گدگدی

May 24, 2019

فیشن اور رواج اچھے بھی ہوتے ہیں اور کم اچھے بھی۔ کم اچھے کا لفظ میں نے جان بوجھ کر لکھا ہے۔ آج کل افطار پارٹیوں کا رواج عروج پر ہے اور میرے مشاہدے کے مطابق اکثر پارٹیاں کرنے والے حضرات کے لیے ابھی تک رمضان کا چاند نظر نہیں آیا نہ انہوں نے کبھی صبح دس بجے سے پہلے نیند سے بیدار ہونے کا تجربہ کیا ہے۔ لیکن یہ حضرات افطار کا ثواب کمانے میں آگے آگے ہیں۔ بہرحال رمضان کے مبارک مہینے میں میل جول، سوشل لائف اور تبادلہ خیال کا بہترین ذریعہ یہ افطار پارٹیاں ہی ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ کو بھی راضی کرنے کا حیلہ کیا جاتا ہے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی حکمت عملی بھی وضع کی جاتی ہے۔ گویا یہ افطار پارٹیاں بیک وقت وصال صنم اور رضائے الٰہی کی تلاش کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ بعض رواج اچھے اور بعض کم اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً مردوں کے لئے پسندیدہ لباس وہ ہے جو ٹخنوں سے ذرا اوپر رہے۔ مقصد تکبر اور احساس بڑائی کی نفی ہے بلکہ نفس کشی ہے کیونکہ تکبر نفس کی مخلوق ہے۔ نفس انسان کو ایندھن کا سامان بناتا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی حضرات عام طور پر شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھتے ہیں لیکن آج کل فیشن کی ہوا اس کے برعکس چل نکلی ہے مردوں کے بجائے خواتین نے ٹخنے بےنقاب کر دیے ہیں۔ فیشن ایبل طبقات کی خواتین ایسی تنگ اور ’’بلند‘‘ پاجامہ نما شلوار زیب تن کرتی ہیں جو ٹخنوں سے اوپر ہی لٹک جاتی ہے۔ یعنی جو کام مردوں کو کرنا تھا اس میدان میں خواتین بازی لے گئی ہیں۔

ذکر ہو رہا تھا افطار پارٹیوں کا۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک ایسی ہی افطار دعوت میں شرکت کا موقع ملا جس کا میزبان اپنے عمران خان سے بھی زیادہ سچا اور اکل کھرا تھا۔ اذان شروع ہوئی تومیزبان نے اعلان کیا کہ جن حضرات کے روزے ہیں وہ مہربانی فرما کر افطاری کا سامان اپنی اپنی پلیٹوں میں ڈال لیں۔ ’’بے روزہ‘‘ حضرات روزہ داروں کے بعد حملہ آور ہوں۔ میری توقع کے عین مطابق چند ایک حضرات اٹھے بڑی تعداد کرسیوں پر بیٹھی صبر کی منازل طے کرتی رہی۔ کرسی نشینوں میں خود میزبان بھی شامل تھا لیکن اس نے تیس روزوں کے وزن پر تیس افطاریوں کا ثواب کما لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس محفل میں دانشور، تجزیہ ’’نگار و گفتار‘‘، اسکالرز اور ریٹائرڈ افسران موجود ہوں وہاں موضوع حالاتِ حاضرہ ہی ہو سکتے ہیں چاہے وہ افطار پارٹی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ توقع کرنا کہ وہاں کوئی دین کی بات ہوگی محض خام خیالی ہے کیونکہ ہم دین کی باتیں صرف مساجد میں سننے کے عادی ہیں۔ میں جب افطار دعوت میں پہنچا تو ایک دانشور تجزیہ ’’گفتار‘‘ بلاول بھٹو زرداری کی دعوت افطار پر روشنی ڈال رہے تھے جبکہ دوسرے حضرات لقمے دے رہے تھے۔ بھلا دانشور کسے کہتے ہیں؟ میرے مشاہدے کے مطابق دانشور وہ عاقل و بالغ شخص ہوتا ہے جس نے کبھی کتاب کو سونگھا نہ ہو لیکن اس کی گفتگو سے دانش کے پھول جھڑتے ہوں۔ جن کتابوں کے حوالے وہ تحریر و تقریر میں دینے کا عادی ہو ان کے ٹائٹل سے آگے کبھی جانے کا گناہ نہ کیا ہو۔ رہا تجزیہ گفتار تو تین چار اخباریں پڑھنے والا ہر شخص تجزیہ گفتار ہوتا ہے بشرطیکہ اسے ٹیلی ویژن پر آنے کا موقع مل جائے۔ اگر آپ سابق جرنیل قسم کی ہستی ہیں تو یہ موقع آسانی سے مل جاتا ہے ورنہ کچھ نہ کچھ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جس طرح ہیروئن بننے کی خواہش پالنے والی حسینہ کو فلمی دنیا کے دھکے کھانے پڑتے ہیں لیکن ایک بار ہیروئن بننے کا خواب پورا ہو جائے تو پھر وہ خود دھکے دیتی رہتی ہے۔

