں کے 45پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نے مختلف انتخاب کیا۔ قصور کےقومی اسمبلی کے چار حلقوں میں 73پولنگ اسٹیشنز تھے جہاں خواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوارکوووٹ دیے۔ اسی طرح مظفرگڑھ میں قومی اسمبلی کے چھ حلقے ہیں لیکن خواتین نے صرف 56پولنگ اسٹیشنز پرمردوں کےمقابلے میں مختلف امیدوارکوووٹ ڈالے۔ رحیم یارخان کے قومی اسمبلی کے چھ حلقوں کے 94پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کا انتخاب کیا۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں کے 86 پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کوووٹ دیے۔ سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقےہیں جن میں 82 پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کوووٹ دیے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قومی اسمبلی کے تین حلقےہیں جن میں 57پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کوووٹ دیے۔سندھ:دادو میں قومی اسمبلی کے دوحلقےہیں جن میں58پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کےمقابلےمیں مختلف امیداوار کا انتخاب کیا۔ اسی طرح حیدرآباد میں قومی اسمبلی کے تین حلقےہیں جن میں 96پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کوووٹ دیے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے 20 حلقےہیں اورصرف 75 پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کو وو ٹ دیے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً ایک حلقے میں صرف 3.75پولنگ اسٹیشنز ایسے ہیں جہاں خواتین نےمردوں سے مختلف امیدوارکاانتخاب کیا۔ لاڑکانہ میں قومی اسمبلی کے دوحلقےہیں جن میں51پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوار کوووٹ دیے۔ بلوچستان: بلوچستان کےصوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قومی اسمبلی کے تین حلقے ہیں اور صرف 32 پولنگ اسٹیشنز ایسے رپورٹ ہوئے جہاں خواتین نے مردوں کے مقابلے میں مختلف امیدوار کاانتخاب کیا۔ قلعہ عبداللہ میں قومی اسمبلی کاصرف ایک حلقہ ہےاور 23 پولنگ اسٹیشنز پر خواتین نےمردوں کے مقابلے میں مختلف امیداوارکوووٹ دیے۔