’’صادقین‘‘ آپ آئے تو چاروں طرف کِھل اُٹھے پھولوں کے نقش و نگار

June 30, 2019

خوبصورت اور تخلیقی ذہن میں ہی عظیم تخیلات جنم لیتے ہیں! صادقین بھی ایک خوبصورت، زرخیز اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ وہ نظر بھی کمال کی رکھتے تھے، انھوں نے حسن کائنات کو ’دیدۂ حیراں‘سے دیکھا اور انگلیاں کینوس پر خوبصورتی نقش کرتی گئیں۔

جی ہاں، ہم بات کررہے ہیں شہرہ آفاق مصور، خطاط، نقاش، شاعر اور درویش صفت انسان سید صادقین احمد نقوی المعروف صادقین کی، جو 30جون 1930ء کو امروہا (بھارت) میں پیدا ہوئے، اس طرح آج ان کا 90واں جنم دن منایا جارہا ہے۔ صادقین کو اسلامی خطاطی اور مصوری میں طرہ امتیاز حاصل تھا اور یہی خصوصیت ان کی وجہ شہرت بنی۔

صادقین کو پاکستان میں تو ایک عظیم مصور، خطاط اور نقاش کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی پاکستان سے باہر بھی ان کے پرستاروں اور ان کے فن کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ ملک کے مقابلے میں دراصل بیرونِ ملک ان کے فن کو زیادہ پذیرائی اور اعلیٰ مقام دیا گیا تو غلط نہ ہوگا۔ فرانس میں صادقین کے چاہنے والے انھیں پکاسو کے درجہ کا تخلیق کار قرار دیتے ہیں اور وہاں انھیں ’پاکستانی پکاسو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاںیہ چیز محض کسی عام فرانسیسی کی طرف سے صادقین کے فن کی تعریف میں کہی گئی بات کی بنیاد پر نہیں کی جارہی بلکہ فرانس کے ایک مایہ ناز روزنامہ Le Monde et La Vie نے اپنی خصوصی اشاعت میں صادقین کو پکاسو کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ ایک اور فرانسیسی اخبار Le Figaro نے 16اکتوبر 1962ء کے شمارے میں صادقین کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ’’صادقین کے کام میں وسعت، کثافت، حجم اور حقیقت کا تاثر ملتا ہے، جو خیالی سوچ میں بھی حقیقت کا رنگ بھر دیتا ہے‘‘۔

تاہم صادقین صرف فنِمصوری تک ہی محدود نہیں تھے، ادب کے شعبے میں بھی انھوںنے گہرے نقوش چھوڑے۔ فیض احمد فیض کا ان کے بارے میں کہنا تھا، ’’جس وقت صادقین کا قلم چلتا ہے، اس سے صرف کائنات ہی نہیں بلکہ ماضی، حال اور مستقبل بھی گھوم جاتا ہے‘‘۔ بھارتی پروفیسر ڈاکٹر فرید پربتی نے صادقین کو اردو رباعی (شاعری کی ایک صنف) کا عظیم ترین شاعر قرار دیا۔

کراچی میں مقیم سلطان احمد صدیقی، صادقین کے بھتیجے ہیں۔ وہ صادقین اکیڈمی کے اُمور چلانے کے نگران بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لوگ جس صادقین کو ایک نقاش، مصور اور خطاط کے طور پر جانتے ہیں، دراصل ان کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

سلطان احمد کے مطابق صادقین16سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے، جس میں صادقین کے اوائلی دور کی شاعری موجود ہے۔

صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے۔

صادقین، اپنی وفات سے قبل، کراچی کے تاریخی مقام فریئر ہال کی چھت کو اپنے فن پاروں سے سجا رہے تھے۔ ہرچندکہ وقت نے انھیں اس کام کو مکمل کرنے کی اجازت نہیںدی، تاہم 80فٹ لمبائی اور 35فٹ چوڑائی کے ساتھ، یہ دنیا میں کسی بھی چھت (Ceiling) پر کیا جانے والا مصوری کا سب سے بڑا کام ہے، اس میورل کو صادقین کی اَرض و سماوات (زمین و آسمان) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ 1987ء میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

فریئر ہال کے علاوہ صادقین نے لاہور میوزیم کی چھت کو بھی اپنے فن پاروں سے سجایا۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل جیوگرافیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (حیدرآباد، بھارت)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس اور پنجاب یونیورسٹی کی دیواروں پر بھی ان کے میورلز (قد آدم تصاویر) کندہ ہیں۔

جناح ہسپتال کراچی اور کراچی ایئرپورٹ کیلئے بھی ابتدا میں صادقین نے ہی میورلز تخلیق کیے تھے، جو پُر اسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ ابو ظبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہورِ زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

’وقت کا خزانہ‘ (Treasure of Time) صادقین کی ایک اور عظیم الشان تخلیق ہے، جو میورل کی صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، کراچی لائبریری میں ثبت ہے۔ اس میورل میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقاء کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ صادقین نے یہ میورل1961ء میں تخلیق کیا تھا۔

صرف یہی نہیں، صادقین نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی اپنے فنِ مصوری کے ذریعے انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔ صادقین نے فرانسیسی مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دی آؤٹ سائیڈر‘ کی تمثیل (Illustration) بھی پیش کی۔

1960ء میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں 30برس کی عمر میںتمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی سال انہیں فرانس کےااعلیٰ سول اعزاز ملا۔ 1962ء میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس) جبکہ1985ء میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ آسٹریلوی حکومت نے بھی انھیں ثقافتی ایوارڈ سے نوازا۔

صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں، جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔یہ سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

اندازہ ہے کہ مصوری، نقوش، خطاطی اور میورلز کی شکل میں صادقین کے فن پاروں کی تعداد 15ہزار سے زائد ہے، تاہم انھوں نےاپنے فن پاروں کو کبھی فروخت کیلئے پیش نہیں کیا، یہاں تک کہ انھیںکئی غیرملکی شاہی خاندانوں اور ملکی وغیر ملکی صاحبِ ثروت افراد کی طرف سے بھاری مالی پیشکشیں بھی کی گئیں، تاہم اپنے فن پاروں کا انھوں نے کبھی سودا نہیں کیا۔ اس کے بجائے اس عظیم انسان اور عظیم فنکار نے مختلف اداروں اور افراد کو اپنے فن پارے تحفتاً دینے میں ہمیشہ سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ان کے فن پارے برائے فروخت نہیں ہیں،وہ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی نعمتوںکا شکرانہ ادا کرنے کیلئے کرتے ہیں۔