رُل وی گئے آں پر چس وی نئیں آئی !

April 26, 2019

نئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ’بڑے‘ رہنما اپنی اپنی نوکریاں بچانے کی فکر میں ہیں اور جن کے ’آلوچنے‘ نہیں بک رہے ،وہ کہہ رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ؟ (مصرعہ اولیٰ میں ردو بدل تکریم کے پیش نظر کیا گیا ہے)۔ بہرحال ’بڑوں‘ کی باتیں اور گھاتیں ’بڑے‘ ہی جانیں، مجھے تو فقط یہ اعتراف کرنا ہے کہ تحریکِ انصاف نے ایک کروڑ ملازمتوں کا جو وعدہ کیا تھا، اُسے پورا کرنے کی تگ ودو کی جا رہی ہے اور محدب عدسہ لیکر ایسی اسامیاں اور عہدے تلاش کئے جارہے ہیں جن پر تقرریاں کی جا سکیں۔ ہاں البتہ ان نوکریوں کے حصول کے لئے میرٹ پرانے پاکستان کی نسبت بہت Highاور کڑا ہے۔ پرانے پاکستان میں بھی کسی حد تک میرٹ پر تقریاں ہوا کرتی تھیں اور میرٹ کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اول خویش بعد درویش، یعنی پہلے اپنے لوگوں کو ترجیح دی جائے اور پھر کچھ ملازمتیں بچ رہیں تو اہلیت وقابلیت کی بنیاد پر عام افراد میں تقسیم کر دی جائیں لیکن نئے پاکستان میں میرٹ کو سختی سے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اول وآخر شرط یہی رکھی گئی ہے کہ امیدوار پکا انصافیا ہو۔ میں نے 8فروری 2019کو شائع ہونے والے کالم بعنوان ’’پی ٹی آئی سابقہ ریکارڈ توڑنے میں کامیاب‘‘ میں دعویٰ کیا تھا کہ نئے پاکستان میں اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا فارمولا یہ ہے کہ صوبائی سطح پر کام کر رہی ایک کمیٹی فہرستیں بنا کر بذریعہ نعیم الحق بنی گالا روانہ کرتی ہے اور وہاں سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، جن کے پاس وزیراعظم کا اضافی چارج بھی ہے، سے منظوری ملنے کے بعد رسمی کارروائی پوری کر کے تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ میں نے چند افراد کی نشاندہی کی تھی کہ مستقبل قریب میں اسامیاں مشتہر کر کے اُن کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔ اُن میں معمولی سے ردوبدل کے بعد بہت سے لوگوں کی تقرریاں ہو چکی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض تقرریوں کے لئے تو اشتہار دینے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کی ورکر سارہ احمد کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا چیئر پرسن مقرر کیا گیا ہے۔ فاطمہ چدھڑ کو پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کا چیئر پرسن لگایا گیا ہے۔ انصاف اسٹودنٹس فیڈریشن کے سابق صدر حافظ فرحت عباس ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا)کے چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اِس سے قبل شیخ محمد عمران کو ایل ڈی اے کا وائس چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ میاں محمودالرشید کے سابقہ پی آر او حافظ ذیشان کو پی ایچ اے کا وائس چیئرمین لگایا گیا تھا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بھائی فیصل فرید حسین کو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کا عہدہ دیا گیا اور اب پنجاب کے وزیرِ زراعت نعمان لنگڑیال نے اپنے بہنوئی نوید انور بھنڈر کو پنجاب ایگری کلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری کمپنی (PAMRA)کا چیئرمین تعینات کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے نئے پاکستان کے ’میرٹ‘ کے مطابق تعیناتیوں کو یقینی بنانے کے لئے ایک نئی روایت یہ ڈالی ہے کہ خودمختار اداروں اور سرکاری کمپنیوں میں اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بھاری مشاہرے پر تعینات کردیا جائے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی سے رکن صوبائی اسمبلی واسق قیوم عباسی کو پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا ہے، سردار محسن لغاری جو راجن پور سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیں، نے پنجاب ایری گیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی (PIDA)کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال رکھا ہے۔ فیصل آباد سے تحریکِ انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی شکیل شاہد کو فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات کیا گیا ہے۔ وہ ارکان اسمبلی جو الیکشن نہیں جیت سکے یا پھر ٹکٹ نہ ملنے پر قیادت سے ناراض تھے، اُنہیں روزگار فراہم کرنا بھی میرٹ کا اولین تقاضا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت نے اُس کی پاسداری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹیز، ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں ہوں یا پھر واسا، اُن کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدوں پر مسلکِ انصافیا سے وابستہ سابق ارکان اسمبلی کو اکاموڈیٹ کر کے باعزت روزگار فراہم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی سے سابق ارکان صوبائی اسمبلی عارف عباسی اور آصف محمود، جنہیں ٹکٹ نہیں مل سکا تھا، میں سے ایک کو راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی جبکہ دوسرے کو پی ایچ اے کا چیئرمین لگایا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف بہاولپور خواتین ونگ کی صدر شہلا احسن جنہیں ٹکٹ نہیں ملا تھا، کو پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کا چیئرمین تعینات کرکے ازالہ کیا گیا۔ سرگودھا سے ممتاز احمد کاہلوں کو راضی کرنے کے لئے پہلے متروکہ وقف اِملاک بورڈ کا چیئرمین لگانے کی تجویز تھی مگر پھر اُنہیں سرگودھا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر اسد معظم جو الیکشن ہار گئے، اُنہیں فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین لگایا گیا ہے۔ فیصل آباد سے ہی پی ٹی آئی کے رہنما شیخ شاہد جنہیں ٹکٹ نہیں ملا تھا، اُنہیں وائس چیئرمین واسا بنادیا گیا ہے۔ عامر رحمان کو گجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، رانا جبار کو ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی جبکہ عامر ملک کو بہاولپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کر کے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِسی طرح لطیف نذیر کو پی ایچ اے فیصل آباد، یاسر گیلانی کو پی ایچ اے لاہور، اعجاز جنجوعہ کو پی ایچ اے ملتان، سعداللہ ایڈوکیٹ کو پی ایچ اے سرگودھا جبکہ ذوالفقار احسن کو پی ایچ اے سیالکوٹ کا چیئرمین لگا کر باعزت روزگار فراہم کیا گیا ہے۔

