صوبے میں کرپشن کے باوجود نیب کی خاموشی حیران کُن ہے

June 23, 2019

انٹرویو پینل :ارشد عزیز ملک، گلزار خان،پشاور

رپورٹ :سلطان صدیقی عکّاسی :تنزیل الرحمٰن بیگ

خیبر پختون خوا اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، محمد اکرم خان دُرّانی 1960ء میں ضلع بنّوں کے علاقے، سورانی میواخیل کے ایک متوسّط خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ایک برس کی عُمر ہی میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ والد کی وفات کے بعد والدہ نے ان کی کفالت اور تعلیم و تربیت کی ذمّے داری احسن انداز سے نبھائی۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں واقع سکندر خیل پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن تک تعلیم بنّوں سے مکمل ہوئی، جب کہ سندھ مسلم لا کالج، کراچی سے ایل ایل بی کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میدانِ سیاست میں قدم رکھا اور 1988ء میں جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ 1990ء میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ 1997ء میں مختصر عرصے کے لیے صوبائی وزیرِ جنگلات و ٹرانسپورٹ بنے، جب کہ اس سے قبل ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین اورسابق وزیرِ اعلیٰ، میر افضل خان کے مُشیرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں متّحدہ مجلسِ عمل کی جیت کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختون خوا اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر فرائض انجام دیے، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے گزشتہ دَورِ حکومت میں وفاقی وزیر برائے ہائوسنگ رہے۔ محمد اکرم خان دُرّانی کا شمار جمعیت علمائے اسلام (فے)اور متّحدہ مجلسِ عمل کےاہم و سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں موجودہ صوبائی و مُلکی صورتِ حال، سیاسی حالات و واقعات اور ذاتی زندگی کے حوالے سے ہماری ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی، جو ذیل میں پیشِ خدمت ہے۔

جنگ پینل سے بات چیت کرتے ہوئے

س :پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج :پی ٹی آئی گزشتہ 5برس بھی خیبر پختون خوا میں برسرِ اقتدار رہی اور تب وفاق میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تمام تر توجّہ صوبے پر مرکوز تھی۔ پچھلے 5برسوں میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت نے صوبے میں خُوب تباہی مچائی۔ اس نے ہر رُکنِ اسمبلی کے لیے اس اندھا دُھند انداز سے ترقّیاتی اسکیمز کی منظوری دی کہ موجودہ حکومت کے پاس مزید ترقّیاتی منصوبوں کے لیے رقم ہی موجود نہیں۔ ان ترقّیاتی منصوبوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پی ٹی آئی کو مزید 50برس درکار ہوں گے اور اگر ان اسکیمز کو اے ڈی پی یا سالانہ ترقّیاتی پروگرام سے نکال لیا جاتا ہے، تو اب تک خرچ ہونے والی ساری رقم ضایع ہو جائے گی۔ درحقیقت، پاکستان تحریکِ انصاف کی سابقہ حکومت کی غلط منصوبہ بندی کے باعث صوبے کا اس قدر نقصان ہو چُکا ہے کہ اب یہ دوبارہ پوری طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب اس صوبائی حکومت نے اتنا قرضہ لیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر سوات موٹر وے سے آیندہ 25برس تک صوبے کو کوئی آمدنی نہیں ہو گی۔ اسی طرح بی آر ٹی منصوبے کے لیے لیا گیا قرضہ بھی سب کے سامنے ہے، جب کہ اس منصوبے کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کی منصوبہ بندی کا یہ حال ہے کہ اس کے ڈیزائن کی بورڈ سے منظوری تک نہیں لی گئی اور تکمیل کے لیے ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دی جا رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ بی آر ٹی منصوبہ کب مکمل اور فعال ہو گا۔ بی آر ٹی کے پُلوں کے نیچے سیڑھیاں تعمیر کی جا رہی ہیں، مگر دونوں جانب رواں دواں ٹریفک کی ان تک رسائی اور وہاں سے نکلنے کا راستہ ہی نہیں ہے۔ بسیں خرید لی گئی ہیں، لیکن پارکنگ شیڈز نہ ہونے کی وجہ سے یہ طوفانی بارشوں کے باعث کھڑے کھڑے خراب ہو رہی ہیں۔ نیز، آزمائشی ڈرائیو کے دوران ہی ایک بس نے ایک غریب خاتون کی جان بھی لے لی۔ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بھی مرکز میں وزیرِ اعظم کی طرح بے اختیار ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ، محمود خان کے بااختیار ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قبائلی ضلع، خیبر کے دورے کے دوران کسی نے اُن سے تھری جی اور فور جی سروس کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ مَیں واپس جا کر کور کمانڈر سے اس سلسلے میں بات کروں گا۔‘‘ اسی طرح وزیرِ اعظم سے شمالی وزیرستان کے دورے کے موقعے پر یہی مطالبہ کیا گیا، تو انہوں نے جواباً کہا کہ ’’مَیں اس کے لیے سفارش کروں گا۔‘‘ آخر وہ کس سے سفارش کریں گے۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو شہریوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے اور ترقّیاتی منصوبے کیسے آگے بڑھیں گے۔ ادھر صوبائی اسمبلی میں حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ 9ماہ کے دوران وزیرِ اعلیٰ صرف تین مرتبہ ایوان میں تشریف لائے ۔ ویسے بھی دو، چار وزراء کے علاوہ کوئی وزیر اجلاس میں شرکت نہیں کرتا۔ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے نکات و تحاریک کے جوابات دینے کی ذمّے داری قانون و پارلیمانی امور کے وزیر، سلطان محمد کو سونپی گئی ہے، جو صوبائی اسمبلی کے فلور پر یقین دہانیاں کرواتے، محکموں کو احکامات جاری کرتے اور ارکان سے عہد و پیمان کرتے ہیں، مگر کوئی بھی محکمہ ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتا اور انہیں ایوان میں شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ سو، اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ ہم وزیرِ قانون کی کسی بھی بات پر کان نہیں دھریں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وزیرِ اعلیٰ کہاں ہوتے ہیں اور اُن کی مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایجوکیشن فائونڈیشن کے ایم ڈی نے انہیں ایک خط لکھ کر بد عنوانی کی نشان دہی کی، تو انہوں نے ذمّے دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی بہ جائے ایم ڈی ہی کو عُہدے سے ہٹا دیا۔ اس وقت پورے صوبے میں کرپشن اور خراب طرزِ حُکم رانی کی باتیں زبان زدِ عام ہیں اور اس پر حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔ لہٰذا، ایسی صُورتِ حال میں حکومت سے اچّھی کارکردگی اور عوام کو ریلیف دینے کی توقّع کیسے کی جا سکتی ہے۔

