کیا ہمیں جینے کا قرینہ بھی نہیں آتا

August 03, 2019

لاکھ چاہتا ہوں کہ دل دکھانے والے موضوعات پر بات نہ کروں، زندگی یوں ہی آئے دن پریشان کن خبریں سنا کر دل دہلایا کرتی ہے۔ اوپر سے انہی خبروں کو دہرا کر ان زخموں کو کیوں ہرا کروں، یہ سوچتا ہوں اور پھر خود ہی ہار مان لیتا ہوں۔ ادھر جب سے مون سون کی بارشوں نے پاکستان میں تباہی پھیلائی ہے، جگہ جگہ سے آنے والی خبریں کبھی دل میں چٹکی لیتی ہیں اور کبھی دماغ میں۔ ان بارشوں نے گھر دیکھ لیا ہے، ہر برس آتی ہیں اور اپنے ساتھ پریشانیاں لاتی ہیں۔ اس مرتبہ دو خبروں نے ایسا دکھ دیا ہے کہ چاہتا ہوں انہیں بھول جاؤں مگر وہ منظر بن کر آنکھوں میں گڑ گئی ہیں۔ پہلے کراچی سے خبر آئی کہ بارش کے بعد بجلی کے کھمبوں میں برقی رو دوڑی اور دو بچے ان کھمبو ں سے چپک کر مرگئے۔ اس خبر نے دل دکھایا ہی تھا کہ پنجاب سے خبر مل کہ ایک ہونہار بچہ بجلی کے کھمبے سے چپکا، اس کا دوست اسے بچانے چلا تو وہ بھی اسی کھمبے سے لپٹ کر رہ گیا۔ ان خبروں کا جو حصہ رات کو سونے نہیں دیتا وہ یہ ہے کہ بچّے کرنٹ لگنے کے نتیجے میں کھمبے سے چمٹ گئے تو غضب یہ ہوا کہ ماں باپ، پاس پڑوس، راہ گیر ، سب ہی فاصلے پر کھڑے دیکھتے رہے اور کچھ نہ کر سکے، وہ بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے، ایک جگہ لوگوں نے ہمت کرکے بچوں کے گرد رسّی ڈال کر انہیں کھینچا اور کھمبے سے الگ کیا۔ غرض یہ کہ تفصیل میں جانے کو جی نہیں چاہتا مگر جو بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا وہ یہ کہ کیا ہم ایسے پس ماندہ، جاہلانہ، گرے پڑے ماحول میں جی رہے ہیں کہ بجلی کے تار بچھانے کا بھی ہمیں قرینہ نہیں۔ ایک بار کسی نے کہا تھا کہ سوئچ دبانے سے روشنی ہو جائے اور ٹونٹی گھمانے سے پانی آنے لگے تو اسے کاریگری نہیں، معجزہ سمجھنا چاہئے تو کیا ہم معجزوں کی آس پر جئیں گے، کیا اس اکیسویں صدی میں ہم تاریکی کے دور میں عمر گزاریں گے۔ دنیا کہاں سے کہاں نکلی چلی جا رہی ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ ذرا ہوا چلے، تھوڑا سا چھینٹا پڑے، کچھ پانی برس جائے، چھتیں گرنے لگتی ہیں، پورے پورے کنبے کچلے جاتے ہیں، سڑکیں دھنس جاتی ہیں، درخت گر پڑتے ہیں، انڈر پاس تالاب بن جاتے ہیں، موٹر گاڑیاں دم سادھ لیتی ہیں، بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ دوڑنے لگتا ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ کھمبوں سے دور رہیں اور خدارا قربانی کے جانوروں کو کھمبوں سے نہ باندھیں۔ یہ تو سراسر جاہلیت کی علامتیں ہیں۔ ذہن بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور صلاحیتیں بھی۔ دنیا میں دوسرے خطے اور علاقے بھی ہیں۔ وہاں بھی مسائل سر اٹھاتے ہیں لیکن لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔

