غفلت، توڑ پھوڑ اور قیمتی جانیں

July 09, 2019

جو لوگ بھی میڈیا و سوشل میڈیا روزانہ کی بنیاد پر چیک کرتے ہیں انہوں نے نورالحسن کا نام سنا ہوگا، یہ وہی ٹیکسی ڈرائیور ہے جس کا 330کلو وزن اس کی جان کے لیے شدید خطرہ بن گیا تھا۔ پہلے پہل اس نے علاج کی اپیل کی جس پر لاہور کے ایک اسپتال نے اس کے علاج کی ہامی بھری مگر صادق آباد سے لاہور آنا بھی ایک مسئلہ تھا اس پر اس نے دوبارہ ایک وڈیو بنائی جس میں اپیل کی کہ اسے صادق آباد سے کوئی لاہور لے جائے۔ 55سالہ نور الحسن کی فریاد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سنی اور اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور کے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا، آپریشن کامیاب رہا اور سو کلو کے قریب زائد چربی نکالی گئی، ڈاکٹرز کے مطابق نورالحسن صحت یابی کی طرف گامزن تھا لیکن کل صبح اچانک خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ وہ آپریشن کے دس دن بعد اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ کچھ خبروں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ان کی میڈیکل ٹیم فرار ہو گئی ہے لیکن آخرکار یہ خبر سننے کو ملی کہ کہ اسپتال میں ایک خاتون کے انتقال کر جانے پر اس کے لواحقین نے آئی سی یو میں بہت ہنگامہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس ہنگامے کے نتیجے میں ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکل گیا، مگر نور الحسن آئی سی یو میں طبی امداد کا انتظار کرتا رہا اور آخر کار انتقال کر گیا، ہلاک ہونے والوں میں ایک دوسرا مریض بھی شامل تھا۔یہ نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔

کچھ لوگ شاید ڈاکٹرز اور اسٹاف کو قصوروار ٹھہرائیں گے کہ انہوں نے مریضوں کو اکیلا کیوں چھوڑا جبکہ کچھ لوگ خاتون مریض کے لواحقین کو قصوروار ٹھہرائیں گے کہ انہوں نے ہنگامہ کیوں کیا؟ کچھ لوگ شاید سارا مدعا اس خاتون کے ڈاکٹر پر ڈال دیں گے جس کی وجہ سے خاتون ہلاک ہوئی جس پر اس کے لواحقین نے ہنگامہ کیا اور یہ سب کچھ دیکھنے کو ملا۔

اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے میں کون سے نئے ہیں؟ ہر دوسرے روز ہم میڈیا پہ اس طرح کے واقعات سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک خبر چلتی ہے اور پھر کوئی خبر نہیں آتی کہ ان ڈاکٹرز اور مریضوں کے ساتھ کیا ہوا۔ لیکن مریض اور ڈاکٹرز دونوں ہی اس طرح کے واقعات سے خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انسانی جسم کسی مشین کی مانند نہیں ہوتا، جس طرح شاید کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور نہ ہی میڈیکل سائنس کوئی اتنا سائنسی علم ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک بیماری کے لیے ایک ہی دوائی ہر کسی کے لیے کام کر سکتی ہے اور وہ اس بیماری سے ہر حال میں شفا پا جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں انسانی غفلت نہیں ہو سکتی لیکن یہ بات ضرور ہے کہ غفلت کا فیصلہ اتنی آسانی سے نہیں کیا جا سکتا جس قدر آسانی سے ہم یہ کرنے کے عادی ہیں۔

یہ فیصلہ ایکسپرٹس پہ چھوڑ دینا چاہئے اور اس کے لیے بہترین اہتمام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کر سکتی ہے جو کیس بائی کیس، واقعے کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دے جو ماہر ڈاکٹرز پر مشتمل ہو اور ڈاکٹرز یہ فیصلہ کریں کہ اصل میں ہوا کیا؟ اس کمیٹی میں کرپشن اور دیگر مسائل سے بچنے کے لئے ہر کیس کے لئے ڈاکٹرز مختلف ہونے چاہئیں اور ان کا مریض یا اسپتال سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔

اس کے ساتھ ساتھ جس طرح تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، غفلت کی انشورنس کا عمل بھی شروع ہونا چاہئے تاکہ اگر خدانخواستہ غفلت ہو بھی تو مریض کو یا اس کے لواحقین کو اس کا ہرجانہ ادا کیا جا سکے کیونکہ ڈاکٹرز کو اگر ان کی ہر غلطی پہ مارنا پیٹنا شروع کر دیا جائے تو جہاں پہلے ہی ڈاکٹرز کی کمی ہے، وہاں مزید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ جب تک کمیٹی کوئی فیصلہ نہ کرے کہ کیا ہوا تب تک اسپتال میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ یا تشدد کرنے پر سخت ایکشن ہونا چاہئے۔ میڈیا کو بھی دیکھنا چاہئے، جب تک کمیٹی کسی کو قصوروار نامزد نہ کرے، کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہئے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ اس طرح کے مسائل بھی بڑھیں گے اور اگر ہم نے ابھی سے ان کا حل نہ نکالا تو یہ ہمارے مروجہ نظام کے لیے بہت بڑا چیلنج بن جائیں گے اور اسپتالوں اور ڈاکٹروں سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا چلا جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998