س :لیکن صوبے کے عوام نے تو پی ٹی آئی کو پہلے سے زیادہ ووٹ دیے اور اسی سبب اس مرتبہ اس نے کسی سے اتحاد کے بغیر ہی حکومت بناڈالی؟

ج :عوام نے اپنی مرضی و منشا سے ووٹ نہیں ڈالے، بلکہ اُن سے زبردستی پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ ڈلوائے گئے۔ اس سلسلے میں مَیں کسی اور کی نہیں، بلکہ اپنی ہی مثال پیش کروں گا۔ ماضی کی طرح عام انتخابات 2018ء میں بھی مَیں قومی اور صوبائی اسمبلی سےامیدوار تھا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران مَیں 78ہزار ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی نشست پر کام یاب ہوا تھا اور بعد ازاں صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کا رُکن بن گیا تھا، جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں مُجھے 78ہزار کی بہ جائے ایک لاکھ 6ہزار ووٹ پڑے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں، لیکن جب حتمی نتیجہ سامنے آیا، تو میرے مدِ مقابل امیدوار، عمران خان کے ووٹ مُجھ سے زیادہ تھے۔ مَیں دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر میرا بنّوں کا حلقہ کھولا جائے، تو عمران خان کے ووٹ 30ہزار سے زاید نہیں ہوں گے۔ اسی طرح انتخابی مُہم کے دوران میری نقل و حرکت محدود کرنے کی بڑی کوششیں کی گئی۔ مثال کے طور پر مَیں ایک بار جلسہ گاہ پہنچا اور ابھی گاڑی سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک میری گاڑی کے نیچے بم پھٹ گیا۔ اس واقعے میں میری جان تو بچ گئی، لیکن میرے6ساتھی شہید اور 38زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد ایک اور جلسے میں جاتے ہوئے راستے میں مُجھ پر فائرنگ کی گئی، لیکن گاڑی بُلٹ پروف ہونے کی وجہ سے مَیں محفوظ رہا۔ ہمارے ہاں کبڈی کے مقابلوں میں طاقت وَر فریق کا ایک ہاتھ باندھ دیا جاتا ہے، جب کہ اُس کے نسبتاً کم زور حریف کے دونوں ہاتھ کُھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں اور اسی حالت میں دونوں کو مقابلے کے لیے میدان میں اُتار دیا جاتا ہے، تو 2018ء کے عام انتخابات میں بھی مختلف طریقوں سے میرا ہاتھ باندھنے کی کوشش کی گئی، لیکن تمام تر خطرات اور دبائو کے باوجود مَیں نے ہر جلسے میں شرکت کی اور اپنی انتخابی مُہم جاری رکھی۔ میرا ماننا ہے کہ عوامی تائید کے بغیر بننے والی حکومتیں پی ٹی آئی کی حکومت کی طرح ہی انتہائی کم زور اور مجبور ہوتی ہیں، جو دیرپا نہیں ہوتیں۔ پی ٹی آئی کے دَورِ حکومت میں ادویہ کی قیمتیں دُگنی سے بھی زاید ہو گئی ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نیز، آٹا، چاول، گھی اور دالیں وغیرہ تک غریب عوام کی پہنچ سے دُور ہو چُکی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی صُورتِ حال یہ ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کسی ایجنڈے پر بات کرنے کے لیے اجلاس طلب کرتی ہے، تو اسپیکر اور حکومتی ارکان جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی کئی روز تک اجلاس سے غائب رہتے ہیں۔ نیز، اس دوران بھی اپنے بِلز پیش کرتے ہیں اور انہیں متعلقہ کمیٹی میں بھیجنے کا تردّدبھی نہیں کرتے۔ مثلاً قبائلی اضلاع میں لاگو قوانین کے تسلسل کو برقرار رکھنے سے متعلق بِل صرف ایوان میں پیش ہونا تھا، مگر اسے فوری طور پر منظور بھی کر لیا گیا۔ اسپیکر کے منصب کا احترام اپنی جگہ، مگر اس واقعے کے بعد مشتاق احمد غنی مُجھے اسپیکر کی بہ جائے پی ٹی آئی کے ایک عام ورکر اور رُکنِ صوبائی اسمبلی دکھائی دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، سیکریٹری اسمبلی سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، مگر اسپیکر عدالتی احکامات کو ماننے سے انکاری ہیں اور ایک سینئر فرد کی بہ جائے جونیئر کو رکھنے پر بہ ضد ہیں۔

