وہ چندا کے ہنڈولے میں جا سویا

July 20, 2019

ابھی کل کی بات لگتی ہے، حمایت علی شاعر لندن آئے ہوئے تھے، ہم نے انہیں بی بی سی میں مدعو کیا اور ادبی پروگرام سب رس کے لئے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ مجھے پتا تھا کہ بہت سریلے تھے، میں نے اپنا کلام ترنم سے سنانے کی فرمائش کی، وہ جھٹ مان گئے۔ میں نے غزلیں سنیں، نظمیں پڑھوائیں، تین مصرعوں کی ان کی ایجاد ثلاثی کی مثالیں سنائیں اور آخر میں ان کی منظوم سوانح کے کچھ اقتباس سنے گئے۔ بہت لطف آیا، مجھ سے زیادہ شاعر کو۔ ریکارڈنگ کے بعد اسی سرمستی کے عالم میں حمایت علی شاعر نے، میں نے اور کچھ ہم مذاق دوستوں نے لندن کی سڑکوں کی سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ شام ڈھل رہی تھی، دفتر بند ہو رہے تھے اور لوگ دن بھر کا کام ختم کر کے گھروں کو جارہے تھے۔ ہم لوگ لطیفہ گوئی کے موڈ میں تھے چنانچہ قہقہے لگاتے جارہے تھے، راستے میں ایک بوڑھے انگریز نے کہا کہ کیا لطیفہ تھا، مجھے بھی سناؤ۔ ہم سب ایک بس اسٹاپ پر رکے جہاں بس کے انتظار میں لڑکیاں بھی کھڑی تھیں، میں نے ان سے کہا کہ ہمارے ساتھ یہ پاکستان کا فلم ساز ہے جو اپنی آنے والی فلم کے لئے سفید فام اداکارہ ڈھونڈنے لندن آیا ہے۔ لڑکیاں ذرا بھی مائل نہ ہوئیں اور ہم ہنستے ہی رہے، شاید بلا سبب۔ بالکل یوں لگا کہ ہم سب ہم عمر ہیں، حمایت علی تو ہمارے ہم سن محسوس ہوئے۔ آج جب ان کے انتقال کی خبر چھپی تو پتا چلا کہ وہ سنہ انیس سو چھبیس میں پیدا ہوئے تھے۔ یقین نہیں آیا۔ انگلیوں پر حساب لگانا چاہا تو انگلیں کم پڑ گئیں۔ پاکٹ کیلکو لیٹر پر جمع تفریق کی مشق کی تو پتا چلا کہ انہوں نے ترانوے سال کی عمر پائی۔ ابھی ایک روز انٹرنیٹ پر انہیں سال گرہ کا کیک کاٹتے دیکھا، اگلے روز خبر آئی کہ کینیڈا میں خاموشی سے چل بسے، سارے بال بچے ان کے گرد موجود تھے، اہلیہ پہلے ہی وفات پا چکی تھیں اور وہیں دفن تھیں۔ ان کی عمر کا حال پڑھ کر احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے انہوں نے ایک لمحے کو بھی محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ پہلی عالمی جنگ کے ذرا بعد پیدا ہوئے تھے۔

حمایت علی شاعر باکمال شاعر تھے، کبھی افسانہ نگار بھی تھے، ریڈیو سے بھی تعلق تھا، نثر بھی لکھی، صحافت بھی کی، کالم نگار بھی رہے، ٹیلی وژن کے لئے بھی بڑا کام کیا، تحقیق بھی کی اور پھر کمال یہ کیا کہ فلمی صنعت میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور کتنی ہی فلموں میں ایسے ایسے نغمے لکھے جو آج بھی تازگی کا لطف دیتے ہیں۔ پھر ایک قدم آگے بڑھے اور اپنی فلم لوری بنا ڈالی جس نے کامیابی کے ڈنکے بجائے اور یہ فہرست ان کے قومی اور ملّی نغموں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگی کہ ’جاگ اٹھا ہے سارا وطن، ساتھیو، مجاہدو‘ جیسا ترانہ کبھی قدیم نہیں ہوگا۔

مجھ سے جب بھی ملے، دوست کی طرح ملے۔ یاد نہیں ان سے پہلا تعارف کب ہوا تھا، محسوس تو جب بھی ہوا یہی ہوا کہ بڑی قدیم شناسائی ہے۔ ہندوستان کے تاریخی شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ کوئی پچیس سال کی عمر میں پاکستان منتقل ہوگئے اور پہلا پڑاؤ حیدرآباد، سندھ میں ڈالا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیم کے بعد کتنے ہی اہل کمال ترک وطن کر کے اسی شہر میں اترے تھے۔ انہوں نے وہیں تعلیم پائی، ڈاکٹریٹ کی اور وہیں سندھ یونی ورسٹی میں معلّم ہوئے۔ ہاں تو بات اورنگ آباد کی ہورہی تھی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میرا اورنگ آباد جانا ہوا۔ بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ہر ایک کو اس بات پر ناز تھا کہ حمایت علی شاعرکا تعلق اسی شہر سے تھا۔ شہر میں گھومنے نکلا تو احباب خاص طور پر اسی علاقے، اسی محلے اور اسی گلی میں لے گئے جہاں کبھی حمایت علی شاعر رہتے تھے۔ میں گیا تو حمایت علی ہی جیسے ان کے چھوٹے بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ لوگوں نے ان کے ناموں کے ساتھ بھی لفظ شاعر لگا دیا تھا، مثلاً مجاہد علی شاعر اور عنایت علی شاعر۔ میں نے پاکستان آکر ان کو یہ بات سنائی، کچھ زیادہ محظوظ نہیں ہوئے۔ (تازہ خبر یہ ہے کہ مجاہد علی بڑے ہو کر اردو ادب کے سرکردہ نقّاد اور اہل قلم نکلے ہیں)۔ بالکل اسی طرح بہار کے شہر سہسرام والے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والی زاہدہ حنا پر ناز کرتے ہیں کہ ان کے شہر نے اردو زبان کو ایسی مصنفہ عطا کی ہے۔

حمایت علی شاعر نے بڑی عمر پانے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سیاحت بھی یوں کی کہ انہیں جہاں گشت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دنیا میں کہیں بھی مشاعرہ ہو رہا ہو، وہ ضرور مدعو ہوا کرتے تھے۔ لوگ ان کی سخن سے او ر ساتھ ہی ان کے لحن سے بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کراچی کے مشاعروں میں ہوٹنگ کرنے والے لڑکے ذرا زیادہ ہی بے تکلف ہو گئے تھے اور کسی فلم کے لئے ان کے لکھے ہوئے ایک گانے کی فرمائش کیا کرتے تھے جس کے بول کسی لوک گیت کے تھے: کھٹّی کڑھی میں مکھی پڑی، ہائے میری امّاں۔ اور یہاں یہ بات ضرور بتادوں کہ ہمیں یہ لطیفہ کس نے سنایا تھا: خودحمایت علی نے کہ شاعر ان کا تخلّص ہی نہیں، ان کا کُل وجود تھا۔ وہ نہ ہوتے تو جدید اردو شاعر ی اپنی بہت سی خوبیوں سے محروم رہ جاتی۔

بہت جئے اور ابھی بہت جئیں گے۔