سنگاپور میں طلبا کو جانچنے والا امتحانی نظام ختم

August 04, 2019

سنگاپور کے طالب علموں کا شمار دنیا کے بہترین نتائج دینے والے بچوں میں ہوتا ہے۔ پہلے وہاں بھی رٹا لگا کر پڑھنا اور روزانہ کی بنیاد پر پڑھائی کو کئی گھنٹے اضافی دینا، کامیابی کی اہم وجوہات تصور کی جاتی تھیں۔ تاہم جدید دور کی ضروریات کو یہ جزیرہ ریاست اب سمجھ چکی ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ وہاں اب تعلیم حاصل کرنے کے پُرانے نظام کو بدلا جارہا ہے۔

سنگاپور میں پرائمری اسکول کے بچوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے معلومات حاصل کرنے کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلی کی گئی ہے، جس کے بعد وہاں مارکس اور گریڈز کی جگہ بحث و مباحثہ، ہوم ورک اور کوئز نے لے لی ہے۔ رواں سال کے آغاز کے ساتھ ہی پرائمری میں پہلی اور دوسری جماعت کے طلباء کے لیے امتحان کو ختم کردیا گیا ہے۔

پرائمری کے سینئر اور سیکنڈری کے طلباء کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے ماحول کو خوشگوار بنایا جارہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر سنگاپور کے تعلیمی نظام میں طلباءکے درمیان مقابلے کے رجحان کی حوصل شکنی کی جارہی ہے۔ تعلیمی کامیابی پر توجہ کم کرنے کے لیے، ہر مضمون میں حاصل شدہ مارکس کو ان کے قریبی 10کے ہندسے میں تبدیل اور مارکنگ میں اعشاریہ کے استعمال کو ترک کردیا گیا ہے۔

’’تعلیم کا حصول کوئی مقابلہ نہیں ہے‘‘، سنگاپور کی وزارت تعلیم کے وزیر Ong Ye Kung کہتے ہیں۔ سنگاپور کی وزارتِ تعلیم ، ایسے کئی اقدامات لاگو کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے، جن کے ذریعے طلباء کے تعلیمی نتائج میں مقابلہ کے رجحان کو ختم کرتے ہوئے، ان میں سیکھنے کی ذاتی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔

مقابلہ کے رجحان کو ختم کرنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اب سنگاپور میں پرائمری اور سیکنڈری کی رپورٹ بکس میںیہ نہیںبتایا جا ئے گا کہ بچے نے کلاس میں ٹاپ کیا ہے یا سب سے نیچے درجے پر آیا ہے۔ ساتھ ہی مجموعی مارکس کے ساتھ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ گریڈز بھی غائب کردیے جائیں گے۔ اس طرح سال کے اختتام پر اسکول رپوٹس میں نہ ہی فیل ہونے والے گریڈز یا ریکارڈز کو ہائی لائٹکیا جائے گا اور نہ ہی انفرادی مارکس شیٹ پر پاس یا فیل درج کیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل سنگاپور اپنے زیادہ تر پڑوسی اور OECD(آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) کےرُکن ملکوں کے تعلیمی نظام میں سرفہرست تھا۔ پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اَسیسمنٹ (PISA) رینکنگز ، او ای سی ڈی کے رکن ملکوں کا ایک پروگرام ہے، جس کے تحت ان ملکوں میں طلباء کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے۔

اوای سی ڈی PISAکی رینکنگ ہر تین سال بعد شائع کی جاتی ہیں، جس میں تنظیم کے رُکن ملکوں میں 15سال کی عمر کے طلباء کی تقابلی سائنس، روانی کے ساتھ پڑھنے اور ریاضی کی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے۔ ان تینوں مضامین کو Core Subjectsتصور کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام دو گھنٹے کے دورانیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

