وقت وقت کی بات ہے

May 05, 2019

’’این آر او (NRO) دیا تو غدار ہوں گا‘‘، وزیراعظم عمران خان کا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں اعلان۔ غداری کے مرتکب تو وزیراعظم تبھی ہو سکتے ہیں جب اُنہیں آئین و قانون، عدلیہ اور نیب سے بالا بالا ایسا کرنے کا اختیار ہو۔ ایسے اختیار کا اظہار سارے آئینی اداروں کی اخلاقی حیثیت پر سوال اُٹھاتا ہے کہ احتساب تو فقط سیاسی ڈھکوسلہ ہے۔ جب چاہے آزما لو، جب چاہے ہٹا لو۔ ایسا بعید القیاس اس لیے بھی نہیں کہ پاکستان کی کِرم خوردہ تاریخ میں ایسا بار ہا ہو چکا ہے۔ وزیراعظم کے ڈیل اور ڈھیل کے افواہ سازوں کو دندان شکن جواب کے بعد اتفاق سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک علاج کی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں شنوائی تھی۔ اگر ضمانت مل جاتی تو بیچارے وزیراعظم کے کرپٹ لوگوں کو انجام تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ کیا بیتتی؟ اور اگر ضمانت میں توسیع نہ ملتی تو پھر کیا کہا جاتا؟ بہرکیف، سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت میں توسیع نہ ملنے پر سابق وزیراعظم پھر سے 7مئی کو پیا گھر (جیل) سدھاریں گے، جو سیاستدانوں کے لیے ہمیشہ سے دوسرا گھر رہا ہے۔ جانے مسلم لیگ نواز کی قیادت پر کیا قیامت آن پڑی ہے کہ چند ماہ کی اسیری اتنی بھاری پڑ رہی ہے۔ بڑے میاں صاحب کی طبی دیکھ بھال جیل میں ہو سکتی ہے اور علاج مقامی ہسپتالوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اُن کے مقدمات کو کسی نتیجہ پہ پہنچنے کے لیے چند ماہ لگیں گے اور وہ پہلے ہی سے تا حیات سیاست بدر کر دیئے گئے ہیں، تو گوشۂ قفس میں ذرا آرام کر لیں۔ ووٹ کو عزت اسی میں ہے، لیکن یہ ’’ہر قیمت پر نوکری پہ تیار‘‘ میاں شہباز شریف کیوں اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ اگر اپوزیشن کی قیادت کرنے میں پائوں جلتے ہیں تو چھوڑیں اس عذاب کا بوجھ اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ شہباز شریف نے پبلک اکائونٹس کمیٹی اور پارلیمانی پارٹی کی قیادت یونہی چھوڑنی تھی تو سنبھالی کیوں تھی؟ وہ اب ایک غیرحاضر قائد ِ حزبِ اختلاف اور غیرحاضر صدرِ مسلم لیگ ن ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اُن کے علاوہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کا کوئی باضابطہ عہدیدار ہی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن شریف خاندان کی گھریلو نو آبادی ہے جس میں کسی کے لیے گنجائش نہیں۔ بھلا ایسے جمہوری جماعتیں چلتی ہیں! اور ووٹ کو خاک عزت ملنی ہے۔

