پنجاب یونیورسٹی۔ ایک منی پاکستان

April 07, 2019

سفید مہاجن خاصا بگڑا ہوا ہے،نو ارب ڈالر کی قسط دینے کا وقت قریب ترپہنچ چکا ہےاور خزانہ تقریباً خالی ہے۔وزیر خزانہ اسد عمر کل امریکہ جائیں گے،انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔پوری قوم کی نظریں اِ س وقت اسد عمر پر لگی ہوئی ہیں،ان کی مدد کےلئے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین ِمعاشیات نےایک معاشی ماڈل تیار کیا ہے۔ امریکہ سے واپسی پراس سلسلے میں اسد عمر پنجاب یونیورسٹی آئیں گے۔معروف ماہرِ ین معاشیات ڈاکٹر اکمل حسین اور ڈاکٹر ممتاز انورچوہدری نےبڑی محنت سے یہ معاشی روڈ میپ تیار کیا ہے۔ڈاکٹر نیاز احمدکے خیال میں پنجاب یونیورسٹی کا تیار کردہ معاشی ترقی کا پلان بہت کم وقت میں پاکستان کو معاشی بحران سے باہر نکال سکتا ہے۔

پچھلے دنوں جب پنجاب یونیورسٹی میں آن لائن سسٹم کے تحت نئے داخلے ہوئےتو یونیورسٹی کی طرف سے نئے طلبہ کو فیصل ایڈیٹوریم میں استقبالیہ دیا گیا، جس میں مہمان کے طور پر مجھے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کو بلایا گیا تھا۔یعنی دونوں مہمانوں کا تعلق عمران خان کے شہر میانوالی سے تھا۔عمران خان کا بھی اِس یونیورسٹی سے ایک تعلق ہے۔وہ اس کو بھول نہیں سکتے۔یہ وہ یونیورسٹی ہے جہاں انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اِسی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ برصغیر کی سب سے قدیم علمی و ادبی درسگاہ پر کتنے برے دن آئے تھے مگر اللہ بے نیاز ہے۔پھر یہ بھی ہوا کہ اس یونیورسٹی کو تباہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نظر آئیں۔جو شخص نو سال اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا اسے اب بھی یونیورسٹی کے اندر کوئی معاف کرنے کا تیار نہیں۔نیب مسلسل یونیورسٹی کے معاملات دیکھ رہی ہے۔ضمانت پر رہاہونے والےپھر گرفتار ہو سکتے ہیں۔ سزا سے بچنے کا امکان بہت معدوم ہے۔یونیورسٹی میں پانچ سات شادی ہال،پانچ سوسے زائد غیر قانونی بھرتیاں،ذاتی مخالفین پر جعلی مقدمات،کرپشن۔اقربا پروری اور پتہ نہیں کیا کیا کیسز ہیں جو سابقہ انتظامیہ کی طرف سے بنائے گئے۔یہ تواس یونیورسٹی پر اللہ تعالی نے کرم کیا کہ سپریم کورٹ نےاِس کا وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد لگا دیا انہوں نے صرف دس ماہ کے قلیل عرصے میں اسے پھر دنیا کی ایک اہم یونیورسٹی بنا دیا۔اس سال اسےبیالوجیکل سائینسز،ایگریکلچرل سائنسز اور فزکس کی فیلڈز میں دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل کرلیا گیا۔ ایشیا کی کیو۔ ایس رینکنگ میں یونیورسٹی چونتیس درجےبہتر ہوئی۔

ہاں تو میں نئے آنے والوں کے استقبال کی تقریب کا ذکر کررہا تھا۔نو واردانِ بساط ِ ہوائے علم کا ایک ہجوم تھا۔ڈیڑھ لاکھ طالب علموں نے داخلے کےلئے درخواستیں دی تھیں ان میں دس ہزار بچوں، بچیوں کو داخلہ ملا تھا وہ سب موجود تھے۔وسیع و عریض ہال کے باہر بھی بڑی بڑی اسکرینیں لگائی گئی تھیں۔پنجاب یونی ورسٹی کی فضائوں میں اپنے علم و قلم کے پھریرے اڑ رہے تھے، ردائے علم اپنی باہوں میں نئے آنے والے دیوانوں کو سمیٹ چکی تھی۔مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔کسی زمانے میں ہم بھی ایسے ہی تھے۔ میں نے بھی کہا