س :اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کو ترقّیاتی فنڈز نہ ملنے پر کیا آپ عدالت سے رجوع کر رہے ہیں؟

ج :جی بالکل۔ 35ارکانِ اسمبلی نے مختار نامے پر دست خط کر دیے ہیں اور ایک وکیل کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔ صوبائی حکومت نے جنوبی اضلاع میں آب پاشی کے منصوبوں کے لیے ہر حکومتی رُکنِ اسمبلی کو 10،10کروڑ روپے جاری کیے ، جب کہ اس وقت اسمبلی میں جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایم ایم اے کے 8ارکان موجود ہیں اور اسی طرح بعض اپوزیشن ارکان کا تعلق پی پی سے ہے، مگر حکومت نے ان اپوزیشن ارکان میں سے صرف میرے نام پر 5کروڑ روپے جاری کیے، جو میں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ جب تمام اپوزیشن ارکان کو ترقّیاتی فنڈز نہیں دیے جا رہے، تو مَیں اکیلا کیوں لوں۔ نیز، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو مساوی رقم ملنی چاہیے۔ میرے انکار کے بعد حکومتی ارکان کی جانب سے مجھ سے فون پر رابطہ کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپوزیشن ارکان کو ایک، ایک کروڑ اور حکومتی ارکان کو 5،5کروڑ روپے دیں گے۔ اسی طرح بجلی کے منصوبوں کے لیے اپوزیشن ارکان کو 50،50لاکھ اور حکومتی ارکان کو ایک، ایک کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے، جب کہ حکومت سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکانِ اسمبلی کو 25،25لاکھ اور اپوزیشن کی خواتین ارکانِ اسمبلی کو 15،15لاکھ روپے جاری کیے جائیں گے۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ایک ویلیج ناظم کو توڈیولپمنٹ فنڈز کی مَد میں 65لاکھ روپے ملتے ہیں، جب کہ منتخب رُکنِ اسمبلی کو 15لاکھ روپے ملیں گے۔ چناں چہ اپوزیشن نے اپنے ایک اجلاس میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور اگر اسپیکر نے اپنا رویّہ تبدیل نہ کیا، تو نہ صرف ایوان کے اندر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے، بلکہ وزیرِ اعلیٰ ہائوس کے سامنے بھی احتجاج کریں گے اور اسمبلی سے وزیرِ اعلیٰ سیکریٹریٹ تک جلوس بھی نکالیں گے۔

س :کہا جاتا ہے کہ امبریلا اے ڈی پی کا آغاز آپ کے دَور میں ہوا تھا، لیکن آپ اس پر بھی معترض ہیں؟

ج :آپ ریکارڈ نکال کر دیکھیں، تو پتا چلے گا کہ مَیں نے اپنے دَور میں حکومتی و اپوزیشن ارکان کو مساوی ترقّیاتی فنڈز دیے ۔ مَیں نے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین ارکانِ اسمبلی کو بھی جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان کے برابر فنڈز جاری کیے۔ اسی طرح ماضی میں اقلیتی ارکان کو صرف 10،10لاکھ روپے ترقّیاتی فنڈز کی مَد میں ملتے تھے، جب کہ مَیں نے انہیں بھی دیگر ارکان کی طرح ایک، ایک کروڑ کے ترقّیاتی فنڈز جاری کیے اور انہیں تمام منصوبوں میں یکساں حق دیا۔ ہم ایسا اے ڈی پی نہیں بناتے تھے ،جیسا پی ٹی آئی کی حکومت نے بنایا ہےاور نہ ہی بیورو کریسی کا بنایا گیا اے ڈی پی قبول کرتے تھے۔ مَیں ہر نئے مالی سال کے صوبائی بجٹ سے پہلے صوبے بَھر کے دورے کرتا اور عوام کی خواہشات جاننے اور اُن کے نمایندوں سے مشاورت کے بعد ایک جلسے میں ترقّیاتی منصوبوں کا اعلان کرتا۔ پھر اس کے بعد ہدایات جاری کرتا اور ان کی روشنی میں اے ڈی پی بنتا۔

س :پی ٹی آئی کے گزشتہ دَورِ حکومت کے بلین ٹری منصوبے میں کرپشن کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا کیا بنا؟