تاریخ بہت ظالم ہے، یہ کیسے کیسے کرداروں سے کیا کیا کام نکلوا لیتی ہے۔ کسی نے سوچا تھا کہ جنرل ضیاالحق کے غیرسیاسی انتخابات کی نرسری سے ایک ایسا لیڈر اُبھرے گا جو تین بار مقتدرہ سے بھڑ کر اقتدار سے باہر اور دو بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا جائے گا۔ جس ووٹ کی بے قدری سے وہ سیاست میں آیا تھا، اُسی ووٹ کی قدر کے لیے میدان میں کھڑا ہو جائے گا۔ تاریخ کے جبر سے مفر ممکن نہیں، بھلے آپ فرار کی کیسی ہی راہیں سوجھا کریں۔ کھڑے ہو جائیں یا گھر بیٹھ جائیں۔ ڈیل کریں یا ڈھیل لیں، تاریخ اسی مقام پر منجمد ہونے سے رہی۔ وقت تو ہر ایک پر آتا ہے، آج آپ پر کل عمران خان یا کسی اور پر۔ وقت تو پختون تحفظ موومنٹ (PTM) کے سرکردہ لوگوں پہ بھی آنے والا ہے۔ مجھے شک پڑتا ہے کہ نقیب اللہ کو رائو انوار نے مبینہ طور پر کسی بیرونی ہاتھ کے اشارے پہ اس لیے مارا تھا کہ پختون نوجوان غضبناک ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یا پھر اگر تاریخ میں عوامی اُبال کے نظریہ پہ جائیں تو ایک چنگاری سے پورے گلستان کو آگ لگ سکتی ہے۔ دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تباہ و برباد ہو جانے والوں کو شاید بس ایک دھکے کی ضرورت تھی اور وہ پھٹ پڑے۔ ایسی خود رَو عوامی تحریکیں اُبھرتی رہتی ہیں اور اُن کی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ اُنہیں ایڈریس کیے بنا اُبال ختم ہونے والا نہیں۔ اب آپ کی حکمت اس عوامی الائو پہ تیل کا کام کرتی ہے یا پانی کا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ قبائلی لوگوں نے یا تو دہشت گرد دیکھے یا پھر کئی دہائیوں کی بقائے باہم کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی زبردست کارروائیاں۔ جس کا گھر مسمار ہوا، اُسے اس سے کیا غرض کہ توپ کا گولہ کس کا تھا؟ کیونکہ گولے تو مخالف سمتوں سے برس رہے تھے۔ جنرل باجوہ نے ٹھیک کہا ہے کہ لوگوں کا ردِّعمل قدرتی ہے اور اُن کی جائز شکایات ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب سے بڑھ کر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ بہتر ہوگا کہ سول حکومتیں اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور عوامی غم و غصہ کا بوجھ خود پر لیں نہ کہ فوج کی جانب منتقل کریں۔ یقیناً اس لہر پہ قوم پرستی کا رنگ بھی ہے، علیحدگی پسندگی کا نہیں، لیکن مطالبات سارے کے سارے عوامی حقوق، بحالی والے اور آئینی ہیں۔ یہ جو کچھ لوگ اِدھر اُدھر افغان کا نعرہ لگاتے ہیں زیادہ تر دہری شہریت کے حامل افغان مہاجر ہیں یا پھر ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب آباد قبائل کے لوگ ہیں اور وہ سرحد کے آرپار آنے جانے کی آزادیٔ حرکت چاہتے ہیں اور دونوں طرف کی منڈیوں کا فیض۔ پی ٹی ایم اوراس سے اختلاف رکھنے والوں کو چاہئے کہ قانونی راستہ اختیار کریں۔ اس وقت کوئی انتہائی قدم بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ وقت تو آتا جاتا رہتا ہے۔ بُرے وقت کو ٹالنا ہی دانشمندی ہوتی ہے۔ جو مسئلہ بات چیت سے حل ہو سکتا ہے، اس پر توپ و تفنگ کی دھمکی چہ معنی دارد۔ وقت تو ہمارے کشمیر کی آزادی کے مہمان ’’نجات دہندگان‘‘ پر بھی آیا ہے۔ ہمارے محکمۂ خارجہ نے مسعود اظہر کو ہماری سالہاسال کی مزاحمت کے باوجود اقوامِ متحدہ کی جانب سے بالآخر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے پر جانے کس سفارتی کامرانی کے شادیانے بجائے ہیں۔ پہلے بھی کامیابی ملتی رہی تھی جب ہم ایسی کوششوں کو مسلسل ناکام کرتے رہے اور اب بھی جب ایسی کوشش کامیاب ہو گئی۔ وقت وقت کی بات ہے! کبھی کسی پہ آیا اور کبھی کسی سے گیا۔ اور ہم جیسے صحافی بھی ہیں جن پر بُرا وقت نا جانے پر ہمیشہ مُصر رہتا ہے۔ ایسے میں آزادیٔ صحافت کا دن منائیں تو ملال کیسا؟