ایک بار پھر عید

June 08, 2019

آمنہ خورشید

تمھارے پاس کتنی عیدی اکھٹی ہوئی؟‘‘ بارہ سالہ ببلو نے اشتیاق سے پوچھا۔

’’میرے پاس کل ملا کرایک ہزار۔ ‘‘ دس سالہ مریم نے بتایا۔ ’’اور تمھارے پاس؟‘‘

’’میرے پاس بھی آٹھ سو ہیں۔ لیکن یہ کم ہیں۔ ‘‘ اُس نےاداسی سےکہا۔

’’کیا مطلب؟‘‘مریم نے پوچھا۔

’’بس ایسے ہی میں ایک بات سوچ رہا تھا‘‘ یہ کہہ کرببلو نے اپنا پلان سنایا۔

’’اوہ،! یہ بات ہے۔ ‘‘ مریم کچھ سوچ میں پڑگئی۔

اس عید پر جب ببلو کا بچپن دوست سلیم عید مل کر جانے لگا تو اس کی نظر گیٹ کے ساتھ کھڑی ایک خوبصورت سی سائیکل پر پڑی۔

’’یہ کس کی سائیکل ہے؟‘‘

’’یہ میری سائیکل ہے ۔ اچھی ہے ناں!‘‘ ببلو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں ! بہت اچھی ‘‘ سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’کاش میں بھی ببلو کے جیسی سائیکل لے سکتا۔ لیکن میرے پاس کبھی اتنے پیسے اکھٹے نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ سلیم کے لہجے میں اداسی گھلی ہو ئی تھی۔ وہ اپنی امی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔’’بیٹا! مایوس نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آپ کو بہت اچھی سائیکل دیں گے۔‘‘ سلیم کی امی نے اسے تسلی دی۔

’’لیکن کب امی! یہ بات تو آپ اتنے سالوں سے کہتی آرہی ہیں۔ میرا بہت دل کرتا ہے ایک نئی سائیکل لینے کو۔بس میں کل سےا سکول کا جیب خرچ نہیں کھاؤں گا۔ اور بچت کر کے ضرور سائیکل خریدوں گا۔‘‘ سلیم کے لہجے میں عزم تھا ۔اُس کی امی نے کہا،’’بیٹا! آپ کا جیب خرچ تو بہت تھوڑا سا ہے ۔ اور نئی سائیکل بہت مہنگی آتی ہے۔ میں کل بشیر سائیکل والے سے بات کروں گی۔ ہو سکتا ہے اس کے پاس کوئی پرانی سائیکل آئی ہو۔ ‘‘ سلیم کی امی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’نہیں،امی جان ، میں تو نئی سائیکل لوں گا۔ پرانی نہیں چاہیے ۔بس آپ فکر نہ کریں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سلیم کمرے سے چلا گیا ۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ کمرے کی کھلی کھڑکی سے ان کی ساری گفتگو ببلو سن چکا تھا جو باہر گلی میں سائیکل چلا رہا تھا۔

اُس کا نرم دل اداس ہو چکا تھا۔وہ وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اورپھراس نےاسی وقت ایک پلان بنایا۔.

’’دیکھو! ہمارے پاس جیب خرچ بھی تو موجود ہے ناں!‘‘ مریم نے یکدم پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔

’’ہاں! یہ خیال تو مجھے آیا ہی نہیں۔چلو گھر چل کر ساری رقم اکھٹی کرتے ہیں، پھر دیکھتے ہیں کہ ہمارے پلان کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘‘ ببلو خوش ہو گیا۔

دونوں جلدی جلدی گھر آئے اور اپنے اپنے جیب خرچ کے گلے توڑ ڈالے، انہوں نے رقم اکھٹی کر کےگن تو لی لیکن اندازہ نہ ہو سکا کہ اس سے ان کا مقصد پورا ہو سکتا ہے یا نہیں۔

’’امی جان! یہ رقم ہم دونوں نے اکھٹی کی ہے۔ آپ بتائیں اس کی سائیکل آسکتی ہے یا نہیں ؟‘‘مریم نے امی کے ہاتھ میں پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔

’’ارے! آپ دونوں کے پاس تو اتنی پیاری سائیکل ہے، پھر نئی لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ امی نے رقم گنتے ہوئے کہا، پھر وہ بولیں۔

’’نہیں! ہاں اگر مزید کچھ پیسے ہو جائیں تو بہت اچھی سائیکل آسکتی ہے۔ ‘‘ یہ سن کردونوںبہت اداس ہو گئے۔

امی جان نے پوچھا لیکن دونوں ٹال گئے اور پھر کھیلنے کے لیے باہر چلے گئے۔

’’مریم ، ببلو کہاں ہو ؟ دیکھو میں آپ دونوں کے لیے کیا لایا ہوں؟‘‘ یہ دادا ابا تھے جو ہمیشہ کی طرح گھر آتے ہی دونوں کو آواز دے رہے تھے۔

دونوںجلدی سے کمرے سے نکل کر آئے اور دادا جان کے ہاتھ سے پھلوں کے شاپر لے لیے۔

’’آپ لوگ اداس سے لگ رہے ہیں۔ کیا بات ہے۔ ‘‘ دادا ابا نے بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے ان کے چہروں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔مریم اور ببلو نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔ دادا ابا شروع سے ان کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اس لیے وہ کوئی بات ان سے نہیں چھپاتے تھے۔

’’دادا ابا! ہم نے عیدی اور جیب خرچ کے پیسے اکھٹے کیے ہیں، تا کہ سلیم کے لیے ایک سائیکل خرید سکیں۔ لیکن۔۔‘‘ اتنا کہتے کہتے ببلو کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔

’’دادا ابا ! ہمارے پاس ابھی بھی کل ملا کے پیسے تھوڑے بنتے ہیں اور ایک اچھی سائیکل تو بہت مہنگی آتی ہے۔ ‘‘ مریم نے بھی اداسی سے بتایا۔

’’ارے میرے بچو! یہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کے پاس جتنے پیسے ہیں لے آئیں ۔ میں بھی ان میں اپنا حصہ ڈالتا ہوں۔ آخر سلیم میاں ہمارے بھی تو پڑوسی ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمیں یہ خیال کیوں نہ آیا! اللہ آپ دونوں کو خوش رکھے‘‘۔

اگلی صبح مریم اور ببلو سلیم کے گھر گئے۔ ایک نئی سرخ سائیکل انہوں نے ایک دیوار کی اوٹ میں چھپا رکھی تھی۔

’’السلام علیکم ! سلیم ! تمھارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ ببلو نے کہا۔

’’وعلیکم السلام ، بھلا وہ کیا؟‘‘ سلیم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’یہ دیکھو،یہ بائیسکل ہماری طرف سے تمھارے لیے گفٹ ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ببلونے دیوار کی اوٹ سے نئی سائیکل نکال کر اس کے سامنے کھڑی کر دی۔

’’یہ کیا،کیا یہ میرے لیے ہے؟‘‘ سلیم کے لہجے میں بے یقینی تھی۔

’’ہاں! ہم نے سوچا تمھیں عید کا تحفہ دیتے ہیں۔ ‘‘ ببلو نے کہا۔

’’لیکن ہم کچھ لیٹ ہو گئے! ‘‘مریم نے ہنستے ہوئے کہا۔

اور اگر چہ عید کو گزرےکچھ دن ہو چکے تھے

لیکن سلیم کو لگا آج ایک بار پھر عید ہو گئی ہے