فلم’’ خاموش رہو‘‘ کا ٹریلر جاری ہے

April 27, 2019

مقامی معاصر میں شائع شدہ ایک خاص باضابطہ انکشاف بہت دلچسپ ہے، کریڈٹ معروف کالم نگار طارق احمد کے کھاتے میں جائے گا، اُنہوں نے ہی اِس انکشاف کو باضابطہ شکل دے کر حساس اور پُرلطف نکتہ آرائیوں کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔ آپ کا کہنا ہے ’’اِس وقت جو سیاسی قیادت ہے، ذرا اُس کے ایج گروپس کا اندازہ لگائیں، پروفیسر خورشید احمد 86سال، خورشید محمود قصوری 77سال، آفتاب شیر پائو 75، اعتزاز احسن 74، حافظ محمد ادریس 74، چودھری شجاعت حسین 73، پرویز الٰہی 72، جاوید ہاشمی 71، اسفند یار ولی خان 70، نواز شریف 69، خواجہ آصف 69، عارف علوی 69، اسحاق ڈار 69، پرویز خٹک 69، شفقت محمود 69، شیخ رشید 68، فرید پراچہ 68، عمران خان 67، یوسف رضا گیلانی 67، لیاقت بلوچ 67، شہباز شریف 66، مولانا فضل الرحمٰن 66، جہانگیر ترین 65، نیئر حسین بخاری 66، نثار علی خان 65، آصف علی زرداری 64، شاہ محمود قریشی 63، میر حاصل بزنجو 61، خاقان عباسی 60، پچاس کے پیٹے میں اسد عمر 58، سراج الحق 57، خواجہ سعد رفیق 56، مراد علی شاہ 56، شیریں رحمان 58اور شیریں مزاری 52، اسی طرح خسرو بختیار 49، مریم نواز 46، چیف منسٹر کے پی کے 46، چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار 50، علیم خان 46، حمزہ شہباز 42، حنا ربانی کھر 42، صادق سنجرانی41‘‘۔

اور طارق احمد صاحب کی فکری مندی یہ ہے ’’آپ میرے اِس کالم کو دوبارہ پڑھیں اور اِس کالم کے تھیسس پر غور کریں، جس طرح سیاست کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے اور جس طرح سینئر اور میچور سیاستدانوں کو سیاست سے نکالا جا رہا ہے، سوال صرف یہ ہے اِس کا نعم البدل کیا ہے؟‘‘ کالم نگار طارق احمد کے ہاں پاکستان کے حوالے سے ایک شریفانہ سی دردمندی پائی جاتی ہے۔ بصورت دیگر اِن سے پوچھا جا سکتا ہے، برادر محترم ومکرم! طاقتوروں کے لئے آپ نے ’’اخلاقی ڈکشنری‘‘ کب سے ایجاد اور مرتب کر لی۔ اِن کا فلسفہ ’’حیات‘‘ طاقت ہے، جواب بھی ’’طاقت‘‘ ہی ہو سکتا ہے، یہ آپ سوز وساز رومی کے اثرات سہارے کیا توقع باندھ رہے ہیں۔

آپ جن لوگوں سے اُن سیاستدانوں کے نعم البدل کا پوچھ رہے ہیں؟ وہ کوہ ہمالیائی بلڈنگوں میں قیام کرتے، وہیں سے ریٹائر ہوتے اور زمینی حقائق کے بالکل الٹ وہیں منصوبہ سازیوں کی ذہنی عیاشیاں کرتے ہیں۔ ہم سب قاضی جی بن کر بلاوجہ ’’شہر کے غم‘‘ میں مبتلا رہتے ہیں، لیکن ابھی یہ ’’طاقتور‘‘ پاکستان میں آئین کی بالادستی ووٹ کی حرمت اور پارلیمانی جمہوری نظام کے تسلسل کو شکست نہیں دے سکے، ہاں! توڑ پھوڑ اور داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب دیکھتے ہیں ’’طاقت‘‘ فتح یاب ہوتی ہے یا وقت کے فطری قوانین۔

...o...