مجھے اس افطار پارٹی میں ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کی گفتگو سب سے زیادہ پسند آئی۔ شاید اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد سچ بولنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ پولیس افسر ساری زندگی ’’پولیس افسر‘‘ ہی رہتا ہے چاہے اسے ریٹائر ہوئے دہائیاں گزری ہوں۔ اس کے مائنڈ سیٹ میں تکبر ،اختیار کا نشہ اور ڈنڈا ہمیشہ موجود رہتا ہے چاہے وہ ماشاءاللہ لمبی سی ریش مبارک پال لے، شلوار کو ٹخنوں سے اوپر اٹھا لےاور زبان کو دن رات آب زم زم میں دھوتا رہے۔ اس محفل میں ایک تجزیہ ’’گفتار‘‘ اپنے تجزیات کے ساتھ محفل پہ چھائے ہوئے تھے۔ ہمارے مہربان سابق پولیس افسر یہ جبر زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکے کیونکہ ان کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جب وہ افسر تھے تو اس طرح کے ’’بڑوے‘‘ باتونی ان کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے دو تین بار لمبی سانس لی ،کہنی ماری، بات کرنے کی تیاری کی لیکن تجزیہ گفتار نے ان کے اشارے سمجھنے سے انکار کردیا ۔ آخر تنگ آ کر وہ بولے ’’صاحب بس کرو ، یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ تم لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر تجزیہ کرتے ہو، تمہیں ان سیاستدانوں کی نفسیات کا پتہ ہے نہ ارادوں کا۔ میں نے زندگی بھر ان سے ڈیل کیا ہے، حکومت مخالف تحریکیں بھی دیکھی ہیں، انہیں حوالاتوں کی سیر بھی کرائی ہے ۔میں جانتا ہوں یہ کتنے پانی میں ہیںاور ان کے ورکرز کتنے پانی میں ہیں۔ انہوں نے جلدی سے اپنی یادوں کی پوٹلی کھولی اور فرمایا افطار میں وقت کم ہے میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف حکومت مخالف تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ورکرز جون جولائی کی شدید گرمی میں باہر نکلیں گے۔ جون جولائی کی آگ برساتی گرمی میں سڑکوں پر ٹائر جلا نا اور گلے پھاڑنا آسان کام نہیں۔ ان نابالغ لیڈروں میں کرشماتی کشش پیدا ہونے میں وقت لگے گا اصل خطرہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہے۔ مولانا اسمبلی کے اندر کم اور باہر زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں معصوم مدرسہ طلبہ موجود ہیں جو رنگ برنگ پگڑیاں پہنے سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔ رہے عوام تو دانشوروں کے خیال میں وہ ستو پی کر سو رہے ہیں جبکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ مہنگائی کے مارے بے ہوش پڑے ہیں۔ بڑے لیڈروں کی اس قدر کردارکشی ہو چکی ہے کہ ہر شہری دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ انہوں نے خوب لوٹا ہے۔ اس لیے وہ کسی احتجاجی تحریک میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ مولوی فضل الرحمٰن اس کے ساتھیوں اور تابع مہمل طلبہ سے ڈیل کرنے کا طریقہ میں بتاتا ہوں۔ قیام پاکستان سے قبل سکندر مرزا پولیٹیکل ایجنٹ تھا اور سابق صوبہ سرحد میں علماء نے حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ حکومت اندر سے خوفزدہ تھی، علماء اور ان کے کارکنوں نے پشاور میں بہت بڑا کیمپ قائم کیا تھا جس سے اگلے دن احتجاجی جلوس نکالا جانا تھا۔ دیگوں کی برات پک رہی تھی، ہمارے ڈی آئی جی صاحب نے باورچی کو رشوت دے کر ان دیگوں میں ’’جبولوٹا‘‘ ملوا دیا۔ جبو لوٹا پیچش لگانے کا تیربہدف نسخہ تھا۔ صبح سویرے علماء حضرات تحریک چلانے کے بجائے شلواریں سنبھالے اور لوٹے پکڑے غسل خانوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ یہی حال ان کے وفادار کارکنوں کا تھا۔ افطاری میں ایک منٹ رہ گیا ہے، تھوڑے کہے کو بہت سمجھیں۔ حکومت اس نسخے پر عمل کرے ان شاء اللہ کامیاب ہوگی۔ آئیے اب افطاری کریں۔