سیلفی ہرعقیدے کیلئے فرض عین

May 19, 2019

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کچھ عقائد کسی خاص فرقے یعنی جماعت اور گروہ کیلئے ہوتے ہیں مگر بعض عمل ایسے عمل فرضیت اختیار کرلیتے ہیں کہ پھر انہیں فرض عین کی اہمیت دی جاتی ہے پھر اسے آپ فرضیت کے اس مقام تک لے جاتے ہیں جسے فرض موقف یعنی وقت پر ہی ادا کرنا کہتے ہیں۔ فرضیت لازم ضروری عمل کا نام ہے۔ اس فرضیت کو آپ ٹال نہیں سکتے ورنہ فرض محال اور شکوے شکایات اور ناراضگی کا وہ سلسلہ شروع ہوگا کہ جس کا سامنا آپ کو وقتعاً فوقتعاً ہوتا رہے گا۔ کسی عالم دین نے اس عمل کو برا نہ جانا کسی بھی عقیدے و فرقے کے عالم نے اس پر فتویٰ نہ لگایا بلکہ تمام کے تمام بھی اس کے شیدائی نظرآتے ہیں۔ تبھی تو صالح و ثواب ہی ہوگا ان کے نزدیک یہ عمل فرضیت۔ یہ عمل فرضیت ہر عبادت گاہ میں آپ کو نظر آئے گا مسجد میں، مندر میں، گرجا میں اور اس کرہ ارض کی بڑی سے بڑی عبادت گاہ میں بھی بلکہ وہاں تو زیادہ دیکھا جارہا ہے۔ اللہ کے بعد کسی کی بھی عبادت و سجدہ جائز نہیں اور اللہ کے کچھ ارکان و عقائد نہایت پاکیزہ حیثیت رکھتے ہیں۔ جن کے عمل ادائیگی میں کسی برے خیال کا آنا بھی گناہ عظیم ہے مگر اس عظیم تر عبادات میں بھی خیال اسی ’’فرض عین‘‘ کا رہتا ہے۔
آج کی اولاد وہ نہیں کہ نانا دادوں اور دیگر رشتے داروں کو خوب روئے ۔ جبکہ ابھی کچھ بھرم باقی ہے والدین اور دیگر خونی رشتے خوب نبھائے جارہے ہیں انہیں کچھ بھی ہو تو یہ میلوں کا اور ملکوں کا فاصلہ طے کرکے چلے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دور بیٹھ کر کئی دن تک نانا دادوں کی تصویریں دیکھ کر روتے ہیں۔ اب کوئی جنازوں میں آئے نہ آئے مگر بیماری سے لیکر موت اورموت سے لیکر کفنانے دفنانے تک کی تمام کارروائی بذریعہ موبائل فون کی بنائی گئی سیلفی، تصاویر اورمووی ویڈیو کے ذریعے بنائی ہوئی سبھی کچھ دور بیٹھے مل جاتا ہے۔ ہماری ایک دوست اپنے دادا کی وہ تصویر دیکھ کر روتی رہتی ہے جس میں ان کے دیگر عزیز تیار جنازے کا منہ دکھاتے ہیں کفن سے نکلا چہرہ کان اور ناک میں روئی بھری تصویر دیکھ کر روتی ہے کہ ’’ہائے دادا جان کا یہ حال بھی ہونا تھا‘‘۔ کس قدر گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا جنازے کا احترام نہ کرنا، اس عقیدہ سیلفی دور سے پہلے کی میت کی بے حرمتی ہوتی ہے اگر تصویر وغیرہ اتاری جائے بلکہ بعض ایسے با ایمان لوگ ہوتے ہیں جو بیماری کے دوران ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہماری تصویریں نہ اتاری جائیں۔ مگر اب تو مرنے والے کو بھی شکوہ رہتا ہے کہ سیلفی اور تصاویر تو ہر عقیدے کیلئے عین فرض ہے مگر جانے کیوں ہمارے لواحقین نے فرضیت کے اس عمل سے غفلت برتی اورہمارے ساتھ نہ سیلفی اور نہ تصویر بنوائی اور نہ ہی دوسرے رشتے داروں کو ویڈیو کال کے ذریعے میرا جنازہ جاتا دکھایا میں فرشتوں کو کیا حساب دوں گا جاکر کہ میں کتنا مقبول تھا۔ میرے جنازے کے مجمع کی ویڈیو دیکھ لو۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جتنا کوئی مقبول و معروف ہوتا ہے اتنےہی اسکے گناہ دھلتے ہیں یا جھڑتے ہیں۔ لگتا ہے روز محشر جتنی زیادہ اس کی سیلفیاں ہوں گی اس کے نامہ اعمال نیکیوں سے بھر جائیں گے۔ اسی لئے ہر قوم، ہر مذہب اور ہر فرقے میں اس کی حیثیت ’’فرض عین‘‘ ہے۔ جیسا کہ کہا گیا اگر ٹائم پر یہ فرض ادا نہ ہو تو بچے، جوان، بوڑھے سب ناراض ہو جاتے ہیں کہ اس وقت ہماری سیلفی کیوں نہ لی اورویڈیو وغیرہ کیوں نا بنائی یہ شکوہ ایسے ہی ہے جیسے کہ حج پر جارہے تھے آپ ملنے نہ آئے یا ہم عمرہ کرکے آئے آپ نے حج و عمرے کی مبارک باد نہیں دی۔ آپ بچے کی آمین و بسم اللہ پر نہیں آئے۔ آپ عقیقے جیسی سنت رسم میں شریک نہ ہوئے کچھ تو مزاج پرسی اور عیادت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی سنت سے مشروط رسموں کو دی جاتی ہے۔ پھر سیلفی تو اہم ترین حیثیت پا گئی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کئی ہیں اور سبھی آزاد ہیں اپنے اپنے عقائد کی ادائیگی میں کوئی شیعہ، کوئی سنی، کوئی بریلوی، کوئی دیو بندی، کوئی وہابی اور کوئی سلفی، غرض سبھی کا اپنا اپنا نظریہ اور عقیدہ ہے۔ ہمیں سبھی کے جذبات سے لیکر نظریئے اور عقیدے کا احترام کرنا چاہئے اور اچھے انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ احترام آدمیت میں انسان کے ہر عقیدے کا احترام کرے اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ ہر عقیدے کیلئے سیلفی لینا فرض ہوگیا ہے۔ کوئی بھی یا کسی بھی عقیدے کیلئے یہ حرام نہیں رہی سبھی عقیدے والوں نے اسے اپنے پہ طاری کررکھا ہے۔ بہت سے ایسے فرقے بھی ہیں مسلمانوں کے جس میں سلف صالحین کے طریقہ کتاب و سنت کی اتباع اور ہر قسم کے شرک کی بیخ کنی کرنے کی تجدیدہے مگر وہاں بھی سیلفی جائز ہے یعنی سلفی عقیدے میں سیلفی جائز ہے۔ سیلفی کا خبط مقدس مقامات کی زیارات تک جا پہنچا آج کوئی بھی حج اور عمرہ بغیر سیلفی کے مکمل نہیں۔ تمام زائرین اپنے رشتہ داروں اوراحباب کو یقین دلانے کو کہ آپ کیلئے کون کون سے مقدس مقامات پر عبادت و دعا کی ہے یہ ثبوت کے طور پر سیلفی اور ویڈیو دیکھ لیجئے۔ ایک بڑی خبر تو یہ ہے کہ ایک حاجی صاحب نے شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے مووی بنائی ہے یہ بھی سن لیجئے کہ شیطان کے ساتھ سیلفی بھی بنائی ہے۔ ابھی اگرچہ یہ سب سوشل میڈیا پر وائرل نہیں ہوا مگر خبریں گردش میں ہیں کہ جب ایک حاجی نے شیطان کے ساتھ سیلفی بنائی تو کیا ہوا۔ یہ صحیح خبر مانی جاسکتی ہے کیونکہ جب موبائل فون ہر جگہ پر پہنچ سکتے ہیں تو ہر جگہ کی سیلفی اور ویڈیو بھی بنائی جاسکتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کسی عقیدے والے نے اس پر پابندی عائد نہیں کی کوئی فتویٰ نہ جاری ہوا بلکہ ملاں حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ میک اپ اور گٹ اپ میں ہوں تو ان کی مووی بھی بنے اور ان کے ساتھ سیلفی بھی بنائی جائے۔ دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ بعض بڑی بڑی عبادات میں جہاں دنیاوی خیالات کو گناہ کبیرہ جانا جاتا ہے جہاں کسی عزیز کا تصور بھی گناہ ہے وہاں سیلفیاں جائز ہیں اور سعودی حکام نے بھی اس پر پابندی نہیں لگائی خدا کی عبادت تو بے لوث کرلو مسلمانو۔