کیا سو کلو میٹر دور نماز پوری پڑھیں گے ؟

April 05, 2019

تفہیم المسائل

فو ج کا جنگل میں پڑاؤ شرعی اقامت نہیں ہے

سوال:۔ہم نے اپنی چھاؤنی سے سوکلومیٹر دور ایک جنگل میں بیس دن قیام کیا ، کیا اس دوران نماز پوری پڑھیں گے ؟(عبداللہ ضیائی ،کراچی)

جواب:۔اقامت کی نیت صحیح ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں : (۱)چلنا ترک کرے، اگرچلنے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو مقیم نہیں۔ (۲)وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو، جنگل یا دریا غیر آباد ٹاپُو میں اقامت کی نیت کی مقیم نہ ہوا۔ (۳)پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو، اس سے کم ٹھہرنے کی نیت سے مقیم نہ ہوگا۔ (۴)یہ نیت ایک ہی جگہ ٹھہرنے کی ہو، اگر دوجگہوں میں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، مثلاً ایک میں دس دن دوسرے میں پانچ دن کا تو مقیم نہیں ہوگا۔ (۵)اپنا ارادہ مستقل رکھتا یعنی کسی کا تابع نہ ہو۔ (۶)اس کی حالت اس کے ارادہ کے منافی نہ ہو۔ وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو ،درمختار میں ہے:ترجمہ:’’یا وہ حقیقۃً یا حکماً نصف ماہ اقامت کی نیت کرلے ،اگرچہ وہ نماز میں ہو ،جب نماز کا وقت نہ نکلا ہو اور وہ لاحق نہ ہو ،کیونکہ ’’بزازیہ‘‘ میں ہے : اگر حاجی شام میں داخل ہو اور اسے علم ہے کہ وہ قافلہ کے ساتھ نصف شوال کو روانہ ہوگا تووہ اپنی نماز کو مکمل کرے گا کیونکہ وہ اقامت کی نیت کرنے والے کی طرح ہے ،ایسی جگہ جو اقامت کے قابل ہے ،وہ شہر ہو یا دیہات ہویاہمارے دارالاسلام کا صحرا ہو جبکہ وہ خانہ بدوش ہو ، (حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد4،ص:626-629، دمشق)‘‘۔

علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا : مسلمانوں کالشکر اگر کسی جگہ جائے او ران کے خیمے کا سامان ان کے ساتھ ہو، انھوں نے راہ جنگل میں پڑاؤ ڈالا اور وہاں خیمے وغیرہ نصب کئے او رپندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا تو وہ مقیم نہیں ہوں گے کیونکہ وہ سامان اٹھانے والے ہیں ،وہاں ان کے گھر نہیں ہیں،’’محیط‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:139)‘‘۔سپاہی /ملازم کی اپنی نیت معتبر نہیںہوتی بلکہ وہ اپنے افسر یا مالک کاتابع ہوتا ہے، اُس حالت میں ہے کہ آقا کے ساتھ ہو ورنہ خود اس کی نیت معتبر ہے ،تنویر الابصار وردالمحتار میں ہے :ترجمہ:’’ متبوع کی نیت معتبر ہے ،کیونکہ وہ اصل ہے ،تابع کی نیت کا اعتبار نہیں ،جس طرح ایسی عورت جس کے شوہر نے مہرِ معجل دے دیا ،وہ شوہر کے تابع ہے اور ایساغلام جو مکاتب نہ ہوا،اپنے آقا کے تابع ہے اور سپاہی جب وہ امیر یا بیت المال سے وظیفہ لیتاہو ،اپنے کمانڈر کے تابع ہے اور مزدور مستاجرکے تابع ، قیدی قید کرنے والے کے تابع ،(اسی طرح)مقروض اور شاگرد(کا معاملہ ہے کہ وہ بالترتیب قرض خواہ اور استاد کے تابع ہیں ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد4،ص:652-657، دمشق)‘‘۔