’’مطالعہ قرآنِ حکیم‘‘ سے تقریباََ 20 لاکھ طلبہ مستفید ہورہے ہیں

July 21, 2019

عکاّسی: اسرائیل انصاری

’’طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں…تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں…جزدان حریر وریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے… پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوش بُو میں بسایا جاتا ہوں…جس طرح سے توتے مینا کو ، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں…اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں…جب قول وقسم لینے کے لیے، تکرار کی نوبت آتی ہے…پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں…دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں…کہنے کو مَیں اِک اِک جلسہ میں، پڑھ پڑھ کے سُنایا جاتا ہوں…نیکی پہ بَدی کا غلبہ ہے، سچّائی سے بڑھ کر دھوکا ہے…اِک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رُلا یا جاتا ہوں…یہ مُجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے…یوں بھی مُجھے رُسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں…کس بزم میں مُجھ کو بار نہیں، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں…پھر بھی مَیں اکیلا رہتا ہوں، مُجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں۔ ‘‘چارٹرڈ اکائونٹینسی کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر خود کو خدمتِ دین و خلق کے لیے وقف کرنے والے مبلّغ، شجاع الدّین شیخ کے ذہن میںشاید اُس وقت، سوز و گداز میں ڈوبی ماہر القادری کی ’’قرآن کی فریاد‘‘ نامی یہ نظم ہی گردش کر رہی تھی کہ جب ’’اسٹرٹیجک ویژن‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی ایک ورک شاپ میں اُنہیں اپنا آئیڈیا پیش کرنے کو کہا گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ آج سے ایک دہائی قبل کراچی کی کاروباری برادری سے وابستہ چند شخصیات نے خدمتِ انسانیت کے جذبے سے سرشارہو کراسکولز کے طلبہ کو قرآنی تعلیمات کی حقیقی رُوح سے روشناس کروانے، انہیں با کردار، باعمل مسلمان بنانے کا منصوبہ بنایا اور اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شہر کے مختلف اسکولز کے سروےکے ساتھ علمائے دِین سے ملاقات و مشاورت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس موقعے پر اُن کی ملاقات شجاع الدّین شیخ سے ہوئی ۔ اس ضمن میں جب اُن سے رائے طلب کی گئی، تو انہوں نے اپنا یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ’’ اس وقت پوری قوم ہی گو نا گوں مسائل سے دو چار ہے، اخلاقیات کا جنازہ نکل چُکا ہے۔ہر جگہ بد عنوانی، دروغ گوئی ،مکروفریب نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ زندگی کا ہر گوشہ، شعبہ زوال پزیر ہے ،حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کی ساکھ پر بھی انگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں، جس کا سبب کتاب اللہ کی حقیقی تعلیمات سے دُوری ہے۔ گرچہ اس وقت عصری تعلیم کو فروغ دینے کے لیے تو کاوشیں جاری ہیں اور یہ سلسلہ برقرار رہنا بھی چاہیے، لیکن ہمیں قوم کی اصلاح، کردار سازی کے لیے قرآنِ حکیم سے استفادہ کرنا چاہیے اور طلبہ کو قرآنِ پاک کی تعلیمات پر مبنی دَورِ حاضر کے اسلوب کے عین مطابق ایک جامع و مؤثر نصاب فراہم کرنا چاہیے۔‘‘

شجاع الدّین شیخ کے اس منصوبے کو سراہا گیا اور عملی جامہ پہنانے کے لیے 2009ء میں’’ علم فائونڈیشن ‘‘کا قیام عمل میں آیا ۔ اسی سال ٹرسٹ ایکٹ کے تحت اس کی رجسٹریشن بھی ہوئی۔ نیز، انہیں ادارے کا پروگرامز ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ فائونڈیشن کا بنیادی مقصد مستعد، قابل اور معاشرے کے لیے موزوں و کارآمد مسلمان پیدا کرنا ہے، جس کے حصول کی خاطر سرکاری سطح پر مُلک بھر کے اسکولز میں طلبہ کے لیے دینی و دُنیاوی امتزاج کے حامل ایک ایسے نصاب کی تیاری کو ہدف بنایا گیا کہ جس سے فیض یاب ہو کر طلبا و طالبات کی کردار سازی بھی ہو۔ علاوہ بریں، قرآن کو دل نشین انداز میں طلبہ تک پہنچانے کے لیے اساتذہ کی تربیت کا پہلو بھی پیشِ نظر رکھا گیا۔ فائونڈیشن کے قیام کے ایک برس بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآنی تعلیمات پر مبنی اپنی نوعیت کے منفرد، متعامل، متاثر کُن اور عصری تقاضوں کے حامل نصاب،’’ مطالعۂ قرآنِ حکیم برائے طلبا و طالبات‘‘ اور اُسے پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت کے لیے ٹیچرز گائیڈ یا رہنمائے اساتذہ سمیت دیگر پروگرامز کی تیاری کا آغاز ہوا اور اِس وقت سلیبس میں شامل درسی کُتب سے اندرونِ مُلک لاکھوں طلبہ کے علاوہ غیر مُلکی طلبہ بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ مذکورہ نصاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے تمام مسالک کے علماء کی تائید حاصل ہے اور اس کی دادو تحسین کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ علم فائونڈیشن کے پروگرامز ڈائریکٹر اور’’ مطالعۂ قرآنِ حکیم برائے طلبا و طالبات‘‘ کی تیاری جیسا شان دار کارنامہ انجام دینے والےممتاز مبلّغِ دِین سے ہونے والی تفصیلی گفتگو پیش کرنے سے قبل اُن کا مختصر تعارف حاضر ہے۔ شجاع الدّین شیخ کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے چارٹرڈ اکائونٹینسی کی معروف فرم، اے ایف فرگوسن سے 1997ء تا 2001ء آڈٹ کی تربیت حاصل کی، مگر آخری ماڈیولز سے قبل اُن کی قلبِ ماہیت ہوگئی اور انہوں نے خود کو دِین کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یوں تو شجاع الدّین شیخ نے نام وَر اسکالرز، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی اور مفتی نظام الدّین شامزئی سمیت دیگر علمائے کرام کے دُروسِ قرآن اور خطبات سے اکتسابِ فیض کیا۔ تاہم، سب سے زیادہ استفادہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی نگارشات و بیانات اور ڈاکٹر اسرار احمد کے دُروس وبیانات سے ہوا۔ اسی عرصے میں جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ماسٹرز کیا۔ مُلک کے ممتاز اداروں میں لیکچرز دینے کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی باقاعدگی سے درس دیتے ہیں، جب کہ لیکچرز کے لیے انہیں بیرونِ مُلک بھی مدعو کیا جاتاہے۔ شجاع الدّین شیخ ،علم فائونڈیشن سے، اس کے قیام کے پہلے روز سے پروگرامز ڈائریکٹر کے طور پر وابستہ ہیں، جس کی 8رُکنی ٹیم نے ان کی نگرانی میں نصاب تیار کیا۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ ’’آپ کو یہ منفرد نصاب تیار کرنےکا خیال کیسے آیا اور اس کام کے لیے تحریک کہاں سے ملی؟‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ عصری تعلیم اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے عظیم اسکالر سمیت دیگر جیّد علمائے کرام سے قرآن سیکھنے ، سمجھنے کی وجہ سے میرے ذہن کے دریچے کُھلے۔ پھر قرآنِ پاک کی اپنی بھی ایک تاثیر ہوتی ہے، جوخود سے قُرب رکھنے والوں کی زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتی ہے۔ دراصل، 2009ء میں ہمارے ادارے کے منتظمین نے ’’ اسٹرٹیجک وِیژن‘‘ کے نام سے ایک ورک شاپ منعقد کی تھی، جس میں شرکاء کوطلبہ کی کردار سازی کے لیے اپنے اپنے تصوّرات پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس موقعے پر میرے دل میں کم از کم 10لاکھ افراد تک قرآنِ پاک کی تعلیمات مؤثر انداز میں پہنچانے کا خیال آیا۔ جب مَیں نے اپنا یہ تصوّرپیش کیا، تو اسے سب نے سراہا اورپھر مُجھے اس کو عملی شکل دینے کی ذمّے داری سونپی گئی، جو میرے لیے اعزاز کا باعث تھی۔ دراصل، چارٹرڈ اکائونٹینسی کی تعلیم کے دوران ہمارا نِت نئی مہارتوں اور فنون سے واسطہ پڑتا تھا، لہٰذا جب مَیں نے نصاب کی تیاری پر کام شروع کیا، تو ذہن میں خیال آیا کہ جب دُنیا جہاں کے کاموں کے لیے کاری گری کے اعلیٰ نمونے استعمال ہو سکتے ہیں، تو ایک اعلیٰ ترین کام کے لیے انہیں بروئے کار کیوں نہیں لایا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ آج اللہ کے فضل و کرم سے کم و بیش 20لاکھ طلبہ ہماری درسی کُتب سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ہم نے 2010ء میں قرآنِ پاک کی تعلیمات سے مزیّن ایک ایسے نصاب کی تیاری پر کام شروع کیا کہ جس پر تمام مسالک کا اتفاق ہو اور اسے قومی سطح پر رائج بھی کیا جا سکے۔ گرچہ قرآنِ پاک کے تراجم و تفاسیر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہمارے پاس سرمائے کی شکل میں موجود ہے، لیکن ہمارا مطمحِ نظر اسکول کے طلبا و طالبات کی ذہنی سطح اور دیگر مضامین ہی کے اسلوب کے مطابق قرآنِ پاک کا آسان ترجمہ و تشریح پیش کرنا تھا، جس میں طلبہ دِل چسپی لیں۔ نصاب کی تیاری کے دوران ہم نے اس بات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا کہ یہ طلبہ کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہو اور اسےپڑھانے والے اساتذہ کے لیے باقاعدہ تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جائے، تاکہ وہ بچّوں کو دیگر مضامین ہی کی نہج پر قرآنی تعلیمات فراہم کر سکیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ ’’مطالعۂ قرآنِ حکیم کی جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اسکول کے طلبہ کی ذہنی سطح کے اعتبار سے پورے قرآنِ پاک کے آسان ترجمے و تشریح، ٹیچرز ٹریننگ، اخلاقی دُروس، ذہنی مشقوں، امتحانات، مقابلۂ معلوماتِ قرآن اور ویڈیوز پر مشتمل ایک مکمل پیکیج ہے۔ میری معلومات کے مطابق، ماضی میں مختلف مسالک کے علماء کو ہم خیال بنا کر مولانا فتح محمد جالندھری کے ترجمۂ قرآن پر اتفاق کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن پرصرف اُن کا ترجمۂ قرآن ہی نشر کیا جاتا ہے، لیکن تعلیمی اداروں کے لیے باقاعدہ نصاب کی تیاری کی کوئی کاوش ہمارے علم میں نہیں ۔ اسی طرح محترم پروفیسر اسحٰق منصوری نے ہر رکوع کے بعد چند سوالات لکھ کر قرآن فہمی کو مؤثر انداز میں پیش کیا تھا۔ اس ضمن میں اگر دُنیا پر نظر دوڑائی جائے، تو شکاگو، امریکا میں واقع، اقرأ فائونڈیشن سے وابستہ ڈاکٹر عبداللہ غازی اور اُن کی اہلیہ نے برطانیہ کے معروف اسلامی اسکالرز، محمد مرمدوک پِکتھل اور عبداللہ یوسف علی کے قرآنِ پاک کے انگریزی تراجم کی مدد سے مطالعۂ قرآن کا نصاب تیار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ سلسلہ پانچ پاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کے علاوہ ملائیشیا میں قائم، ’’معیذ‘‘ نامی ادارے نے صرف 30ویں پارے کو نصاب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ نیز، سعودی عرب میں بچّوں کے لیے قرآنِ پاک کی ایک تفسیر،’’ تفسیر للاطفال‘‘ کے نام سے شایع کی گئی تھی، لیکن اس میں بھی تشنگی محسوس ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے نصاب کا حصّہ اوّل انگریزی زبان میں شایع ہوا، تو دُنیا بھر سے اس کا تقاضا کیا جانے لگا۔‘‘علم فائونڈیشن کی دیگر خدمات کے بارے میں بتاتے ہوئے شجاع الدّین کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے تین شعبہ جات ہیں۔ قرآن پروگرام فار اسکولز نامی شعبے کے تحت ہم مطالعۂ قرآنِ حکیم شایع کر رہے ہیں۔ دوسرے شعبے کو تلاوت پروگرام فار اسکولز کا نام دیا گیا ہے۔ یہ شعبہ تجوید کے حوالے سے اساتذہ کو تربیت فراہم کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دیدہ زیب نورانی قاعدہ تیار کیا گیا ہے اور وفاقی وزارتِ تعلیم نے ناظرہ قرآن پڑھانے کے لیے اس نورانی قاعدے سے استفادے کی منظوری دی ہے۔ نورانی قاعدہ پڑھانے والے اساتذہ کو تین ماہ پر مشتمل کورس کروایا جا رہا ہے، جن میں بیش تر خواتین ہیں، کیوں کہ پرائمری اسکولز میں اکثریت خواتین اساتذہ ہی کی ہوتی ہے۔ تیسرے شعبے کا نام سی ای ای (سینٹر فار ایجوکیشن ایکسی لینس) ہے۔ یہ شعبہ تمام مضامین کے اساتذہ کی تربیت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس وقت قرآن پروگرام فار اسکولز مُلک بھر میں اور تلاوت پروگرام فار اسکولز کراچی کے علاوہ بہاول پور کے بعض اسکولز میں جاری ہے ، جب کہ سی ای ای تربیتِ اساتذہ سے فی الوقت زیادہ تر کراچی کی خواتین اساتذہ ہی استفادہ کر رہی ہیں۔‘‘

