کامیابی عمل سے حاصل ہوتی ہے اُمید سے نہیں

June 26, 2019

ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں سامی مخالف حملے ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ نسلی منافرت کے واقعات میں 30فیصد اضافے کے بعد ان کی تعداد 600تک پہنچ گئی ہے۔ برطانیہ میں یہودیوں کو حفاظت کے لئے مشورہ دینے والے کمیونٹی سیکورٹی ٹرسٹ کے مارک گارڈنر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 25برس (جب سے ایسے واقعات کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے) کے دوران یہ بدترین اعداد و شمار ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تنائو کا الزام برطانوی یہودیوں پر لگایا جاتا ہے اور بعض اوقات ان پر حملے کئے جاتے ہیں جب کہ اس حوالے سے ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

بین الاقوامی یہودی کانگریس (WJC)نے ایک رپورٹ جاری کی ہے ’’یورپ میں اسلام کا فروغ‘‘ کے نام سے جاری اس سروے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2018تک یورپ میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں غیر معمولی آبادیاتی انقلاب رونما ہوگا۔ اس سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج کل یورپ اور امریکہ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہو رہا ہے، حالیہ عرصے میں یورپ کے مسلمان قابلِ لحاظ حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کر رہے ہیں اگر مستحکم سیاسی نمائندگی کا یہی حال رہا تو 2020میں یورپ کی عام آبادی میں ان کا شرح تناسب 10فیصد ہوگا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہالینڈ کی جملہ آبادی میں مسلمانوں کی شرح تناسب ابھی سے 10فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

میرے حساب سے یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دو وجوہ کی بناء پر دنیا کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ پہلی وجہ سیاسی ہے جو ایک طرف یورپی ممالک میں ’’یہودی کالونیوں‘‘ اور ان کے سیاسی نظریات و اثرات کی اہمیت اور پوزیشن سے تعلق رکھتی ہے تو دوسری طرف ان یورپی ممالک کے مؤقف سے تعلق رکھتی ہے جہاں آنے والے دنوں میں عرب صہیونی کشمکش پر مسلمانوں کے مؤقف اور ان کے وزن میں گراں قدر اضافہ کی وجہ سے اثر پڑے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہودی کالونیوں اور ان کے سیاسی اثرات پر انتخابات میں منفی اثر کا پڑنا فطری ہے کہ روز بروز وہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے ان کا سیاسی وزن بھی بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپی ممالک میں حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اسلام سے بڑھتی ہوئی لوگوں کی دلچسپی کو تسلیم کرتے ہوئے علاقائی مسائل میں سیاسی مؤقف کے یقین کے ساتھ اس کا لحاظ کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں برطانیہ میں ہوئے گزشتہ انتخابات کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانیہ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اسرائیلی مؤقف رکھنے والے امیدواروں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ اور کتابچے تقسیم کئے گئے، امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ملنے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو نشانہ بنایا گیا اور اسرائیل کی ناروا ظالمانہ صیہونیت حکمت عملی کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند عمائدین، جس میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں، نےبڑے بعض ڈیپارٹمینٹل اسٹوروں کا بائیکاٹ کرنے کیلئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ ان کے منافع کے ایک حصے سے اسرائیل کی مدد کی جاتی ہے۔ جس سے اسرائیل کے مظالم اور بڑھ گئے ہیں اور فلسطینیوں پر اس کے جوروستم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں تشویش کی دوسری وجہ ’’امن و سلامتی کو لاحق ہونے والا خطرہ‘‘ ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام کا فروغ یہودیت کیلئے خطرہ اور سیکورٹی کیلئے رسک ہے اسرائیلی تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں مسلم برادری کے سیاسی وزن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ و برطانیہ کے انتخابات میں اس کا انتخابی مؤقف اس بات کا متقاضی ہے کہ یہودی تنظیمیں اور ادارے خواب غفلت سے جاگیں اور اس رجحان کے سدباب کی تیاری کریں۔ یہودی و اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے اس بات پر زور دے کر کہا ہے کہ یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے باعث یورپ کے یہودی تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہیں خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ یورپ میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہوں گے اور مسلمانوں کا یہ انتباہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ منظم کارگر، منصوبہ بندی اور مؤثر شکل میں سامنے آئیں گے یہی وجہ ہے کہ صیہونی لیڈروں نے ایک نیا نعرہ بلند کیا ہے کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسایا جائے۔ میرےخیال میں صیہونی نظریہ آج کے دور میں صرف یہودی قومیت اور یہودی سامراجیت ہی کی اجارہ داری کا نظریہ نہیں ہے بلکہ نسل پرستی اور سوشلسٹ دشمنی پر بھی مبنی ہے۔ 5؍جولائی 1950کو اسرائیل نےیہ قانون بنایا کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیلی شہریت لے سکتے ہیں۔ صیہونی دانشوروں اور مفکروں نے یہ عجیب و غریب منطق بھی پیش کی کہ وہ یہودیوں کے علاوہ فلسطین میں رہنے والے باقی عربوں کو وہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔ اس نرالی منطق کے مطابق اقلیت میں یہودی تو فلسطینی قرار پائے اور اکثریت عربوں کو ’’مہاجر‘‘ بنا دیا گیا چونکہ یہ فیصلہ یکم اپریل 1951میں کیا گیا اس لئے یہ کوئی پہلی اپریل کا روایتی مذاق نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا ایک سنجیدہ اقدام تھا اس دن سے اسرائیلی حکومت نے عرب دشمنی کا کھل کر اظہار کیا اور عرب علاقوں پر اپنا حق جتانے کی پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے معرضِ وجود میں آتے ہی عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس ریاست کو صرف یہودیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ نازی یہودیوں کو بےدخل کر کے جرمنی کو صرف نازیوں کی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ صیہونیت اس بات کا دعویٰ بھی کرتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کے قدیم باشندے ہیں اور یہودی قوم ایک مشترکہ جذبے، مسلسل جدوجہد، ایک مذہب اور ایک مخصوص تاریخ کی مالک ہے۔ صیہونی مفکر یہودیت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے……

بلند بانگ ہیں دعوے یہ پارسائی کے

فرشتے سارے ہیں کوئی تو یاں بشر ٹھہرے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)