’’جیک پاٹ‘‘ کا انتظار

April 02, 2019

یہ قوم بہت ناشکری اور بے صبری ہے۔ اب آپ ہی بتائیں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی خوشخبری ملنے کے بعد پیٹرول کے نرخ بڑھ جانے پر بھائو کھانے اور تلملانے کا کیا جواز بنتا ہے؟ملک وقوم کی تقدیر بدلنے والی ہے، ترقی و خوشحالی کے خواب حقیقت کا روپ دھارنے لگے ہیں، تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘ہمیں رُکنیت دینے کےلئے منت سماجت کرتی پھرتی ہے اور ان ’’شودے‘‘لوگوںنے ایک ماہ کے لئے پیٹرول کی قیمت بڑھائے جانے پر آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ حالانکہ یہ رونے دھونے اور گلے شکوے کرنے کے دن نہیں بلکہ سہانے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے ایام ہیں۔ جب دولت کی ریل پیل ہوگی تو کیا ہمارے شہزادے بھی تلور کا شکار کرنے جایا کریں گے، قومی لباس پر نظر ثانی کی جائے گی یا نہیں، گھڑ دوڑ، اونٹوں کے مقابلہ حسن اور اس طرح کے کون کون سے کھیل عام ہوں گے، کن ممالک کو اُدھار تیل دیا جائے گا؟ اس طرح کے بیشمار اہم فیصلے ابھی ہونا باقی ہیںجن کا تعلق اجتماعی و انفرادی معاملات سے ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں عارضی اضافے پر دل چھوٹا کرنے کے بجائے ان اہم ترین اُمور پر توجہ مرکوز کی جائے۔ جن لوگوں کو اس خوش خبری کی تفصیل معلوم نہیں، ان کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ کراچی کی جنوب مغربی سمت میں 230کلو میٹر کے فاصلے پر زیر سمندر ایک بار پھر تیل نکل آیا ہے۔ ’’کیکڑا ون‘‘کے نام سے دریافت ہونے والے تیل کے ان ذخائر کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر ہوں گے۔ ویسے ہم ’’بڑائی‘‘ کے قائل ہیں اور کسی چھوٹی چیز پر اکتفا نہیں کرتے۔ ہماری ہر چیز، ہر کام کم از کم ایشیا میںسب سے بڑا ہوتا ہے۔ کوئی بڑا سیاسی جلسہ ہوجائے تو متعلقہ سیاسی جماعت یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتی کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ کتاب میلہ ہو تو ہم بلاتامل کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا بک فیئر ہے۔ سندھ کے علاقے کُنری میں مرچ کی بڑی مارکیٹ ہے، وہاں ہر شخص پورے وثوق سے کہتا ہے کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے لیکن ان سے پوچھیں، بھائی ! کبھی ملک سے باہر گئے ہو توپتا چلتا ہے، ملک کیا کبھی صوبے سے باہر نکل کر نہیں دیکھا کہ دنیا کتنی بڑی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی خبرپہلے بھی دی تھی مگر یارلوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ مگر اب انہوں نے پوری ذمہ داری سے بتایا ہے کہ ’’جیک پاٹ‘‘لگنے ہی والا ہے۔ باخبر ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ جیسے ہی زیر سمندر کھدائی کرنے والے کمپنی نے تیل کا نمونہ لے کر غیر ملکی لیبارٹریوں میں بھجوانے کی خبر دی تو کپتان وفورِ جذبات میں کشکول توڑنے لگے تھے مگر غیر ملکی فنڈز لاکر دینے والوں نے کہا، ایسی بھی کیا جلدی۔ لیبارٹری کی رپورٹ آلینے دیں، بعد میں تسلی سے ٹویٹ کر دیں گے۔ میرا قطعاً کوئی ارادہ نہیں کہ رنگ میں بھنگ ڈالوں یا کوئی ایسی ویسی بات کرکے خواب چکنا چور کرنے کا باعث بنوں۔ خدا کرے کہ اس بار یہ خبریں سچی ہوں کیونکہ جس علاقے سے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے وہاں سے کم از کم 60سال سے تیل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب تک کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ کراچی کے قریب زیر سمندر علاقے میں قیام پاکستان کے بعدسے اب تک کم از کم 17بار تیل کے ذخائر دریافت ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پہلی بار یہ مژدہ جانفزا ایوب خان نے سنایا جب 1963میں امریکی کمپنی ’’Sun Oil‘‘نے یکے بعد دیگرے تین کنویں کھودے لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ جو کنویں دریافت کئے گئے وہ خشک ہو چکے ہیں۔ 1972ء میں ایک جرمن کمپنی ’’Winter Shell‘‘نے کھدائی شروع کی، تیل کے 3کنویں دریافت کئےگئے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو تیل سے بھری ایک شیشی لیکر قومی اسمبلی میں آئے اور قوم کو خوشخبری دی کہ بس اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ بھٹو کے دور میں ہی ایک امریکی کمپنی ’’میراتھون آئل‘‘ نے 1976ء میںڈرلنگ کی اور پھر 1978ء میں کینیڈا کی کمپنی ’’ہسکی‘‘ نے کھدائی کا کام سنبھال لیا لیکن تیل نکالنے کی مہم کامیاب نہ ہو سکی۔ 1985ء میں جب ضیا الحق برسراقتدار تھے تو حکومت نے سوچا غیر ملکی کمپنیاں ہمیں بے وقوف بنا کر چلی جاتی ہیں، تیل دریافت نہ ہونا ہمارے خلاف کسی قسم کی عالمی سازش ہو سکتی ہے، کیوں نہ اس بار خود کوشش کی جائے۔ اسی سوچ کے تحت OGDC نے اپنے طور پر کھدائی کا آغاز کیا لیکن چند برس بعد ہی معلوم ہوگیا کہ ان تِلوں میں تیل نہیں۔ 1989ء میں ایک اور غیر ملکی کمپنی Occidentalسے کھدائی کا معاہدہ ہوا۔ 1992ء میں ڈرلنگ کیلئے نیوزی لینڈ کی کمپنی Canbury کی خدمات حاصل کی گئیں۔ 1999ء میں امریکی کمپنی Oceanکو تیل کے ذخائر دریافت کرنے کے لئے بلوایا گیا۔ 2004ء میں فرانسیسی کمپنی ’’ٹوٹل‘‘ اور پھر 2005ء میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے مہم جوئی کی جو ناکام ہوگئی۔ 2007ء میں نیدرلینڈ کی کمپنی ’’شیل‘‘ نے اسی جگہ سے تیل نکالنے کی ناکام کوشش کی۔ تیل کا حالیہ کنواں جس سے نمونے نکال کر بیرونِ ملک لیبارٹریوں میں بھیجے گئے ہیں، یہ بھی 2006ء میں ’’او جی ڈی سی ایل‘‘ کو الاٹ ہوا تھا مگر پھر 2007ء میں ’’ENI‘‘ کو دیدیا گیا۔ اب جوائنٹ وینچر کے تحت چار کمپنیاں شراکت دار ہیں اور تیل دریافت ہونے کی صورت میں پاکستان کا حصہ پچاس فیصد ہے۔