یہ آگہی کی فضائیں تمہیں مبارک ہوں

نئے جہاں کی ہوائیں تمہیں مبارک ہوں

علومِ تازہ کی بانہیں تمہیں مبارک ہوں

یہ پھول پھول سی راہیں تمہیں مبارک ہوں

تم آج علم کے سورج کدے میں آئے ہو

تلاشِ علم میں نکلے ہوئو، سلامتی ہو

سلام تم پہ ہو، پڑھتے ہوئو سلامتی ہو

تمہارے سر پہ ہے سایہ نیاز احمد کا

شبِ شعور چمکتی ہے جس کے جلوئوں سے

یہ رنگ و نور سے دھکی ہوئی ہوائے خیر

تمہارے دم سے یہ چاروں طرف فضائے خیر

دعائے خیر تمہارے لئے دعائے خیر

یہ دعائے خیر مجھے اس وقت تو بڑی شدت سے یاد آئی جب ایک معتبردوست نے آکر ایک بڑی اہم میٹنگ کا آنکھوں دیکھا حال سنایا۔یہ میٹنگ پنجاب یونیورسٹی سے متعلق تھی مگر پنجاب یونیورسٹی سے باہر منعقد کی گئی تھی۔اس میں ترقی پسند تھے، خود ساختہ روشن خیال تھے اور اسلام پسند بھی۔خاص طورپر اس جماعت سے متعلق لوگ جو چالیس سال اس یونیورسٹی سے متعلق ہیں۔کسی زمانے میں یہاں صرف اسی کی مرضی چلتی تھی۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ترقی پسند، جو ان دنوں امریکہ کی آنکھوں کا تارہ ہیں اور این جی اوزکا لبادہ اوڑھ کر پاکستان میں غیرملکی مفادات کی نگرانی کرتے ہیں، وہ اور ان سے مختلف نقطہ نظر کے حامل لوگ ایک مقصد کےلئے ایک ہی جگہ جمع تھے، پنجاب یونیورسٹی میں افراتفری، انتشار اور بس۔یہاں آگ اور پانی کو ایک میز پر اُسی شخص نے جمع کیا تھا جسے سابق وائس چانسلر ہوتے ہوئے نیب کو ہتھکڑی لگانا پڑی تھی۔یہ تمام لوگ صرف ایک ایجنڈے پر جمع ہوئے کہ کس طرح ڈاکٹر نیاز احمد کو وائس چانسلر شپ سے ہٹایا جائے، یعنی یونیورسٹی کی ترقی کو بیک گئیر لگایا دیا جائے، کیونکہ ایسا کئے بغیر یونیورسٹی کے امن و امان کو خراب نہیں کیا جا سکتااور ترقی روکی نہیں جا سکتی۔ اب مدعا بس اس علمی جنت کو آگ لگانا ہے، سو کوشش جاری اور سازش رو بہ کار ہے، مگر ہو گا وہی جو رب کریم کی مرضی ہے، اور پنجاب یونیورسٹی کو بہت لوگوں کی دعائیں ہیں، تین نوبل لارییٹس والی اس یونیورسٹی نے اب آگے ہی بڑھنا ہے اور ترقی ہی کرنی ہے۔

اس وقت پاکستان معاشی تباہ حالی کا شکار ہے میں سمجھتا ہوں کہ اسے معاشی طور پر مستحکم کرنے کےلئے ہر پاکستانی کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ہر بزنس مین کو پورا پورا ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔اورسیز پاکستانیوں کو فوری طور پر پاکستان میں سر مایہ کاری کرنا چاہئے۔دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اکاونٹس پاکستانی بنکوں میں کھولیں بلکہ اپنے غیرملکی سرمایہ دار دوستوں سے بھی درخواست کریں کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستانی بنکوں میں رکھیں۔ ہمیں اسد عمر کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔جیسے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ِ اکنا مکس اُن کےلئےکام کررہا ہے۔