منفر دنصاب کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالتی ہوئےشجاع الدّین شیخ نے بتایا کہ ’’ ہماری درسی کُتب کی طلب سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سمیت پوری دُنیا میں ایسے منفرد کام کی ضرورت کس شدّت سے محسوس کی جا رہی تھی اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ کام انجام دینے کی سعادت ہمیں میسّرآئی۔تاہم، سرکاری سطح پر کردار سازی کے لیے ایک بھرپور و جامع نصاب کی تیاری اور موجودہ تعلیمی ماحول میں اسے مؤثر انداز میں پیش کرنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا اور اس سے بھی بڑا چیلنج یہ تھا کہ پاکستان میں مختلف مسالک کے پیروکار موجود ہیں۔ جب دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم مختلف اداروں میں لیکچرز دینے کے لیے جاتے اور وہاں قرآنِ پاک کے مطالعے کی تلقین کرتے، تو اُن سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا کہ ’’ہم کس عالمِ دین کا ترجمہ و تفسیر پڑھیں، کیوں کہ یہاں ہر مکتبِ فکر کے علماء کے اپنے اپنے تراجم و تفاسیر دست یاب ہیں، جن کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ان تمام چیلنجز سے نمٹتے ہوئے ایک ایسا نصاب تیار کرنے میں کام یاب ہو گئے کہ جس پر نہ صرف تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے نظرِ ثانی کی، بلکہ اس سے اتفاق بھی کیا اور ہمیں تعریفی خطوط بھی ارسال کیے۔ بعدازاں، جب صدارتی آرڈیننس مجریہ 2017ء کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور چھٹی سے بارہویں جماعت تک ترجمۂ قرآن کو لازمی قرار دیا گیا ،توہم نے اُس وقت کے وفاقی وزیرِ تعلیم، محمد بلیغ الرحمٰن اور تمام صوبوں کے محکمۂ تعلیم کو اپنی درسی کُتب ارسال کیں۔ سابق وفاقی وزیرِ تعلیم نے اس نصاب پر نظرِ ثانی کے لیے اتحادِ تنظیماتِ مدارس دینیہ کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں اپنی فائونڈیشن کی جانب سے مَیں نمایندگی کرتا ہوں۔ مذکورہ کمیٹی میں پانچوں مکاتبِ فکر(وفاق المدارس العربیہ،تنظیم المدارس اہلِ سُنّت،وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعہ اور رابطۃ المدارس الاسلامیہ) کے علماء، ڈاکٹر منظور احمد مینگل، علاّمہ سیّد ارشد سعید کاظمی، مولانا نجیب اللہ طارق،شیخ شفا نجفی اورڈاکٹر عطاء الرحمٰن شامل ہیں۔ یہ حضرات 5درسی کُتب کا جائزہ لے چُکے ہیں اور چھٹی پر نظرِ ثانی جاری ہے۔ مُجھے قوی امید ہے کہ تمام علماء اس پر بھی متّفق ہو جائیں گے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس نے ہماری اس کاوش کو سراہا ہے۔ نیز، اسلامی نظریاتی کائونسل سے بھی ہمیں ایک تعریفی خط موصول ہو چُکا ہے۔ لہٰذا، اب یہ مسئلہ نہیں رہا کہ یہ کس مکتبِ فکر کا ترجمہ و تفسیر ہے اور اسے سرکاری سطح پر پورے مُلک میں پڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘

نصاب کی تیاری میں معاونت کرنے والے افراد اور اداروں کے بارے میں شجاع الدّین شیخ نے بتایا کہ ’’ابتدا مَیں ہماری ٹیم 3افراد پر مشتمل تھی، جو اس وقت 8ارکان پر مبنی ہے۔ ہم نے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے 70سے زاید علمائے کرام کے تراجم و تفاسیر اور چند غیر مُلکی کُتب کی مدد سے یہ سلیبس تیار کیا ، جن میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، مفتی محمد شفیع عثمانی، مولانا ادریس کاندھلوی، مفتی محمد تقی عثمانی، پیر کرم شاہ الازہری، امام احمد رضا خان، مولانا عبدالرحمٰن گیلانی، عبدالسّلام بھٹوی، شیخ محسن علی نجفی اور فتح محمد جالندھری سمیت دیگر علمائے کرام کے تراجم و تفاسیر شامل ہیں۔ البتہ نصاب کو دَورِ جدید کےتقاضوں کے عین مطابق دل چسپ و دل نشین انداز میں مرتّب کرنے کے لیے تحقیق اور اس کی اشاعت کی سعادت الحمدللہ ہمارے حصّے میں آئی۔ تیاری کے دوران ہم اپنی درسی کُتب کو دارالعلوم کورنگی کے علماء کے سامنے جائزے کے لیے پیش کرتے رہے۔پھر چُوں کہ 70سے زاید تراجم و تفاسیر کا مطالعہ ایک دِقّت طلب کام تھا، لہٰذا ہم نے اپنی سہولت کے لیےلاہور کے ایک ادارے کی جانب سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر اور ایپ،’’ ایزی قرآن و حدیث‘‘ سے مدد حاصل کی۔ ابتدا میںیہ ڈی وی ڈیز میں دست یاب تھا ۔ ادارہ ہمیں ہر نئے وَرژن کی ڈی وی ڈی ارسال کرتا ۔ اس ادارے نے جامعہ اشرفیہ، لاہور کے علماء کی مدد سے 70سے زاید تراجم و تفاسیر یونی کوڈ میں ٹائپ کروا کر سافٹ ویئر ڈیولپ کیا، جس کی وجہ سے سرچنگ آسان ہو گئی۔