مسلکِ انصافیا کے راسخ العقیدہ پیروکاروں کو ملازمتیں دینے کی غرض سے چار رُکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ارشد داد، اعجاز چوہدری، کرنل(ر) اعجاز منہاس اور چوہدری سرور شامل تھے۔ چوہدری سرور نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر رابعہ ضیا کو اپنی جگہ اِس کمیٹی کا ممبر نامزد کر دیا۔ اِس کمیٹی نے سب کی مشاورت کے بعد فہرستیں مرتب کی تھیں کہ کسے کونسی نوکری دی جائے گی لیکن جہانگیر ترین کے سامنے اِس کمیٹی کی ایک نہ چلی اور کوٹے کے مطابق سب اسٹیک ہولڈرز کو اپنا حصہ نہ مل سکا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ چوہدری سرور کی نامزد کردہ رابعہ ضیا کو گُڈ گورننس کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ آئی جی پنجاب کو بھی ہٹا دیا گیا تو ’آلو چنے‘ والا گلہ لب پہ آگیا۔ بہر حال جب اِن تعیناتیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو انصافیے گالیوں سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں تو کیا کریں پٹواریوں کو لگا دیں۔ نہیں عالی مرتبت نہیں! آپ کیوں لگائیں اُنہیں، آپ کے پاس اپنے ڈیجیٹل پٹواری جو ہیں۔ بس ایک بار یہ وضاحت فرما دیں کہ ملازمتوں کا کوٹا محض انصافیوں کے لئے مختص ہے تاکہ جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ’رُل تے گئے آں، پر چس بڑی آئی اے‘ معمولی ترمیم کے بعد یہ راگ الاپ سکیں کہ ’رُل وی گئے آں، پر چس وی نئیں آئی‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)