ہمارے بہت ہی معتبر ومتین صحافی انصار عباسی کا 22اپریل 2019کو شائع شدہ اپنے کالم ’’کس سے منصفی چاہیں‘‘ میں کہنا ہے ’’گزشتہ ہفتہ کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے اعلان سے قبل وزیراعظم عمران خان پاور سیکٹر سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے کہ اِسی دوران ایک افسر کمیٹی روم میں داخل ہوا اور آ کر اسٹاف کے ایک اعلیٰ افسر کے کان میں کوئی بات کی جس پر وزیراعظم نے سرگوشی کے انداز میں اُنہیں جواب دیا۔ اُس کے تھوڑی دیر بعد وزیراعظم جہاں بیٹھے تھے، اُس کے دونوں اطراف میں ایک ایک کرسی لگا دی گئی، پھر دو اہم افراد کمیٹی روم میں داخل ہوئے اور وزیراعظم کے دونوں اطراف لگائی گئی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق نئے آنے والوں نے اجلاس کی کارروائی میں شرکت کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی سے متعلق کچھ ایسی سخت باتیں کیں کہ اجلاس میں شامل سرکاری افسران ہکا بکا رہ گئے۔ شرکت والی شخصیات کون تھیں؟ اِس پر بات نہیں کرتے لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کابینہ میں کی گئی تبدیلیوں میں چند قومی اداروں کا بھی اہم کردار شامل ہے، جنہوں نے وزیراعظم کو چند ایک وزراء کے متعلق ’’ڈوزیئر بھی دیئے‘‘۔

وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے دوران میں اچانک براجمان ہونے والی ’’وہ شخصیات کون سی تھیں؟‘‘ انصار عباسی نام نہیں لیتے، ہم اُنہیں ازراہ محبت برسوں سے ریاض شاہد کی ایک فلم ’’خاموش رہو‘‘ کا نام یاد دلانا چاہتے ہیں، بس پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظرمیں 15اگست 47کے بعد یہ فلم ’’خاموش رہو‘‘ ریلیز کی گئی، اب تک قومی سینما سے اتری نہیں۔ وقت دعا ہے۔

عفریت کی کچھ آنکھیں پاکستانی قوم کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ معلوم نہیں کب نجات ملے، عمران خان سیاسی آلودگی کے دوش پر برسراقتدار آئے، اب وہ ہر روز چاہے لاکھ بار بھی جرأت رندانہ کا حق سچ مظاہرہ کریں ان کے سیاسی کیریئر کی شکستہ منڈیر کو ڈھے جانے سے معجزے کے علاوہ کوئی دوسرا طاقتور عنصر نہیں روک سکتا۔ وہ اپنی سیاسی غیر شفافیت کے حوالےسے قدرتی قوانین کی زد میں ہیں۔

...o...

صدارتی نظام کی بحث اِن دنوں اِسی ’’خاموش رہو‘‘ فلم کا ایک تازہ ترین ٹریلر ہے، بصورت دیگر بقول سہیل وڑائچ صاحب کے ’’ایک باضمیر آزادی پسند سارتر یہاں بھی ہوتا تو پھر سے صدارتی نظام لانے والوں سے یہ سوال ضرور کرتا کہ جب قائداعظم نے خود پارلیمانی نظام متعارف کروایا تو اُسے بدلنے والے کیا معمارِ پاکستان سے بھی بڑا وژن رکھتے ہیں۔ سارتر یہ بھی پوچھتا کہ آج تک پاکستان کے دو ہی متفقہ آئین بنے ہیں یعنی 1956کا آئین اور پھر 1973 کا آئین، دونوں ہی پارلیمانی نظام پر مبنی ہیں، اِس قدر اتفاق رائے کے بعد آئین توڑ کر نیا آئین بنانے کا شوشہ چھوڑنے کا مطلب پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔

ان سوالوں کا مکمل سچائی کے ساتھ کون جواب دے سکے گا؟چنانچہ فلم ’’خاموش رہو‘‘ ہی واحد حل اور دعائے نجات واحد راستہ ہے، پاکستانیوں کے پاس یہی ایک راہ بچی ہے، دیکھیں، قدرت بسا اوقات ایسی جگہ سے روشنی کی کرن نمودار کرا دیتی ہے جہاں سوائے تاریکی کے کچھ نہیں ہوتا، ہماری مراد سیاسی میدان میں موجود شیخ رشید سے ہے، جنہیں سیاسی اخلاقیات کی فہرست سے خارج کیا جا چکا، 21اپریل 2019کی رات شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں وہ بھی چیخ اٹھے اور ایسے انداز سے چیخے جیسے اِس ’’در فنطنی‘‘ کے تازہ تازہ شاہکاروں سے کہہ رہے ہوں ’’خدا کا خوف کرو، پاکستان پر رحم کرو‘‘ (بیشک پروگرام کا کلپ نکال کر دیکھ لیں) سو فلم ’’خاموش رہو‘‘پر ہی گزارہ کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)