ج :اپوزیشن نے بلین ٹری منصوبے میں ہونے والی کرپشن کا معاملہ بار ہا اسمبلی میں اُٹھایا اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی خاتون رُکنِ اسمبلی، شگفتہ ملک کے اس حوالے سے سوال پر اپوزیشن نے یک زبان ہو کر اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی کے سُپرد کرنے پر زور دیا۔ پھر حکومتی ارکان کے اتفاق سے اسپیکر نے صوبائی وزیرِ اطلاعات، شوکت یوسف زئی کی سربراہی میں ایک 8رُکنی کمیٹی تشکیل دی۔ مذکورہ کمیٹی نے 25اپریل کو سائٹ کا جائزہ لینے کے لیے بنّوں جانا تھا، لیکن اچانک حکومتی ارکان نے جانے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً، کمیٹی میں شامل اپوزیشن ارکان سائٹ کا جائزہ لینے پہنچے اور وہاں جا کر پتا چلا کہ زمین تو خالی پڑی ہے۔ ہم نے یہ معاملہ دوبارہ اسمبلی میں اُٹھایا، تو اسپیکر نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی کے چیئرمین نے اپوزیشن ارکان کے کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کی وجہ سے اجلاس اور وزٹ منسوخ کیا ۔ ہم نے اسپیکر سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے اپوزیشن ارکان کے استعفے منظور کیے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی استعفے منظور نہیں ہوئے۔ اس پر ہم نے استفسار کیا کہ توپھرکمیٹی کے چیئرمین کو کیسے پتا چلا کہ ہم مستعفی ہو چُکے ہیں۔ نیز، استعفے منظور نہ ہونے تک حزبِ اختلاف کے نمایندے کمیٹی کے ارکان تصوّر ہوں گے اور یک طرفہ فیصلے کرنے کی بہ جائے انہیں اجلاس یا وزٹ سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔ سینئر وزیر، عاطف خان نے بھی اسمبلی میں ہمارے اس مؤقف کی تائید کی۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ اچّھی سائٹس کا وزٹ کیا جائے گا۔ ہم حکومت کے تجویز کردہ مقامات کا جائزہ لینے پر آمادہ ہیں، لیکن حکومتی ارکان کو ہمارے ساتھ اُن سائٹس کا وزٹ بھی کرنا پڑے گا کہ جہاں درخت نہیں لگائے گئے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ جنگلات کی نگرانی کے لیے 15ہزار روپے ماہانہ پر ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں، جب کہ ہمارا مطالبہ کہ ان افراد کے انگوٹھوں کے نشانات فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائے جائیں، کیوں کہ نکلوائی جانے والی رقم حفاظت پر مامور افراد کی تعداد کے اعتبار سے زیادہ ہے یا پھر ان سے اضافی رقم بازیاب کروائی جائے۔ اس وقت صوبے میں 27فاریسٹ ڈویژنز ہیں اور ہم نے حکومت سے ہر ڈویژن میں تقسیم کیے گئے پودوں اور علاقوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں ہر ڈویژن میں لگائے گئے پودوں کی تعداد اور شجرکاری مُہم پر اُٹھنے والے اخراجات بھی بتائے جائیں۔ اپوزیشن بلین ٹری منصوبے میں ہونے والی کرپشن پر خاموش نہیں رہے گی اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔

س :مُلک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی کرپشن کے کئی واقعات سامنے آ چُکے ہیں، لیکن نیب یہاں سرگرم دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ج :صوبے میں نیب کی عدم فعالیت پر مُجھے بھی حیرت ہوتی ہے۔ البتہ نیب نے اس الزام پر مُجھے ضرور طلب کیا تھا کہ میرے دَور میں 6مساجد کے لیے اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ میرے خلاف تمام تر تحقیقات اور چھان بین کے بعد نیب کو صرف مساجد کے لیے زمینوں کی الاٹمنٹ ہی نظر آئی، جو کئی مراحل سے گزرنے کے بعد ہوئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تو معمولی معمولی الزامات پر نیب طلب کر لیتا ہے، لیکن مالم جبّہ، بینک آف خیبر اور بی آر ٹی اسکینڈل سمیت دیگر بڑے بڑے اسکینڈلز پر خاموش ہے ،جو ناقابلِ فہم ہے۔

س :آپ بلین ٹری منصوبے میں کرپشن کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس ضمن میں آپ کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں، تو آپ یہ کیس نیب کے سُپرد کیوں نہیں کرتے؟

