ہمارا بابا اوپر ...

July 26, 2019

کیا دوست کیا دشمن، سب کی نظریں ادھر ہی لگی تھیں، ان کا بابا عجیب ہے، پتا نہیں کب کیا کہہ دے اور کب کیا کر دے۔ ہمارا بابا بھی بڑا خوددار اور ضدی ہے، یہ بھی کَبّا اور وہ بھی کَبّا۔ خوف تھا کہ کہیں انائوں کا جھگڑا نہ ہو جائے، ڈر تھا کہ اس اہم ترین ملاقات میں کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ کَبّا پنجابی لفظ ہے، نئی شائع شدہ پلاک پنجابی ڈکشنری میں کَبّا کا مطلب غصیل، ضدی، اڑیل اور اڑبنگ لکھا ہے۔ دو کَبّے ملیں تو کچھ بھی ہو سکتا تھا مگر خیر رہی اور خوشخبری یہ ہے کہ دو کَبّوں کی لڑائی میں ہمارا بابا اوپر رہا۔ وہ شان سے بیٹھا، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے رکھی۔ اُن کا بابا کرسی کے کونے پر اٹکا رہا۔ ہمارا بابا اپنی پشت کرسی پر لگا کر براجمان رہا، نہ متاثر ہوا نہ رعب میں آیا۔ کالی شلوار قمیص، گھنے کالے بال اور کپتانی چپل کے سامنے ان کے بابے کی آزار بند جتنی لمبی ٹائی اور لال بالوں کا گھونسلا اسٹائل ٹھہر نہ سکا۔ مزا تو تب آیا جب ہمارا اسٹائلش بابا، اسٹائلش فرسٹ لیڈی کےساتھ کھڑا ہوا۔ ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ کہاں منمناتا، شرماتا، سیلفیاں بناتا مودی اور کہاں لمبا تڑنگا پُراعتماد کپتان۔ ہمارا بابا نفسیاتی جنگ تو جیت آیا۔

