وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا …!

April 19, 2019

ڈیٹ لائن لندن …آصف ڈار
برطانیہ اور یورپ کے دوسرے جمہوری ممالک میں سیاسی پارٹیاں جب انتخابی منشور بناتی ہیں تو ان میں عوام کے ساتھ بہت سے وعدے کئے جاتے ہیں اور ان کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے مختلف پروگرام دیئے جاتے ہیں۔ تاہم یہ پروگرام محض سہانے خواب نہیں ہوتے جو اکثر پاکستان جیسے معاشروں میں ٹوٹ جایا کرتے ہیں، بلکہ ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر بتایا جاتا ہے کہ ان کو پورا کرنے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اگر پارٹی کا ارادہ کوئی نیا ٹیکس لگاکر یہ اخراجات پورا کرنے کا ہے تو صاف طور پر بتا دیا جاتا ہے؟ اگر قرض لینا ہے تو یہ بھی وضاحت کی جاتی ہے کہ قرض کہاں سے لیا جائے گا اور اس کو واپس کرنے کیلئے کیا شرائط ہوں گی؟ منشور میں کوئی پارٹی محض ہوائی فائر نہیں کرسکتی کہ سب کچھ فوری طور پر ٹھیک کردیا جائے گا، کیونکہ لوگ ان پارٹیوں سے انتخابات سے قبل ہی یہ پوچھتے ہیں کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے رقم کہاں سے آئے گی؟ اگر معقول جواب نہ ملے تو اس پارٹی کا انتخاب میں دھڑن تختہ ہوجاتا ہے مگر پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر معاشروں میں صورتحال ذرا ہٹ کر ہے! وہاں کے ستائے ہوئے عوام کو نعروں کے ساتھ ہی لبھایاجاسکتا ہے۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ کئی ملین نوکریاں نکالی جائیں گی، 50لاکھ گھر بنائے جائیں گے، غریبوں کو فوری اور سستا انصاف ملے گا وغیرہ وغیرہ؟ مگر کسی کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ وہ لیڈروں سے یہ پوچھے کہ اس سب کے لئے ’’مایا‘‘ کہاں سے آئے گا؟ لوگوں کو تو اپنے لیڈروں پر اندھا یقین ہوتا کہ جادو کی چھڑی چلے گی اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لیڈر عوام کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں یا غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، بلکہ شاید وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ70سال سے زیادہ عرصے سے دبے اور پسے ہوئے عوام کے حالات بدلیں اور ملک میں خوشحالی آئے! مگر شومئی قسمت کے حالات ہیں کے ان کا ساتھ ہی نہیں دیتے۔ اب موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیں کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم کے ساتھ بہت سے وعدے کئے۔ کشکول کو توڑنے کے دعوے کئے، بیرونی غلامی سے آزادی کی بات کی اور ملک میں خوشحالی لانے کے لئے بہت سے پروگرام شروع کرنے کے اعلانات کئے؟ یہ محض اعلانات نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ان کی کیا پالیسی ہے؟ ان کو یقین تھا کہ وہ ٹیکس نیٹ کو بڑھاکر زیادہ ریونیو حاصل کرسکیں گے؟ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ بیرونی ممالک میں رہنے والے ایک کروڑ کے قریب پاکستانی ان کی حکومت کے بنتے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کا انبار لگادیں گے اور ملک میں پیسے کی ریل پیل ہوگی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ چند ماہ کے اندر اندر ملک کی لوٹی ہوئی اربوں ڈالر کی دولت کو واپس لے آئیں گے اور اس پیسے کے بعد ان کو آئی ایم ایف یا کسی بھی ملک کے پاس کشکول لے کر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ اس طرح انہوں نے بہت سی ایسی باتیں کیں جن کے ذریعے ملک میں پیسہ آنے کے امکانات ظاہر کئے گئے تھے! مگر اب یہ ساری باتیں محض خواب ہی بن کر رہ گئی ہیں اور وہ سارے سہانے خواب ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں جن پر حکومت کی بنیاد قائم کی گئی تھی؟ نہ لوٹی ہوئی رقم واپس آئی نہ اوورسیز پاکستانیوں کے پیسے کی ریل پل ہوئی اور نہ50لاکھ گھر بنانے کے لئے کوئی قابل عمل منصوبہ بن سکا۔ اس لئے سیانوں نے کہا ہے کہ پہلے تولو، پھر بولو، ہم بولتے پہلے ہیں اور تولتے بعد میں ہیں، جب تولتے ہیں تو اصل صورت حال معلوم ہوتی ہے۔ عمران خان صاحب کا سارا ’’جذبہ کنٹینر‘‘ حکومت میں آنے کے چند ہفتے میں مدھم پڑتا دکھائی دیا۔ انہیں کشکول لے کر چین اور خلیجی ریاستوں میں بھی جانا پڑا اور آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی تسلیم کرکے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ یہ سارے کام اگر کچھ عرصہ پہلے ہوجاتے تو شاید ملک اس قدر مہنگائی کے چنگل میں نہ آتا اور نہ ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی یہ درگت بنتی؟ ابھی موجودہ حکومت کے پاس چار سال سے زیادہ عرصہ پڑا ہوا ہے، اگر عمران خان قوم کو ازسرنو اعتماد میں لے کر حقائق سے آگاہ کریں اور ملک کو بہتر ڈگر پر چلائیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ بہتری کی طرف گامزن ہو۔ محض ساری باتوں کا الزام سابق حکومتوں پر لگانے اور اسد عمر یا چند دوسرے وزیروں کو برخاست یا ان کی وزارتوں میں ردو بدل سے کام نہیں چلے گا۔