ج :اس سلسلے میں تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی تمام 27فاریسٹ ڈویژنز کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ تیار کرے گی اور پھر وہی کمیٹی اس معاملے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرے گی۔ مُجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے ٹویٹ کیا کہ وہ 2050ء تک ایک ارب درخت لگائیں گے، جب کہ ہمارے صوبے کی حکومت نے محض 3برس میں یہ کارنامہ انجام دے دیا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے۔ اسی طرح ہمارے وزیرِ اعظم نے اپنے دورۂ چین میں 5ارب درخت لگانے کا بیان دیا اور اس قدر غیر ذمّے دارانہ بیان سے بیرونِ مُلک پاکستان کی سُبکی ہوئی۔ پھر گورنر خیبر پختون خوا نے ایک افغان شہری کی فارسی زبان میں کی گئی گفتگو کا وزیرِ اعظم اور میڈیا کے سامنے غلط ترجمہ کیا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔ حکومتی ارکان کی اس قسم کی حرکات پر تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63,62کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ضلع صوابی کے علاقے، آلہ ڈھیر میں اس نے 20ہزار کنال پر مشتمل رقبے پر لاچی کی کاشت کی ہے، جب کہ آپ وہاں جا کر دیکھیں، تو پتا چلے گا کہ صرف ایک مقام پر محض 200کنال پر شجر کاری ہوئی ہے اور باقی پورا علاقہ بنجر پڑا ہے اور دو ماہ قبل وہاں آگ لگا دی گئی، تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ دوسری جانب خود رَو پودوں کی نگرانی کے لیے ملازم بھرتی کیے گئے ہیں۔ نیب اس پر کیوں خاموش ہے۔ اب لوگ قومی احتساب بیورو پر انگلیاں اُٹھا رہے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مالم جبّہ کیس میں متعلقہ محکمے کے سیکریٹری نے خود غلطی کا اعتراف کیا اور ایجوکیشن فائونڈیشن کے ایم ڈی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھا تھا۔ نیب مالم جبّہ کیس کی انکوائری کر رہا ہے، لیکن متعلقہ وزیر ڈھٹائی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بی آر ٹی منصوبہ ایک عجوبہ بن چُکا ہے۔ اس کا نظرِ ثانی شُدہ پی سی ون منظور نہیں ہوا اور ابھی یہ ایکنک میں گئے ہیں۔ حکومت ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیے جا رہی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ منصوبہ کب فعال ہو گا۔

س :اقتدار میں آنے سے قبل وزیرِ اعظم، عمران خان نے بہت سے دعوے کیے تھے، لیکن وہ ایک ایک کر کے اپنے ان تمام دعووں کو جُھٹلایا یوٹرنز لے رہے ہیں۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج :یقین جانیں، عمران خان کے غیر ذمّے دارانہ بیانات سُن کر تو میرا سَر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ وہ ایک انتہائی اہم منصب پر فائز ہیں اور اس قسم کی بے سر و پا باتیں انہیں زیب نہیں دیتیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے بلاول بُھٹّو کو’’ بلاول صاحبہ‘‘ کہا اور ایران میں یہ بیان دیا کہ وہاں دہشت گرد ہماری طرف سے آتے ہیں۔ اسی طرح اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد قرضے نہیں لیں گے، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور کسی وفاقی وزیر کے بھائی یا بیٹے کو کوئی حکومتی عُہدہ نہیں دیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس کہ انہوں نے وفاقی وزراء، خسرو بختیار اور پرویز خٹک کے بھائیوں کو بھی صوبائی وزیر بنا دیا۔ علاوہ ازیں، آئی ایم ایف کے ایک سابق اعلیٰ عُہدے دار کو اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرّر کرنے کے بعد اُن کا قومی شناختی کارڈ بنوایا اور پھر آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرتے کرتے مُلک کی پوری معیشت ہی اس کے حوالے کر دی۔ نیز، اقتدار میں آنے سے قبل وہ ارکانِ اسمبلی کو ملنے والے ترقّیاتی فنڈز کو رشوت قرار دیتے تھے، مگر اب سی پیک جیسے تاریخی منصوبے کے لیے مختص فنڈ میں سے 24ارب نکال کر ارکانِ اسمبلی میں تقسیم کر رہے ہیں۔

س :ان دنوں صدارتی نظام کی باتیں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ کیا ان میں کوئی حقیقت ہے؟

ج :حکومت کی کوشش تو یہی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم ختم کرنے کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ تاہم مرکزی دھارے کی تمام اپوزیشن جماعتیں صدارتی نظام کے خلاف ہیں۔ لہٰذا، حکومت کی یہ کوشش کام یاب نہیں ہو گی اور عمران خان اس معاملے میں بھی یوٹرن لے لیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ حکومت اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی، کیوں کہ اسے اقتدار میں لانے والی قوّتیں بھی اس سے نالاں ہیں، جب کہ سیاسی ذہن رکھنے والے سیاست دانوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اس حکومت کی بساط لپیٹی جاتی ہے، تو کہیں کوئی اور طاقت اقتدار پر قابض نہ ہو جائے۔ چند ماہ قبل مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ہم اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے اور حکومت کے خاتمے تک واپس نہیں آئیں گے۔ عمران خان اُن کے اس اعلان سے خوف زدہ ہو گئے۔ مثال کے طور پر پہلے وہ کہتے تھے کہ اپوزیشن احتجاج کرے، کنٹینر وہ فراہم کریں گے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ابھی دو برس بھی نہیں ہوئے اور اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ موجودہ حکومت کا خاتمہ کر کے مُلک میں فوری طور پر نئے انتخابات کروائے جائیں۔ مُلک مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس حکومت نے اپنے ابتدائی 9ماہ کے دوران جتنا قرضہ لیا، اتنا کبھی کسی حکومت نے نہیں لیا۔ ڈالر 104سے بڑھ کر 156روپے کا ہو گیا ہے اور روپے کی قدر میں مزید کمی روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ نیز، ڈالر کی قدر بڑھنے سے مُلک پر قرضوں کا بوجھ خود بہ خود بڑھ گیا۔ حکومت معاشی ابتری کا ذمّے دار پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کو ٹھہرا رہی ہے، حالاں کہ اس کی کابینہ میں شامل بیش تر وزراء ماضی میں مختلف حکومتوں کا حصّہ رہ چُکے ہیں۔ خسرو بختیار، زبیدہ جلال، اعجاز شاہ اور شیخ رشید وغیرہ مشرّف کابینہ میں شامل رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی میں کوئی اہل آدمی نہیں۔ عمران خان ہمہ وقت اپنی ٹیم کی تعریفوں میں مصروف رہتے تھے، لیکن اب پتا چلا کہ وہ محض افسانوی باتیں تھیں ، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ 5برس کے دوران خیبر پختون خوا کا ستیاناس کیا اور اب پورے مُلک کا بیڑہ غرق کر رہی ہے۔ عمران خان نے خود ایک موقعے پر اپنی صوبائی حکومت کی نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اچّھا ہے، ہمیں وفاق میں حکومت نہیں ملی۔ ورنہ کے پی کے کی طرح وہ بھی خراب ہوتی۔‘‘ اور اب وہ اسی گھسی پٹی ٹیم کے ساتھ پورا مُلک چلا رہے ہیں۔