سابقہ فرسٹ لیڈی ہلیری کلنٹن نے درست ہی کہا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات ساس بہو والے ہیں، اکٹھے کام بھی کرتے ہیں، طعنے بھی چلتے ہیں، لڑائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، گلے، شکوے، ناراضیاں سب ان تعلقات کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے پر شک بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ سالہا سال سے اکٹھے کام بھی کرتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے کہا تھا: آقا نہیں، دوست بنیں(فرینڈز، ناٹ ماسٹرز)۔ اتنے سال گزر گئے ڈومور ڈومور ہوتا رہا، وہ شک کرتے رہے، ہمیں ان سے گلہ رہا۔ دوستی کے یہ 70سال اسی طرح نشیب و فراز کا شکار رہے۔ امریکہ افغانستان کا حل چاہتا ہے، وہ پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کو معاشی امداد اور عالمی سرپرستی کی ضرورت ہے جو امریکہ کے علاوہ کوئی اور دے نہیں سکتا۔ رولر کوسٹر یا پنجابی پینگ کی طرح کبھی یہ تعلقات ہوا سے باتیں کرتے ہیں تو کبھی زمین کو چھونے لگتے ہیں۔ ہمارا بابا کَبّا ہے، پینگ کو ہوا میں لے گیا ہے، اونچی اڑان کا مزا تو ہے دوررس فائدہ بھی لینا چاہئے۔اشفاق احمد کہتے تھے محبوب وہ ہے جس کی خامیاں بھی اچھی لگیں۔ مشرقی دنیا کی خوبی اور خامی یہی ہے کہ عشق، محبت اور دوستی میں خامیاں خوبیاں دونوں کو چاہنے لگتے ہیں۔ عمران خان کرشمہ ساز ہیں۔ کرکٹ کے ہیرو سے سیاست کے ستارہ بننے تک محبوب رہے۔ ان کے چاہنے والے ان کی ضد، بے نیازی اور انا پر مرتے اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔ نقاد ان کی باتوں کو ہدفِ تنقید بھی بناتے ہیں۔ مشرقی دنیا اور مغربی دنیا میں اب ایک بڑا فرق یہ پڑ گیا ہے کہ وہ اپنے نظام کو درست کر چکے ہیں، وہاں ریگن یا ٹرمپ جیسے حکمران ہوں یا صدر کلنٹن اور اوباما جیسے کرشمہ ساز، ملک کا نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے، اسے زیادہ فرق نہیں پڑتا جبکہ مشرقی دنیا میں آج بھی نظام کمزور اور شخصیات مضبوط ہیں۔ ہر نئے لیڈر کے آنے کے نظام پر اچھے اور برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کاش ہم بھی ایسے نظام کی طرف جائیں جہاں شخصیات پر انحصار کم اور نظام پر سو فیصد ہو جائے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بالکل ٹھیک کہا کہ خارجی محاذ پر ہم ایک ہیں، کھیل، جنگ اور معیشت کے میدانوں میں بھی ہمیں ایک ہونا چاہئے۔ سیاست کے میدان میں ملک کی بہتری کے لئے الگ الگ سوچ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ مغربی دنیا کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہاں معیشت، کھیل اور جنگ میں سب اکٹھے ہوتے ہیں، سیاست اپنی اپنی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بہت حد تک ایسا ہے البتہ معاشی میدان میں ایکا نہیں ہو سکا جس کے مضر اثرات ہم بھگت رہے ہیں۔ کاش! میثاق معیشت کی راہ اپنا کر معاشی خطرات کی راہ بند کر دیں۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں، دورۂ امریکہ ان کے ہائی پوائنٹس میں سے ایک ہے مگر معاشی بلا کا خطرہ منہ کھولے ان کا منتظر ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی بھی تحریک چلی تو وہ معاشی بحران کی وجہ سے چلے گی۔ اپوزیشن کی جولائی تحریک قبل از وقت ہے۔ معاشی حالات ستمبر میں زیادہ خراب ہوں گے، وہی خطرے کا مہینہ ہوگا۔ اسی میں تحریک کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اپوزیشن کی یہ توقع کہ وہ حکومت کو اس سال گرا لے گی، کامیاب ہونے کا امکان کم ہے۔ عمران حکومت کا اصل امتحان اگلے سال شروع ہو گا۔ اپوزیشن رہنما قید کاٹ کر ظالم سے مظلوم بننے کے راستے پر ہوں گے اور عمران حکومت کے لئے احتساب کے علاوہ عوام کی فلاح کے لئے کچھ کر گزرنے کا دبائو ہوگا۔ ٹیکس اور مہنگائی بڑھنے سے عوامی برداشت جواب دے جائے گی۔ دوسری طرف مقتدر قوتوں پر بھی معاشی دبائو کے اثرات پڑیں گے اور پھر سیاست میں نئے رنگوں کا اضافہ ہوگا۔

ریاست اور حکومت نے امریکہ کی طرف جو راستہ کھولا ہے یہ انہیں فائدہ دے سکتا ہے۔ تاریخی طور پر گزشتہ 70سالوں میں امریکہ نے ہی ہمیں ہمیشہ معاشی گرداب سے نکالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم امریکہ کو محفوظ افغانستان کی ضمانت دے سکیں گے؟ کیا ہم ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کو اپنی افغان پالیسی سے مطمئن کر سکیں گے؟ طالبان کو منانا ہوگا کہ افغانستان اب ہماری اسٹرٹیجک گہرائی نہیں بلکہ ایک آزاد ملک ہے جہاں کا نظم و نسق افغانوں نے ہی چلانا ہے۔

سیاست ایسے ہی چلے گی مگر کیا ہی بہتر ہو کہ خارجی اور معاشی معاملات کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں کوئی میثاق، معاہدہ یا انڈر اسٹینڈنگ ہو جائے۔ خان صاحب غصے اور سختی کے موڈ سے باہر نکل کر ڈیلیوری پر زور دیں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کریں۔ معیشت کو سدھارنے اور مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات کریں۔ سابق حکمرانوں کو جیلوں میں بند کروا کے آپ تالیاں بجوا چکے، اب لوگوں کیلئے آسانیاں بھی پیدا کر کے تالیاں بجوائیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صرف احتساب سے کام نہیں چلتا۔ جس ریاست کے عوام خوشحال نہ ہوں وہاں امن و آشتی نہیں آسکتی۔ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا معاشی فائدہ نہ ہوا تو کامیاب دورے کی بھی دھول اُڑ جائے گی۔