نہ سننا ہے نہ سمجھنا ہے

July 03, 2019

آزاد کشمیر کے معتبر ترین رہنما سردار عبدالقیوم خان (مرحوم) بہت زیرک اور نبض شناس سیاست دان تھے۔ وہ کافی معروضی اور بے لاگ سیاسی تجزیے کرنے والے تھے۔ تیس سال سے قائم واشنگٹن پالیسی انیلسز گروپ میں وزیراعظم عمران خان (دو مرتبہ) سمیت پاکستان کے تقریباً ہر بڑے سیاست دان نے اپنا تجزیہ پیش کیا ہے لیکن ان میں جو چند یاد رہ گئے ان میں سردار صاحب بھی شامل ہیں۔ ان سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اس وقت کے دو بڑے سیاسی حریفوں، محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف، کے بارے میں وہ کیا سمجھتے ہیں۔ وہ بے ساختہ فرمانے لگے ’’ایک سنتی نہیں ہیں اور دوسرے سمجھتے نہیں ہیں‘‘۔ لیکن اگر آج ان کی سیاسی تصویر کشی کے تناظر میں دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اب نہ کوئی سنتا ہے اور نہ ہی سمجھنے کے لئے تیار ہے۔

اس وقت پاکستان کی عالمی تنہائی اور اچھوت سمجھے جانے کو کوئی بھی سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے، اب بھی عام شہری سے لے کر اوپر تک سب کو کامل یقین ہے کہ پاکستان دنیا کی سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر سفر کرنے والوں کو علم ہے کہ دنیا کے تیسرے درجے کے ممالک میں بھی سبز پاسپورٹ کی جو بے توقیری ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات کا بہترین پہلو محض یہ ہے کہ نظام جمود زدہ ہے، کوئی بھی سیاسی طاقت صورت حال کو تبدیل کرنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ ہر قوم کی نشو و نما اور ارتقا میں معیشت اہم ترین کردار ادا کرتی ہے اور اس وقت پاکستان شدید ترین معاشی انحطاط کا شکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکمراں طاقتیں اس سلسلے میں نہ کچھ سن رہی ہیں اور نہ ہی سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔ کرپشن کے خاتمے سے پاکستان میں خوشحالی لانے کا بے بنیاد فارمولا قطعی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے، کرپشن کے نامزد منبعوں کو جیل میں ڈالنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے کے بجائے اور نیچے چلا گیا ہے۔ اس کا ثبوت پاکستان کے سالانہ سروے میں سامنے آچکا ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک ہر نوع کی سیاسی پارٹیوں اور حکمرانوں کے بارے میں تعصب کا شکار ہوتے ہیں لیکن حکومت کے اپنے فراہم کردہ اعداد و شمار بھی جو کچھ بتا رہے ہیں وہ بہت امید شکن ہیں۔ ہم نے ایک سابقہ کالم میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ حکومت کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ معیشت میں تین فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے حساب کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں 3فیصد بڑھنے کا ہندسہ انتہائی مشکوک ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ زرعی شعبے میں شرح نمو 0.85 فیصد رہی، بڑی فصلوں کی پیداوار 6.55 اور کاٹن جننگ منفی 12.74کی شرح سے سکڑ گئیں۔ صنعتی ترقی صرف 1.40کی شرح سے آگے بڑھی اور تھوک و پرچون میں محض 3.11بڑھوتی ہوئی۔ اب غور کیجئے کہ اگر پاکستان کو زرعی ملک تصور کیا جاتا ہے اور اس کی بڑی فصلوں کی پیداوار میں 6.5فیصد کمی آئی ہو تو کلی طور پر زرعی شعبے میں نام نہاد 0.85کا اضافہ گاجروں اور مولیوں کی پیداوار سے ہوا؟ بڑی فصلوں میں کپاس بھی ہے اور جننگ فیکٹریوں میں 12.74کی کمی بتاتی ہے کہ اس فصل کی پیداوار میں بہت کمی آئی۔ صنعتی شعبے اور خرید و فروخت میں بھی بہت معمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کی معیشت انہی مذکورہ شعبوں سے مرتب کردہ ہے اور کیا چند شعبوں میں مریضانہ اضافہ اتنا تھا کہ بڑی فصلوں اور اس سے متعلقہ شعبوں میں شدید کمی کو اس حد تک پورا کرتا کہ کلی طور پر 3فیصد سے زیادہ ترقی ریکارڈ کی گئی۔ اب آپ خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ معیشت میں اضافہ ہوا ہے یا اس میں سکڑاؤ آیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے شہسواروں اور پچھلی حکومتوں کے خلاف اعداد و شمار کی کھدائی کے ناموروں نے ان اعداد و شمار کی جمع تفریق کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے تعلیم یافتہ معیشت دان بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی تو عالمی اداروں نے ’مت‘ مار دی ہے اور دوسرے کسی نہ کسی طرح ہر حکومت سے کوئی نہ کوئی کنٹریکٹ لے کر اپنے آپ کو متمول طبقے میں رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ سننے اور نہ سمجھنے والوں میں حکومتی حلقے ہی نہیں بلکہ بھاری بھرکم دانشور اور معاشی ماہرین بھی شامل ہیں۔ ویسے کچھ معاشی ماہرین کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے ’’سوتے کو تو جگا لو گے، جاگتے کو کیسے جگاؤ گے‘‘ آج کل نہ سننے اور نہ سمجھنے والے بھی انٹرنیٹ کی سہولت سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ اپنی مصروفیت سے چند لمحے نکال کر دنیا میں تیز ترین معاشی ترقی کرنے والے ملکوں کی لسٹ کا ملاحظہ کریں، دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والے ملکوں میں ایتھوپیا 10فیصد سالانہ شرح نمو سے اول نمبر پر ہے۔ اس کا جنگ زدہ پڑوسی اریٹیریا بھی 8.7فیصد سالانہ شرح پر ترقی کر رہا ہے۔ برصغیر کے دیگر ممالک بھی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تو پاکستان ہی کیوں معاشی انحطاط کا شکار ہے؟ پاکستان کے عوام میں تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں جس کا وہ ماضی میں تیز تر ترقی دکھا کر ثبوت دے چکے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں تو ایک ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی اور نظریاتی ہے۔

اس سلسلے میں مختصر گزارش یہ ہے کہ تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں کرپشن ایک جیسی ہے لہٰذا اس نعرے کو چھوڑ کر دوسرے پہلوئوں پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کریں۔ دوسرا زرعی شعبے کی ترقی سے شرح نمو بڑھانے کا خیال چھوڑ دیں، اس وقت دنیا میں امریکہ اور یورپ سمیت کسی ملک میں بھی زرعی شعبہ خود کفیل نہیں ہے اور ہر جگہ سبسڈیوں پر کام چل رہا ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ پاکستان زرعی مصنوعات بنا کر ترقی کر سکتا ہے کیونکہ ایسا ہوتا تو امریکہ اور مغربی ممالک کے زرعی شعبے سبسڈیوں پر نہ چل رہے ہوتے۔ لیکن اس ساری بات کو سننے اور سمجھنے والوں کی موجودگی بنیادی شرط ہے جو اس وقت گوہر نایاب ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)