س :کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کیا جائے گا۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج :اس حوالے سے گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمٰن نے بڑا دِل چسپ بیان دیا تھا کہ مدارس لاوارث نہیں۔ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کیا اب یہودی لابی اور قادیانیوں کو پروموٹ کر نے والی حکومت دینی مدارس کا نصاب وضع کرے گی۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ یقیناً حکومت نے یہ بیان امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے دیا ہو گا۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے وفاق المدارس کے نمایندوں اور ذمّے داران کو ہدایت کی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کی میٹنگ نہ کریں۔

س :اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج :میری شادی 1979ء میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ سب سے بڑا بیٹا، زیاد اکرم دُرّانی ایک بار ایم این اے اور ایک بار ایم پی اے منتخب ہوا۔ اس کا ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں انتقال ہوچُکا ہے۔ دوسرا بیٹا، زاہد اکرم دُرّانی قومی اسمبلی کا رُکن ہے، جب کہ تیسرا بیٹا وکالت کے پیشے سے وابستہ ہے اور ان دنوں ستار خان ایڈوکیٹ کے ساتھ پریکٹس کر رہا ہے۔ بیٹی گریجویٹ اور شادی شُدہ ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ میری صاحب زادی نے گریجویشن کے بعد فقط 8ماہ کے عرصے میں قرآن پاک حفظ کیا۔

س :آپ نے شادی اپنی پسند سے کی یا والدین کی مرضی سے؟

ج :ہم تو پسند کی شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اور جب میری شادی ہوئی ، تو اس دَور میں روایت کے مطابق لڑکے کا نکاح کے بعد ایک مہینے تک گھر میں داخلہ ممنوع تھا۔ مَیں شادی کے 23ویں روز گھر گیا، تو دوستوں نے طعنے دیے کہ ’’تم ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کر سکے۔‘‘ تاہم، شریعت کی رُو سے یہ روایت غلط ہے۔ گرچہ میری اہلیہ کا تعلق دوسرے خاندان سے ہے، لیکن ہماری پوری ازدواجی زندگی میں کبھی تلخی تک کی نوبت نہیں آئی اور نہایت خوش گوار وقت گزرا۔

س :گھر میں کس کی چلتی ہے؟

ج :گھر میں میری والدہ کی مرکزی حیثیت ہے۔ شادی کے دو برس بعد ہی میرے والد فوت ہو گئے تھے اور تب میری عُمر کم و بیش ایک برس تھی۔ شوہر کی موت کے بعد والدہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ میری پرورش اور تعلیم و تربیت میں بنیادی کردار والدہ کا ہے اور سیاسی و کاروباری میدان میں بھی انہوں نے ہی میری سرپرستی کی۔ میرے دادا جنرل ایّوب خان کے دَور میں بی ڈی چیئرمین تھے اور ان کے بعد میرے چچا، حاجی سعد اللہ خان رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ مُجھے سیاست اپنے ددھیال سے وَرثے میں ملی اور کاروبار ننھیال سے۔ میرے ماموں ایک عرصے سے مویشیوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ گرچہ مَیں اس کاروبار سے براہِ راست منسلک نہیں، لیکن میری والدہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر بزنس سنبھالتی ہیں۔