مذکورہ سافٹ ویئر کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر مَیں ایک ہی وقت میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 85کے 70تراجم و تفاسیر دیکھنا چا ہوں، تو دیکھ سکتا ہوں۔ اسی طرح اگر مَیں چاہتا ہوں کہ فلاں مکتبِ فکر کے تمام تراجم و تفاسیر ایک جگہ جمع ہو جائیں، تو اس سافٹ ویئر کی مدد سے یہ بھی ممکن ہے۔ ‘‘ مطالعۂ قرآنِ حکیم برائے طلبا و طالبات کی تشکیل وبناوٹ ، اسلوب اور طباعت سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میںاُن کا کہنا تھا کہ ’’ویسے تو8برس کی عُمر سے لے کر 80برس تک کا فرد بھی طالبِ علم ہوتا ہے، البتہ ہم نے اس نصاب کو موجودہ تعلیمی ماحول کے اعتبار سے تیار کیا ہے۔ قرآنِ پاک کے 70سے زاید تراجم و تفاسیر کے مطالعے کا مقصد انہیں سہل انداز میں پیش کرنا تھا، تا کہ طلبہ بہ آسانی سمجھ سکیں۔ اسکولز میں عموماً طلبہ کو سب سے پہلے کسی بھی باب کی آئوٹ لائن یا خاکہ بتایا جاتا ہے، پھر اس کی تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد اختتامیہ پیش کیاجاتا ہے۔ ہم نے اپنے نصاب کی تیاری میں بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا ہے۔ یعنی آیات، سورتوں سے قبل اُن کی آئوٹ لائن یا تعارف اور پھر ہر ایک آیت کو وضاحتاً پیش کیا گیا ہے۔ ہم ہر درسی کتاب کے ساتھ ایک ٹیچرز گائیڈ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مطالعۂ قرآنِ حکیم برائے طلبا و طالبات مجموعی طور پر سات حصّوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک حصّے کی الگ ٹیچر گائیڈ بھی ہوگی۔ نصاب میں شامل تمام درسی کُتب سیر حاصل مواد پر مشتمل ہیں۔ ان میں صرف قرآنی آیات کا ترجمہ ہی پیش نہیں کیا گیا، بلکہ ہر باب کو ایک باقاعدہ عنوان دیا گیا ہے اور ہر سورت کی آئوٹ لائن موجود ہے۔ نیز،ہر باب کے اختتام پر اخلاقی اسباق اور متنوّع مشقیں شامل کی گئی ہیں۔ یعنی یہ درسی کُتب بین الاقوامی معیار کے نصاب کے عین مطابق تیار کی گئی ہیں۔ سلیبس میں کیمبرج سسٹم کے معیارکی مشقیں شامل ہیں، جن کی مدد سے بچّے جلدی سیکھتے ہیں۔ اسی طرح ہر باب میں مختلف سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں۔درسی کُتب میں کلاس رُوم کے لیے الگ اور گھر کے لیے الگ ایکٹویٹیز دی گئی ہیں۔ یعنی ہم نے قرآنِ پاک کے ترجمے و تفسیر کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ دیگر نصابی کُتب کی طرح طلبہ مطالعۂ قرآنِ حکیم میں نہ صرف دِل چسپی لیں، بلکہ اسے پڑھنے پر بھی مجبور ہو جائیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اسلامیات کی درسی کُتب زیادہ پُرکشش ، دِیدہ زیب نہیں ہوتیں، پرنٹنگ کا معیار بھی ہلکا ہوتا ہے اور کاغذ بھی ہلکی کوالٹی کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنے نصاب کی تیاری کے لیے درآمد شُدہ کاغذ استعمال کیا ہے اور مواد کے ساتھ اس کی طباعت بھی بہت عُمدہ ہے۔یو ں کہیے، ہم نے کسی بھی مرحلے پر معیار پہ کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔‘‘

طلبہ، نصاب میں شامل مشقوں پر مبنی اپنا آرٹ ورک دکھاتے ہوئے

نصاب کی درجہ بندی سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں شجاع الدّین شیخ نے کہا کہ’’ اب تک مطالعۂ قرآنِ حکیم کے 6حصّے شایع ہو چُکے ہیں ۔ ان کی تدریس جاری ہے، جب کہ ساتواں اور آخری حصّہ بھی اگست کے آخر میں منظرِ عام پر آ جائے گا۔ بڑی سوچ بچار اور غور و خوض کے بعد ہم نے اپنے نصاب کی درجہ بندی قرآنِ پاک کی معروف ترتیب کی بنیاد پر نہیں کی، بلکہ اس ضمن میں آسان سے مشکل کی سوچ اپنائی گئی ہے۔ ہم نے قرآنِ پاک میں بیان کیے گئے پیغمبروں کے واقعات اور چھوٹی مکّی سورتیں، جو عموماً بچّوں کو زبانی یاد ہوتی ہیں، ابتدائی حصّوں میں شامل کی ہیں، تاکہ طلبہ ان میں دل چسپی لیں۔ اس کے بعد کے حصّوں میں نسبتاً طویل مکّی سورتیں شامل ہیں ۔ نیز، ابتدائی 5حصّے مکّی سورتوں پر مبنی ہیں، جب کہ چھٹا اور ساتواں حصّہ مدنی سورتوں پر،جن میں اکثر احکامات کا بیان ہے۔ آخری دو حصّے نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ کو پڑھائے جاتے ہیں، جن کے شعور کی سطح نسبتاً بلند ہوتی ہے۔ پھر ہم نے تمام کُتب کو درجات کی بہ جائے حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی نصاب پر جماعت اوّل، جماعت دوم وغیرہ کی جگہ حصّہ اول، حصّہ دوم وغیرہ درج ہے۔ چُوں کہ مُلک کے دُور دراز علاقوں میں واقع اسکولز کے اساتذہ کا خیال ہے کہ وہاں کے طلبہ کی اردو کم زور ہوتی ہے، تو ہم نے اس مسئلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ وہ یہ درسی کُتب چوتھی یا پانچویں کلاس سے پڑھانا شروع کریں گے، نصاب کو درجات کی بہ جائے حصّوں میں تقسیم کیا۔ البتہ ہماری خواہش اور تجویز ، جس پر اکثر نجی اسکولز میں عمل درآمد بھی ہو رہا ہے، یہ ہوتی ہے کہ تیسری کلاس سے ہمارا نصاب پڑھانا شروع کر دیا جائے ، تاکہ یہ نویں جماعت میں مکمل ہو جائے۔ نویں جماعت میں نصاب کی تکمیل میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ پنجاب میں نویں اور دسویں دونوں جماعتوں میں اسلامیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے، جب کہ سندھ میں صرف دسویں جماعت میں اسلامیات پڑھائی جارہی ہے، جس میں اس وقت تین مدنی سورتیں، سورۂ انفال، سورۂ احزاب اور سورہ ممتحنہ شامل ہیں۔ لہٰذا، جب طلبہ ہمارے نصاب میں یہ سورتیں پڑھیں گے، تو انہیں بورڈ کے امتحانات میں بھی آسانی ہو گی اور اسلامیات کے پرچے میں اُن کے مارکس بھی اچھے آئیں گے۔ اس وقت نجی اسکولز میں تقریباً 6لاکھ طلبہ کو ہمارا سلیبس اِسی ترتیب سے پڑھایا جا رہا ہے۔ البتہ اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں اور بہاول پور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے احکامات کے تحت نصاب کوسرکاری اسکولز میں چھٹی جماعت سے شروع کیا گیا ہے،تو اس اعتبارسےیہ بارہویں جماعت میں مکمل ہو گا۔‘‘ جب اُن سے یہ استفسار کیا گیا کہ ’’کیا مطالعۂ قرآنِ حکیم کو لازمی نصاب قرار دیا گیا ہے‘‘، تو انہوں نے جواب دیا کہ’’2017ء میں جاری ہونے والے ایک سرکاری حُکم نامے میں اسے شامل کیا گیا ۔ نیز، وفاقی حکومت اور خیبر پختون خوا حکومت نے اس کی منظوری دے دی ہے ، جب کہ یہاں موجود سرکاری اسکولز میں ہماری درسی کُتب بھی پہنچ چُکی ہیں۔ آج سے تین برس قبل، علم فائونڈیشن نے ایک برس تک کے پی کے میں اپنی درسی کُتب بِلا معاوضہ فراہم کیں، جن کی تعداد لاکھوں میں تھی ، جب کہ اس وقت صوبائی حکومت خود یہ نصاب شایع کر رہی ہے۔ ہم نے اس شرط پر کے پی کے حکومت کو نصاب شایع کرنے کی اجازت دی ہے کہ اس کے متن میں کوئی ردّ و بدل نہیں کیا جائے گا اور ہماری ٹیم کے ارکان درسی کُتب کی اشاعت سے قبل ان کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اسلام آباد اور بہاول پور ڈسٹرکٹ کے بعض سرکاری اساتذہ کو ٹیچنگ ٹریننگ بھی فراہم کی ہے۔ البتہ بورڈ کے امتحانات میں مطالعۂ قرآنِ حکیم کے پرچے کو ابھی لازمی قرار نہیں دیا گیا ۔

مختلف اسکولز کی انتظامیہ اپنے طور پر اس کا امتحان لیتی ہے۔ تاہم، ہماری معلومات کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت بہت جلد آٹھویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں مطالعۂ قرآنِ حکیم کا پرچہ لازمی قرار دینے والی ہے۔‘‘ اسکول کی سطح پر نصاب کی تدریس کے حوالے سے پروگرامز ڈائریکٹر نے بتایا کہ ’’ہم نے ساتوں حصّوں کی تکمیل کے بعد تعلیمی اداروں میں اپنا نصاب رائج کرنے کی بہ جائے پہلے حصّے کی اشاعت کے بعد ہی اسے مختلف اسکولز میں متعارف کروانا شروع کر دیا تھا اور اللہ کے فضل و کرم سے 2010ء میں پہلا حصّہ شایع ہوتے ہی کراچی کے لگ بھگ 25اسکولز میں اس کی تدریس شروع ہو گئی، جن میں 2,200طلبہ زیرِ تعلیم تھے۔ اس وجہ سے نہ صرف مختلف تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور طلبہ ہمارے نصاب سے واقف ہو گئے، بلکہ ہمیں مختلف علماء کی آراء و تجاویز بھی ملنا شروع ہو گئیں ۔ پھر تعمیری تنقید ہوئی، جس کی وجہ سے مزید بہتری و اصلاح کی گنجایش پیدا ہوئی۔ مثال کے طور پر ہم نے پہلے حصّے میں چند مقامات پر جان داروں کی تصاویر استعمال کیں، جن پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ’’ اگر یہ تصویریں استعمال نہ کریں، تو بہتر ہے‘‘، لہٰذا ہم نے انہیں ہٹا دیا۔ علاوہ ازیں، مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ’’ نصاب میں اصلاح کی گنجایش تو رہے گی اوراس پر توجّہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘مزید برآں، دیگر علمائے دِین کے تبصرے بھی ہماری ویب سائٹ(https://tif.edu.pk) پر موجود ہیں۔2013-14ء میں ’’دی سٹیزن فائونڈیشن‘‘ نے اس نصاب کی منظوری دی۔ اس وقت مُلک بھر میں مذکورہ فائونڈیشن کے 1,500سے زاید اسکولز قائم ہیں، جہاں ایک لاکھ سے زاید طلبہ کو ہماری درسی کُتب پڑھائی جا رہی ہیں اور ان درس گاہوں میں بھی ہم نے یہ نصاب خود فراہم کیا۔ واضح رہے کہ کسی بھی اسکول کی انتظامیہ ہم سے رابطہ کر کے درسی کُتب منگوا سکتی ہے۔ اس وقت مُلک بھر کے کم از کم 10ہزار اسکولز میں مطالعۂ قرآنِ حکیم کی تعلیم دی جا رہی ہے، جن میں 5ہزار سے زاید خیبر پختون خوا کے سرکاری اسکولز ہیں۔ اسی طرح بہاول پور کے 1,700گورنمنٹ اسکولز میں ہمارا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے تقریباً 300سرکاری اسکولز میں بھی ہماری درسی کُتب سے استفادہ ہو رہا ہے۔ نیز، پاکستان ایئر فورس، پاکستان نیوی، بحریہ فائونڈیشن، تعمیرِ ملّت فائونڈیشن، پروفیشنل ایجوکیشن نیٹ ورک اور دارِ ارقم کی چند شاخوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بھی مطالعۂ قرآنِ حکیم نصاب کا حصّہ بن چُکا ہے۔ علاوہ ازیں، امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک میں موجود افراد نے بھی مطالعۂ قرآنِ حکیم کا انگریز ی ترجمہ منگوایا ہے، جسے وہاں مسلم اسکولز، کمیونٹی سینٹرز اور گھروں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح شام میں پاکستانی سفارت خانے کے تحت ایک اسکول قائم ہے، جہاں 20مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 700طلبہ زیرِ تعلیم ہیں ، ان سب کو انگریزی میں ہمارا ہی سلیبس پڑھایا جا رہا ہے۔‘‘

اساتذہ کی تربیت کے لیے منعقد کیے گئے ایک ٹریننگ سیشن کا منظر

اساتذہ کی تربیت سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’ٹیچرز ٹریننگ کے ایک سے زاید طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تربیتی کلاسز کے انعقاد سے پہلے ہم کراچی، پشاور یا اسلام آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں ٹریننگ سیشن کا اعلان کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دل چسپی رکھنے والے اسکولز کے اساتذہ ایک مقرّرہ مقام پر جمع ہو جاتے ہیں، جہاں چار سے پانچ گھنٹے پر مشتمل تربیتی نشست ہوتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دی سٹیزن فائونڈیشن جیسے بڑے اسکول نیٹ ورکس کے چند ماسٹر ٹرینرز کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے اساتذہ کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ چُوں کہ پاکستان ایئر فورس کے اسکولز میں بھی ہمارا نصاب پڑھایا جا رہا ہے، لہٰذا ہم نے اُن کی ٹیم کو کراچی کی فیصل بیس پر تربیت فراہم کی اور اُن ماسٹر ٹرینرز نے اپنے نیٹ ورک سے وابستہ اساتذہ کو سکھایا۔ تیسرا طریقۂ کار سرکاری اسکولز کے لیے اپنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع بہا ول پور کے 1,700 اسکولز کے اساتذہ میں سے 16ماسٹر ٹرینرز منتخب کیے گئے، جنہیں ہم نے وہیں تین روز تک تربیت فراہم کی اور اب وہ اپنے اپنے علاقوں میں دیگر اساتذہ کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔ نیز، اگر کوئی انفرادی طور پر سیکھنا چا ہے، تو ہم اُسے آن لائن تربیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 6ہزار سے زاید اساتذہ مطالعۂ قرآنِ حکیم کی تدریس کی تربیت حاصل کر چُکے ہیں۔ ٹیچرز ٹریننگ کے دوران انہیں بچّوں کو ملٹی میڈیا کے ذریعے تدریس کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے ۔ نیز، کتاب میں مختلف ویڈیو لنکس بھی دیے گئے ہیں۔‘‘ نصاب کی پزیرائی سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’’جب مطالعۂ قرآنِ حکیم کا پہلا حصّہ شایع ہوا، تو مُلک کے ممتاز علمائے کرام کا خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ اُن کا کام تھا،جس کی سعادت اللہ کے فضل سے ہمیں میسّر آئی۔ کئی اسکول مالکان نے یہ کہا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے ایک ایسے ہی سلیبس کی تلاش میں تھے۔کراچی کے ایک معروف مدرسے کے شیخ الحدیث نے اپنے مدرسے کے فارغ التّحصیل 150علماء کو ہمارا نصاب اپنے اپنے علاقوں میں طلبہ کو پڑھانے کے لیے فراہم کیا۔ اسی طرح مُلک کے مختلف حصّوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے نمازیوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دینے کے لیے ہم سے مطالعۂ قرآنِ حکیم کا تقاضا کیا ۔

