تیل کی تلاش؟

May 20, 2019

کراچی کے قریب گہرے سمندر میں کیکڑا ون کے مقام پر ہونے والی ڈرلنگ کے ثمر آور نتائج کے لئے قوم جس قدر بے چین تھی، اُس کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی، جب ذمہ دار حلقوں کی طرف سے تیل و گیس کے ذخائر نہ ملنے کی تصدیق ہوئی اور مزید کھدائی کا کام ترک کردیا گیا۔ اِس منصوبے پر اٹلی کی کمپنی ای این آئی کی قیادت میں جوائنٹ وینچر نے ڈرلنگ کی جس میں امریکی کمپنی ایگزون موبل کے علاوہ او جی ڈی سی اور پی پی ایل شامل تھے۔ ڈرلنگ کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 10کروڑ ڈالر سے زیادہ کا رہا اور 5ہزار 470میٹر کھدائی کی گئی۔ اِس ضمن میں تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کے ماہرین حیران ہیں کہ متذکرہ آزمائشی کنویں کی کھدائی بند کرنے سے قبل وزیراعظم عمران خان کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا۔ اِس وقت تیل و گیس کے حصول میں ملک و قوم زیر بار ہے، پاکستان میں تیل و گیس ڈھونڈنے کا یہ اٹھارہواں عمل تھا، بھارت نے اپنی تیل و گیس کی پہلی دریافت 43ویں مہم میں، لیبیا نے53ویں جبکہ ناروے نے9سال کے عرصے میں 78 کنویں کھودنے کے بعد کامیابی حاصل کی تھی۔ امریکہ کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے پاس 9ارب بیرل سے زیادہ تیل اور 105کھرب مکعب فٹ سے زیادہ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق ساحلِ مکران کے آس پاس 9کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس اور بحیرہ عرب کے ساتھ سمندر میں 6ارب بیرل تیل موجود ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ متذکرہ منصوبے پر ایک مرتبہ پہلے بھی وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ہزاروں فٹ کھدائی ہوئی تھی، تیل و گیس کے آثار بھی ملے تھے لیکن نہ جانے کس مصلحت کے تحت کام ملتوی کرنا پڑا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ حالات سے مایوس ہونے کے بجائے عالمی اور قومی اداروں کے ہونے والے سروے کی روشنی میں نیشنل ایڈونچر پروگرام کے تحت تیل و گیس تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998