جب 2015ء میںمسلم لیگ (ن)کی حکومت تھی اور پنجاب کے ضلع چنیوٹ سے 3کلومیٹر کے فاصلے پر رجوعہ نامی علاقے میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر دریافت ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا تو تب بھی قوم کو اسی طرح کی خوش خبریاں دی گئی تھیں لیکن میں نے 31مارچ 2015ء کو شائع ہونے والے کالم ’’پلیز کشکول نہ توڑیں‘‘ میں بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اس کالم میں عرض کیا تھا کہ چنیوٹ سے ملحق علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی موجودگی کا انکشاف تو قیام پاکستان سے پہلے ہونے والے جغرافیائی سروے میں بھی موجود ہے مگر اصل چیلنج یہ ہے کہ دیگر دھاتوں اور کثافتوں میں گندھے اس سونے کی شرح کیا ہے اور کیا ڈرلنگ کرکے نکالے جانے والے سونے کی قیمت لاگت کے مقابلے میں زیادہ ہو گی؟ اب بھی یہی گزارش ہے کہ کسی ’’جیک پاٹ‘‘کے انتظار میں نہ رہیں، معیشت کی بحالی کے لئےحقیقی نوعیت کے اقدامات کریں۔ چھپر پھاڑ کر مالامال ہونے کی خواہش کرنے والے افراد اور حکومت چلانے والوں میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔ 2018ء کی فلاپ پاکستانی فلم ’’جیک پاٹ‘‘کے انجام سے ہی سبق سیکھ لیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)