س :جمعیت علمائے اسلام سے کیسے وابستہ ہوئے؟

ج :ہمارا گھرانا بنیادی طور پر ایک مذہبی گھرانا ہے اور میرے آبائو اجداد کا علماء سے گہرا تعلق تھا۔ میرے دادا انگریزوں کے خلاف چلائی گئی تحریکِ آزادی کے پُر جوش کارکنان میں شامل تھے۔ یہاں مَیں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں، جس سےآپ کو میرے دادا کی قربانیوں کا بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا۔ 1930ء میں بنّوں میں ایک ہندو خاتون نے اسلام قبول کیا۔ اس کا نام اسلام بی بی رکھا گیا اور ایک مسلمان نوجوان سے اس کی شادی کروا ئی گئی۔ اس واقعے پر ہندوئوں نے شدید احتجاج کیا، تو انگریز حُکم رانوں نے اسلام بی بی کو زبردستی ہندوئوں کے حوالے کر دیا ، جس کے بعد اُس نو مسلم خاتون کا شوہر لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر کسی دُور دراز علاقے میں چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد فقیر آف ایپی نے انگریزوں کے خلاف ایک تحریک شروع کی، جس میں میرے دادا بھی شامل ہوگئے۔ انگریز حُکم رانوں کی جانب سے اس تحریک میں شامل کارکنان اور ان کے حامیوں پر مظالم ڈھائے جاتے تھے ، جس کی وجہ سے میرے دادا شمالی وزیرستان نقل مکانی کر گئے۔دادا کی نقل مکانی کے بعد انگریزوں نے اُن کے اور اُن کے خاندان کے دیگر افرادکے گھروں کو بموں سے اُڑا دیا اور ساری جائیداد بہ حقِ سرکار ضبط کر کے نیلام کر دی۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد فقیر آف ایپی کے مشورے پر میرے دادا اپنے آبائی علاقے میں واپس آ گئے۔ انگریزوں نے میرے دادا کے خلاف دفعہ 302کے تحت بھی کئی مقدّمات قائم کیے تھے۔ چناں چہ جب وہ بنّوں واپس آئے، تو انہوں نے نہ صرف جرگوں کے ذریعے اپنے خلاف بنائے گئے مقدّمات نمٹائے اور مقتولین کے لواحقین کو خون بہا کی رقم ادا کی، بلکہ رقم ادا کر کے نیلام کی گئی اپنی جائیداد بھی واپس لے لی۔ اسی خاندانی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے میری والدہ، ماموں اور چچا سمیت خاندان کے دیگر افراد نے مُجھے جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ میری ساری عُمر اسی پارٹی میں گزری اور مَیں نے اپنے بچّوں کو بھی یہ وصیّت کی ہے کہ اگر وہ میری اولاد ہیں، تو میرے بعد اس پارٹی کو نہیں چھوڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی جماعت کے توسّط ہی سے مُجھے یہ مقام و مرتبہ عطا کیا۔ دو مرتبہ ایسا ہوا کہ مَیں صوبائی اسمبلی میں اپنی جماعت کا واحد رُکن تھا۔ جمعیت علمائے اسلام کی بہ دولت ہی مَیں ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ ایڈوائزری کمیٹی کا چیئرمین، وزیرِ اعلیٰ کا مُشیر، صوبائی وزیر اور وزیرِ اعلیٰ بنا۔ پھر صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وفاقی وزیر رہا اور اس وقت ایک مرتبہ اپوزیشن لیڈر ہوں۔ اس عرصے میں مُجھے دوسری جماعتوں میں شامل ہونے کی کئی آفرز آئیں، لیکن اللہ نے مُجھے استقامت دی اور مَیں نے انہیں رَد کر دیا۔

س :کوئی ایسی خواہش، جو پوری نہ ہوئی ہو؟

ج :یوں تو اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص فضل و کرم ہے اور ایک کے سوا میری ہر خواہش پوری ہوئی۔ مَیں اپنے تمام بچّوں کو حافظِ قرآن بنانا چاہتا تھا، لیکن صرف ایک بیٹی نے قرآن حفظ کیا۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا جتنا شکر بجا لائوں، کم ہے۔ مُجھے یاد ہے کہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مَیں ایک مرتبہ کے پی کے ہائوس، اسلام آباد گیا، تو صبح کمرے سے نکلتے ہی مُجھے کوئل کی آواز سُنائی دی۔ چُوں کہ مُجھے کوئل کی آواز بے حد پسند ہے، تو مَیں نے اپنے کیئر ٹیکر، نادر خان سے کہا کہ وہ کسی روز مُجھے یہ آواز کیسٹ میں ریکارڈ کر کے بھجوا دے۔ جب مَیںسی ایم ہائوس، پشاور واپس پہنچا، تو اہلیہ نے بتایا کہ وہ میرے لیے ایک خُوب صُورت سا پرندہ خرید کر لائی ہیں۔ جب انہوں نے مُجھے وہ پرندہ دکھایا،تو وہ ایک کوئل تھی۔ مَیں نے فوراً دو رکعت شُکرانے کے نفل ادا کیے کہ مَیں تو کوئل کی آواز ریکارڈ کر کے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا، لیکن اللہ نے مُجھے وہ پرندہ ہی زندہ سلامت عطا کر دیا۔ مَیں گزشتہ دو دہائیوں سے ہر سال ماہِ رمضان میں اہلِ خانہ کے ساتھ عُمرے کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہوں اور نمازِ عید بھی حرمین شریفین ہی میں ادا کرتا ہوں۔ حالیہ عیدالفطر بھی مَیں نے وہیں گزاری۔ مَیں نے 1990ء سے لے کر اب تک کئی اہم عُہدوں پر خدمات انجام دیں، لیکن اللہ کے کرم سے مجھ سے کبھی کوئی ایسا عمل سر زد نہیں ہوا کہ جو میرے اور میرے خاندان کے لیے رسوائی کا سبب بنا ہو۔ نیب نے میرا سارا ریکارڈ چھان مارا اور جب کچھ نہ ملا، تو 6مساجد کے لیے زمین الاٹ کرنے کے الزام میں طلب کر لیا، جس پر مُجھے اور میری اولاد کو کوئی طعنہ بھی نہیں دے سکتا۔

