میثاقِ معیشت پر مریم نواز کا اعتراض بلاجواز

June 24, 2019

پاکستان کے لیے اچھی بلکہ بہت اچھی خبر!! آخرکار وزیراعظم عمران خان بھی میثاقِ معیشت کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ میڈیا خبروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے جمعہ کے روز اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملاقات کی جس میں بجٹ سیشن کے دوران اراکین کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز پر بات ہوئی۔ اسد قیصر سے اپنی ملاقات کے دوران وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ میثاقِ معیشت طے کرنے کی منظوری دی اور فیصلہ کیا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اعلیٰ سطحی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میثاقِ معیشت کمیٹی میں سینیٹ و قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ قومی معیشت کو تباہ حالی اور اس سے جڑے ممکنہ نقصانات سے ملک کو بچانے کے لیے وزیراعظم کا یہ فیصلہ بہت خوش آئند ہے۔ امید ہے خان صاحب اپنے اس فیصلہ پر کھڑے رہیں گے اور کسی قسم کا یو ٹرن نہیں لیں گے۔اپنے اقتدار کے ابتدائی دس ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت نے ہر حربہ آزمایا لیکن معیشت ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی ہی رہی۔ وجوہات جو بھی ہوں، اس دوران خان صاحب نے اپوزیشن سے متعلق انتہائی سخت رویہ اپنائے رکھا یہاں تک کہ اپوزیشن رہنمائوں سے ہاتھ ملانے اور اُن کے ساتھ بیٹھے کو بھی نظر انداز کیا۔ پہلے دن سے حکومت کا رویہ جارحانہ رہا، چور، ڈاکو کی گردان معمول رہی جبکہ اپوزیشن نے بار ہا حکومت کو خاص طور پر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اتفاق رائے سے ایک متفقہ پالیسی بنانے کی تجویز پیش کی۔ حکومت پہلے تو نہیں مانی اور اس میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ رہے لیکن چلیں شکر ہے کہ اب خان صاحب ایک متفقہ قومی میثاقِ معیشت کے لیے تیار ہیں۔ دیر آید درست آید۔مجھے یقین ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف پاکستان میں کاروباری حالات بہت بہتر ہوں گے بلکہ بیرونِ ملک سے بھی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان کو ایک متفقہ میثاقِ معیشت کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ یہاں ہر حکومت کے بدلنے بلکہ معاشی شعبوں سے منسلک وزیروں مشیروں اور اعلیٰ بیورو کریٹس کے تبدیل ہونے سے بھی معاشی پالیسیاں بدل جاتی ہیں جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ پریشان رہتا ہے کہ نجانے کون سی پالیسی بدلنے سے اُن کا کاروبار ٹھپ ہو جائے۔ نئے کاروبار کے لیے ایسے ماحول میں کوئی پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ اس ماحول میں بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اپنی تقاریر میں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے ایک بار پھر متفقہ معاشی پالیسی پر زور دیا اور اس سلسلے میں اپنا تعاون پیش کیا۔ تاہم اپوزیشن کی طرف سے یہ تعاون غیر مشروط ہونا چاہئے، چاہے اُنہیں احتساب سے متعلق حکومت سے شکایت ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کی جانب سے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرنے کے بعد مریم نواز کی جانب سے میثاقِ معیشت کی مخالفت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مریم نواز کو سمجھنا چاہئے کہ میثاقِ معیشت عمران خان کی نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہے اور یہی بات شہباز شریف بھی بار بار کرتے رہے ہیں۔ اگر مریم اور اُن کے والد نواز شریف کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو اس کے جواب میں اُن کی طرف سے کوئی ایسا اقدام کرنا جو ذاتی رنجش کو ظاہر کرے اور ملک کے وسیع تر مفاد کے حق میں نہ ہو، مناسب نہیں۔ امید ہے نون لیگ شہباز شریف کی بات کا پہرہ دے گی اور یہی خیال میاں نواز شریف کا بھی ہوگا۔ میثاقِ معیشت کو سیاست سے بالاتر ہوکر پاکستان کے لیے ممکن بنانا چاہئے۔حال ہی میں اپنی تقریر میں آصف علی زرداری نے جو بات کی وہ کسی صورت ماننے کے قابل نہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ حساب کتاب لینا بند کرو۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اُنہوں نے پرویز مشرف کے دورِ حکومت سمیت کسی دوسرے کا احتساب نہیں کیا۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا اہم ترین رہنما ایسی بات کیسے کر سکتا ہے کہ سیاستدان جو حکمران رہے ہوں، کا کوئی احتساب ہی نہ ہو۔ اعتراض احتساب کے طریقہ کار پر ہو سکتا ہے، اعتراض اس بات پر کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے احتساب کے نظام کو سیاسی مخالفین یا سیاسی پارٹیوں کو بنانے بگاڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اس لیے اس نظام کو بہتر بنایا جائے لیکن کوئی ایسا شخص جو ایک عرصہ تک حکومت میں رہا ہو اور اس پر سنگین کرپشن کے الزامات بھی ہوں، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے گزرے دنوں کا حساب کتاب نہ لیا جائے۔ نیب ماضی میں جو کرتی رہی یا احتساب کے نام پر جو اب بھی کر رہی ہے، اس پر بہت سوں کو اعتراض ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتساب کے عمل کو ہی ختم کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کے نظام کو منصفانہ بنایا جائے تاکہ نہ صرف سب کا احتساب ہو بلکہ احتساب کو اور احتساب کرنے والے ادارہ کو کوئی اپنے سیاسی مقاصد یا اپوزیشن کو کچلنے اور سیاسی جماعتوں کو بنانے بگاڑنے کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ اس سلسلہ میں سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ احتساب کے نظام کو خرابیوں سے پاک کریں۔ زرداری صاحب اپنے دورِ حکومت میں ایسا کرنے میں ناکام رہے بلکہ اُس وقت تو نیب کو اہم مقدمات ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہی حال نون لیگ کا تھا جس نے پی پی پی کی طرح وعدہ کے باوجود احتساب کے نظام کو درست نہیں کیا۔ اب یہ مطالبہ کرنا کہ ہمارا حساب کتاب نہ لیا جائے، درست نہیں۔ کچھ کرنا ہے تو پہلے اپنی غلطی کو تسلیم کریں کہ ہم سے خطا ہوئی کہ ہم نے نیب کو درست نہیں کیا بلکہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور پھر حکومت سے مطالبہ کریں کہ نیب قانون میں تبدیلی لانے اور احتساب کے نظام کو منصفانہ بنانے کے لیے بھی اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔ (کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)