بھارت کے خلاف ہار نے پر بھی امید نہیں ٹوٹی تھی، سرفراز

June 27, 2019

امیدپر دنیا قائم ہے۔ امیدسے باہر کچھ بھی نہیں ۔ یہ امید ہی ہے کہ جو آپ کو مشکل سے مشکل کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم ورلڈ کپ کے اہم میچ میں روایتی حریف بھارت سے ہار گئے تو بھی ہماری امید نہیں ٹوٹی۔ ہمیں اپنی صلاحیت پر یقین تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ جب ہم اپنی صلاحیت کو کارکردگی میں تبدیل کریں گے تو ہم اس ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں۔

ہم نے دو دن کا آف لیا اور دو دن کے بعد ہر چیز ایسی لگی کہ جیسے بحال ہو گئی ہو۔ہمارے لئے سب سے زیادہ قیمتی چیز پرستاروں کی حمایت ہے۔ اگر لارڈز میں 80 فیصد سبزشرٹس اور پاکستانی جھنڈے نظر آرھے تھے توایجسبٹن میں یہ سو فیصد تھے۔ یہ مداحوں کی حمایت ہی ہے جو ہمیں حوصلہ دیتی ہے۔ وہ ایک اچھی فیلڈنگ ہو، ایک اچھا شاٹ یا ایک وکٹ ہو جب اسکی تعریف کی جائے تو حوصلہ بڑھتا ہے۔ لہذا ہماری امید اور یقین کے علاوہ، اسٹینڈز سے آنے والی تالیاں اور نعروں کی صورت میں ہونے والی حمایت ہماری ان دو میچوں کی جیت میں ایک اہم عنصر رہی ۔

پاکستان ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے ورلڈ کپ کے حوالے سے اپنے بلاگ میں لکھا کہ جب ہم ایجبسٹن پہنچے تو گہرے بادل تھے اور تھوڑی تھوڑی بوندا باندی تھی۔ لیکن ہمیں میچ نہ ہونے کاکوئی خوف نہیں تھا ۔ پیش گوئی واضح تھی کہ بارش نہیں ہو گی اورہم جانتے تھے کہ میچ مکمل ہو جائے گا۔نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت لیا ،لیکن سکہ ہمارے حق میں گرتا تو میں بھی بیٹنگ ہی کرتا۔ہم نے پچ کو اچھی طرح سے دیکھا تھا اور بنیادی خیال یہ تھا کہ نئی گیندکو گذارنا ہوگا، چاھے بیٹنگ کریں یا بولنگ۔

ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہمیں مارٹن گپٹل کی ابتدائی وکٹ جلد مل گئی لیکن کین ولیمسن کی وکٹ اہم تھی۔ وہ سب سے بہتر فارم میں تھااور خوب رنز بنا رہا تھا، لہذا جب شاداب خان نے اسےآؤٹ کیا تو ہم نے سوچا کہ ہم نیوزی لینڈ کو جلد آؤٹ کر لیں گے۔لیکن جمی نیشم اور کولین ڈی گرینڈہوم نے زبردست بیٹنگ کی۔ انہوں نےاننگز کے اختتام تک کھیلنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔

نیشم اور گرینڈہوم نیوزی لینڈ کو237 تک لے گئے۔ یہ ایک مشکل ہدف تھا۔ وقفہ پر ہم نے سوچا کہ یہ ہدف آسان نہیں ہوگا۔ ہم نے دو ابتدائی وکٹ جلد کھودیے لیکن پھر بابر اعظم اور محمد حفیظ نے اننگز کو مستحکم کیا۔ حفیظ کے بعدحارث سہیل نے بابر کو ایک اچھااسٹینڈ دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ٓاج تک میں نے ھدف کے تعاقب میں اس سے بہتر اننگز نہیں دیکھی جو بابر نے کھیلی ۔

نیوزی لینڈ نے آخری دس اوورز میں 85 رنز بنائے ، کیونکہ ہم نےتھوڑی سی آف لینتھ بولنگ کی۔ہم بہتر کام کر سکتے تھے اور انہیں 200 سے زائد اسکور نہ کرنے دیتے۔شاہین شاہ آفریدی نے شاندار بولنگ کی۔ وہ پہلے میچوں میں اتنا اچھا نہیں رہا تھا، لیکن اس کا ٹیمپرا منٹ اچھا ہے اور وہ ہمارے کمبی نیشن میں سیٹ ھے۔ ایک بار جب وہ وکٹ لینے لگے تو وہ مہلک ہو جاتا ہے اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایسا ہی ہوا۔

میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شاہین ایک بہت اچھا بولر ہے اور آنے والے برسوں میں وہ پاکستان کو بہت سے میچ جتواسکتاہے۔ہماری فیلڈنگ اچھی رہی۔ سلپ میں پہلے کیچ کے بعد سے ہم نے اپنے تمام کیچز پکڑے۔ فیلڈنگ ایسی چیز ہے جس سے اپنے آپ کو لطف اندوز کرنے کی ضرورت ہے لہذا آخری میچ کے بعد، جس میں ہم نے بہت کیچز گرائے تھےہمارے فیلڈنگ کوچ (گرانٹ بریڈبرن) نے ہمیں بتایا کہ ہمیں فیلڈنگ سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ پیغام کھلاڑیوں کو دیا گیا ۔ ایک میچ میں 300 گیندیں ہوتی ہیں لہذا ہمیں ان 300 گیندوں پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور اس چیز نے ہماری فیلڈنگ کو بہتر کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بابر ہمارے دور کا بہترین کھلاڑی ہے۔ اسکی ایک کلاس ہے۔ وہ تکنیکی طور پر بہت درست ہے اور اسے سیٹ ہونے کے بعدآؤٹ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ نیوزی لینڈ کے بولنگ اٹیک کے خلاف اچھا کھیلا۔

ایک بار پھر حارث نے زبردست بیٹنگ کی۔ اس نے نیوزی لینڈ کے بولرز پر شروع سے اٹیک کیا۔ میں بابر اور حارث کو اسلئے بھی زیادہ کریڈٹ دوں گا کیونکہ اس پچ پر کھیلناآسان نہیں تھا۔حارث بہت اچھا کھیل رہا ہے۔ بابر اور حارث ہمارے مڈل آرڈر میں ہیرے ہیں ۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حارث اپنی باڈی لینگویج میں غیر متاثر کن ہے اور تھوڑا خوفزدہ بھی لگتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ نہیں ہے۔

اس کی ایک کلاس ہے اور اس طرح کے کھلاڑی بہت ہی کم ہوتےہیں۔ جب سے وہ ویسٹ انڈیز کے میچ کے بعد سے ڈراپ ہوا وہ اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لئےبے تاب تھااور اس کی اس بات کا ہمیں بہت فائدہ ہوا۔بھارت سے شکست کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے بات چیت کی اور اس میچ میں ہم نے جو غلطیاں کی تھیں ہم نے انکی نشاندہی کی۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہم بھارت کے میچ میں تینوں شعبوں میں اچھی طرح سے نہیں کھیلے لہذا ہم نے ایک دوسرے سےبات کی اور مدد کی۔

اس ٹیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہر ایک نے ان دومیچوں کی جیت میں کنٹری بیوٹ کیا ہے اور اس ٹیم کے بارے میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہی ہے۔ اب ہماری توجہ افغانستان کے خلاف میچ پرہے اور پھر ہم بنگلہ دیش کے بارے میں سوچیں گے۔ ایک مرتبہ جب ہم نے ان دو میچوں کو جیت لیا تو سیمی فائنل کے راستےخود ہی ہموار ہوجائیںگے۔ ہم ابھی وہاں تک کا نہیں سوچ رہے ۔ افغانستان ایک خطرناک ٹیم ہےلہذا ہمیں ان کو شکست دینے کے لئے اپنی پوری کوشش کرنا ہوگی۔ ان کے پاس اعلٰی معیار کے اسپنرز ہیں لہذا ہم ان کو ہلکا نہیں لیں گے اور اپنی پوری طاقت سےجائیں گے۔

1992 ورلڈ کپ اور اب کی بار میں خاصی مماثلت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ وابستگی ہمارے عالمی کپ جیتنے تک جائے۔ لیکن جیت کے لئے ہمیں اپنے پاؤں زمین پر رکھنا ہوںگے۔ ایک بار ہم اپنے باقی میچوں کو جیتیں تواللہ تعالٰی خودسیمی فائنل کا راستہ بنادےگا۔ ہماری امید زندہ ہیں اور یہ سب سے حوصلہ افزا بات ہے۔ مجھے امید ہے کہ شائقین ہماری سپورٹ جاری رکھیں گے اور ہمارے لئے دعا کرتے رہیں گے۔