س :ملبوسات اورجوتوں وغیرہکی خریداری خود کرتے ہیں یا اہلِ خانہ؟

ج :مَیں نے آج تک اپنے پیسوں سے اپنے لیے کپڑے نہیں خریدے۔ میرے دوست احباب اور رشتے دار جب اپنے لیے شاپنگ کرنے جاتے ہیں، تو میرے لیے بھی ملبوسات خرید لاتے ہیں۔ وہ سب جانتے ہیں کہ مُجھے سفید رنگ کی شلوار قمیص پسند ہے۔ البتہ جب شکار کھیلنے جاتا ہوں، تو رنگ دار کپڑے پہنتا ہوں۔

س :شکار کا شوق کب سے ہے؟

ج :مَیں بچپن ہی سے شکار کا شوقین ہوں اور یہ شوق مُجھے اپنے چچا سے ملا۔ مَیں تیتر، چکور اور مرغابی وغیرہ کے شکار کے لیے کوہاٹ، مردان، صوابی، بنّوں، سندھ کے مختلف علاقوں اور بلوچستان کے علاقے، ژوب جاتا رہتا ہوں۔

س :کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج :بنّوں کی مخصوص ڈِش، پینڈہ اور حلوہ میری پسندیدہ خوراک ہے، لیکن مَیں اپنی پسند کا کھانا تیارکرنے پر اصرار نہیں کرتا اور گھر میں جو کچھ پکا ہو، کھا لیتا ہوں۔ ان دنوں تو دوپہر کا کھانا کھانے سے گریز کرتا ہوں، جب کہ رات کے کھانے میں کبھی کریلے اور کبھی چونگوں (پمنکے) کا سالن کھاتا ہوں۔

س :پسندیدہ پُھول اور رنگ کون سا ہے؟

ج : پُھولوں میں سُرخ گلاب میرا پسندیدہ پُھول ہے، جب کہ رنگوں میں سُرخ رنگ پسند ہے۔ میرے گھر کے پردے، کُشن اور قالین تک سُرخ رنگ کے ہیں اور گاڑی بھی سُرخ رنگ کی پسند ہے۔

س :موسیقی سے لگائو ہے؟

ج :صرف شادی، بیاہ میں بجائی جانے والی روایتی موسیقی پسند ہے۔

س :فلم بینی کے شوقین ہیں؟

ج :کچھ خاص نہیں۔پشتو زبان کی پہلی فلم، یوسف خان، شیر بانو آئی تھی، تو وہ مَیں نے دیکھی تھی۔

س :دَورِ طالب علمی کیسا گزرا؟

ج :دادا کی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے ہمارے گھر کا ماحول کافی سنجیدہ تھا اور مَیں اسکول ، کالج میں اس لیے بھی شریف بن کر رہتا تھا کہ کہیں کوئی دادا سے جا کر میری شکایت نہ کر دے۔ ہمارے دَورِ طالب علمی میں عمومی طور پر اسکولز کا ماحول کافی بہتر تھا۔ اساتذہ، طلبا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ نہایت ہی سادہ دَور تھا۔ میرا اسکول گھر سے تقریباً دو فرلانگ دُور تھا اور مَیں پیدل اسکول جاتا۔ مجھ سمیت دوسرے طلبا گھر سے کھانا رومال میں باندھ کر لاتے اور اسے توت کے ایک بڑے سے درخت کے ساتھ باندھ دیتے۔ تفریح کے وقفے کے دوران سب کی نظریں گھی سے تر رومال پر ہوتیں، جس میں پراٹھے بندھے ہوتے اور ہر طالب علم سب سے پہلے ان تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ تاہم، بعد ازاں سارے طلبا ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ اکثر اوقات سب ایک ایک، دو دو پیسے جمع کر کے چنے، لوبیا یا کچالو خرید لاتے اور گھر سے لائی گئی روٹی کے ساتھ مل کر کھاتے۔ ملیشیا کے کپڑے ہمارے اسکول کی وردی ہوا کرتی تھی اور ہمارے پاس یہ ایک ہی جوڑا ہوتا تھا۔ موسمِ سرما میں دُھلائی کے بعد جب صبح تک وردی خُشک نہیں ہوتی تھی، تو اگلے روز ہم اسکول سے چُھٹی کر لیتے تھے۔ میرے کئی ہم مکتب نصابی کُتب کی خریداری کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مزید نہ پڑھ سکے، جن میں میرا ایک دوست، میر احمد خان بھی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مَیں وزیرِ اعلیٰ بنا، تو کابینہ کے پہلے اجلاس ہی میں ہم نے صوبے بَھر میں میٹرک تک مُفت تعلیم کی فراہمی اور طلبہ کو مُفت نصابی کُتب فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب، چوہدری پرویز الٰہی نے بھی ہمارے اس فیصلے کی تقلید کی۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کی بھرپور تشہیری مُہم بھی چلائی، لیکن ہم نے اپنے صوبے کے محدود وسائل اشتہار بازی پر صَرف نہیں کیے۔