جس وقت میں لندن میں بیٹھ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں، برطانیہ کے کئی علاقوں میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، اس وقت خبر آرہی ہے کہ ڈربی شائر کہلانے والے علاقے میں دریا پر باندھے گئے ایک بڑے بند کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔ وہ اگر ٹوٹا تو کتنے بڑے علاقے کو بہا لے جائے گا چنانچہ نشیبی علاقے کی پوری آبادی کو مکانوں سے نکال کر محفوظ عمارتوں میں منتقل کر دیا گیا ہے اور انجینئر دریائی بند پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں جس کی حالت نازک ہے اور وہ پشت پر جمع ہونے والے پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا۔ فکر نہ پانی کے ذخیرے کی ہے نہ دریا میں کھڑی کی جانے والی پتھریلی دیوار کی۔ فکر صرف علاقے کی آبادی کی اور انسانی جانوں کی ہے۔ اس طرح جیتی ہیں زندگی کی قدر کرنے والی قومیں۔

اب رہ گیا شہر کراچی۔ کیسا سمٹا سمٹایا، سلیقہ سے بسا ہوا، شاد و آباد شہر ہوا کرتا تھا۔ اسے انگریزوں نے اور ان سے بھی بڑھ کر پرانے ہندوؤں نے، پارسیوں نے اور قدیم مسلمانوں نے کس چاؤ سے بسایا تھا۔ انگریزوں نے سروے کر کے پورے کراچی میں نالوں کا جال بچھایا تھا۔ اگرچہ کراچی بارشوں کی زد میں کبھی نہ تھا مگر نالوں کا اتنا مکمل اور بھرپور نظام قائم تھا کہ سڑکوں پر تالاب بننے کا قطعی امکان نہ تھا اور آبادیوں میں پانی کا ریلا داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پھر کیا ہوا، جاہلانِ شہر نے اپنا سارا کوڑا کباڑ، غلاظت اور نجاست ان نالوں میں پھینکنا شروع کی اور دیکھتے دیکھتے یہ نالے ہر طرح کے کچرے سے بھر گئے۔ اوپر سے یہ غضب ہوا کہ لوگوں نے پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں میں عمارتیں اٹھانا شروع کردیں۔ اس طرح انہوں نے قدرت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ شہر کا حلیہ بگڑ چکا ہے، کئی بار زور لگایا گیا، کتنے ہی سر پھرے اٹھے کہ شہر کی صفائی کریں گے، سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کچرے کے انبار ہر لمحہ، ہر گھڑی اونچے ہوتے جارہے ہیں اور حکام ان حالات میں ایک کام بڑی مہارت سے کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ان کی زبانیں خشک ہوئی جاتی ہیں۔ الزام دھرنے کا ہنر انہیں خوب آگیا ہے۔ اب رہ گئے ہم سیدھے سادے لوگ ٹینس کے تماشائیوں کی طرح گردنیں ادھر ہی گھما رہے ہیں جدھر گیند گھوم رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی والے ایسے حکام کے نیچے سے قالین کھینچ لیا کرتے تھے۔ کیسا زمانہ تھا وہ کہ اب خواب میں آنا بھی بند ہو گیا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ دنیا کا موسم بدل رہا ہے، ہمارے دکھیا کرّہ ارض کی فضا کو دنیا والوں نے غارت کردیا ہے۔ موسم کے تیور بدل رہے ہیں، دنیا گرم ہوتی جارہی ہے، بارشوں نے وقت کی پابندی ترک کردی ہے، جب اور جہاں چاہتی ہیں برس جاتی ہیں اور وہ بھی اس ادا سے کہیں تباہی آجاتی ہے اور کہیں بربادی۔ ریگستانوں میں سیلاب آرہے ہیں اور سمندروں جیسی جھیلوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ مٹی کے تودے گر رہے ہیں، سڑکیں بند ہورہی ہیں، زندگی دشوار سے دشوار تر ہوئی جاتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ نہ کوئی فکر ہے، نہ تشویش اور نہ پریشانی۔ سوچتے ہیں کہ ہماری تو جیسی تیسی گزر جائے گی، اب رہ گئیں آنے والی نسلیں، وہ جانیں اور ان کا کام، ہمیں کیا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)