او ای سی ڈی PISAکے آخری نتائج 2016ء میں جاری کیے گئے تھے، جس میں 1,655کے اسکور کے ساتھ سنگاپور کے طلباء نے ٹاپ کیا تھا۔ 1,598کے اسکور کے ساتھ ہانگ کانگ دوسرے اور 1,586کے اسکور کے ساتھ جاپان تیسرے نمبر پر رہا تھا۔ برطانیہ 1,499اسکور کے ساتھ 22ویں نمبر پر رہا۔ 1,463کے اسکور کے ساتھ امریکی طلباء، او ای سی ڈی کے رکن ملکوں میں سب سے پیچھے تھے۔ حیران کن طور پر امریکی طلباء 1,476کا اوسط اسکورحاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔

سنگاپور کیا چاہتا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ PISAکی رینکنگز میں ساری دنیا کے تعلیمی نظام کو پیچھے چھوڑنے والا سنگاپور، آخر اپنے اس قدر کامیاب ترین تعلیمی پروگرام میںتبدیلی کیوں لارہا ہے؟ سنگاپور کے حکام کہتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے بڑا اور سنجیدہ چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی نوجوان اور آنے والی نسل کو رٹا تعلیمی نظام سے دور رکھ کر انھیں متوازن شخصیت کا مالک کس طرح بنائیں۔ اسی فلسفے کے تحت، سنگاپور اپنے نئے تعلیمی نظام میں طلباء کے اندر ’سوشل ڈویلپمنٹ‘، ’خود آگہی‘ اور ’فیصلہ سازی‘ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر کام کرنا چاہتا ہے۔ کلاس روم کے ماحول کو جابز مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ بنانے پر کام کیا جارہا ہے، تاکہ زیادہ تر طلباء ملک کی سروسز انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کے لیے کارآمد افرادی قوت بن سکیں۔ نئے پروگرام کے تحت بچوںکو تاثراتی موضوعات جیسے ڈرامہ اور کھیلوں کے ساتھ ساتھ ’انڈسٹری فوکسڈ‘ ایریاز جیسے کمپیوٹرز، روبوٹکس اور الیکٹرانکس میں مہارت حاصل کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔

سنگاپور کی وزارتِتعلیم نے ایسے حکام کی ٹیم مقرر کی ہے، جو طلباء کو کیریئر گائیڈنس فراہم کریں گے۔ کیریئر گائیڈنس ٹیم طلباء میں تعلیم کے حصول کے موجودہ تصورات کو چکناچور کرنے کے ساتھ انھیں بینکاری، سول سروس اور میڈیسن کے شعبوں سے آگے نکل کر کچھ کرنے کے نئے تصورات اور اُمنگ جگائیںگے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ طلباء کے تصورات کو تبدیل کرنا غالباً آسان چیلنج ہے۔ اصل چیلنج والدین کے ذہن کو بدلنا ہوگا، جو امتحانات کے روایتی طریقہ کار کے عمل سے گزر کر آئے ہیں اور انھوں نے اس سے آگے کبھی کچھ نہیں سوچا۔

تاہم نئے تعلیمی نظام میں ’پرائمری اسکول لِیونگ سرٹیفکیٹ‘ میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ یہ امتحان11یا 12سال کی عمر میں لیا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی تھکادینے والا امتحان ہوتا ہے، جو روایتی طور پر اعلیٰ سطح کی سرکاری نوکریوں کے حصول کے لیے پُل کا کردار ادا کرتا ہے۔

نوکریوں کا مستقبل

نوکری کی جگہ پر کام کرنے کے لیے ہمیں جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے، ان میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی ’فیوچر جابز رپورٹ 2018ء ‘ کے محققین کا اندازہ ہے کہ 2022ء تک نوکری کی جگہ پر کام کے لیے مطلوب صلاحیتوں میں اوسطاً 42فی صد تبدیلی متوقع ہے۔ بہ الفاظِدیگر،2022ء تک آپ کی موجودہ 42فی صد صلاحیتیں بے کار ہوجائیںگی اور کام کی انجام دہی کے لیے آپ کو ان صلاحیتوں کی جگہ کم از کم اتنی یا اس سے زیادہ نئی صلاحیتیں حاصل کرنا ہوںگی۔