نیز، بعض مدارس نے ہماری درسی کُتب پڑھانے کے لیے باقاعدہ وقت مختص کر دیا ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالمِ دین نے نصاب کے ساتوں حصّے مکمل ہونے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مطالعۂ قرآنِ حکیم کی کُتب لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جنہیں وہ تقسیم کریں گے۔‘‘ اپنے مستقبل کے منصوبوں سے متعلق پروگرامز ڈائریکٹرنے بتایا کہ ’’نصاب کی تکمیل کے بعد ہم تمام درسی کُتب کی ویڈیو ریکارڈنگ کریں گے اور انہیں ماڈیولز کی شکل دے کر اُن کے آن لائن کورسز آفر کیے جائیں گے۔ ایک ویڈیوکم و بیش 25منٹ دورانیے پر مشتمل ہو گی، جسے دیکھنے کے بعد طلبہ کے سامنے ایک سوال نامہ پیش کیا جائے گا، جس کے جوابات وہ آن لائن ہی دیں گے ، جب کہ پورا ماڈیول مکمل ہونے کے بعد انہیں آن لائن سرٹیفکیٹس بھی جاری کیے جائیں گے۔ نیز، ان آن لائن کورسز تک پوری دُنیا کی رسائی ہو گی۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ ’’انفرادی طور پر علم فائونڈیشن یا نصاب تک رسائی کیسے ممکن ہے‘‘ ،اُن کا کہنا تھا کہ ’’فائونڈیشن کی ویب سائٹ پر ہمارا پتا موجود ہے اور وہیں سے تمام درسی کُتب، ٹیچرز گائیڈ اور ویڈیوز بھی ڈائون لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ مَیں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے بعد سب سے زیادہ ہمارا نصاب امریکا اور بھارت میں ڈائون لوڈ کیا جا رہا ہے اور ویب سائٹ پر اس حوالے سے اعداد و شمار بھی دست یاب ہیں۔ نیز، دفتری اوقات میں فون پر بھی ہم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہم افراد کی بہ جائے اداروں کو اپنی درسی کُتب فراہم کرتے ہیں ، کیوں کہ یوں ہمیں ریکارڈ برقرار رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ البتہ اگر کوئی فرد اپنے بچّوں کو مطالعۂ قرآنِ حکیم پڑھانے کی شدید خواہش رکھتا ہے، تو ہم اُسے نصاب تحفتاً پیش کرتے ہیں۔ ہم اس نصاب کا انگریزی اور سندھی ترجمہ بھی کر رہے ہیں اوراب تک ایک حصّہ انگریزی اور دو حصّے سندھی زبان میں ترجمہ ہو چُکے ہیں، جب کہ مستقبل میں ہم چینی اور ملائیشین زبانوں کے علاوہ دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔‘‘ فائونڈیشن کی مطبوعات کی تعداد کے حوالے سے شجاع الدّین شیخ کا کہنا تھا کہ’’ اب تک مطالعۂ قرآنِ حکیم برائے طلبا و طالبات کے6حصّے (اردو زبان میں)، ٹیچرز گائیڈ کے 5حصّے، سندھی زبان میں 2درسی کُتب اور ایک حصّہ انگریزی زبان میں شایع ہو چُکا ہے۔

پھر تلاوت پروگرام کے لیے ایک نورانی قاعدہ بھی تیار کیاگیا ہے اور ناظرہ قرآن پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ناظرہ قرآنِ کریم کی تدریس کی تربیت کی تکمیل ہونے کے بعد ٹیچرز کو باقاعدہ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے اور اس تربیتی کورس کو سندھ ٹیکنیکل بورڈ آف ایجوکیشن کی منظوری حاصل ہے ۔ ہم نے ناظرہ قرآن کے مقابلے میں مطالعۂ قرآن کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ پاکستان میں ناظرہ قرآن پڑھانے والے اساتذہ کی کمی نہیں۔ اب تک مجموعی طور پر ہماری کم و بیش 30لاکھ کُتب شایع ہو چُکی ہیں۔ علاوہ ازیں، ہر حصّے میں قرآنِ پاک کا ایک تناسب بھی مقرّر کیا گیا ہے۔ اس وقت ہمارا تیار کردہ نصاب جن تعلیمی اداروں میں پڑھایا جا رہا ہے، ہمارے پاس اُن کی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں طلبہ کو درسی کُتب میں شامل مشقوں پر آرٹ ورک کرتے، تقاریر کرتے، دُروس دیتے اور قرآنی معلومات کے مقابلوں میں حصّہ لیتے دکھایا گیا ہے۔ ‘‘