مخدوم ہاشم ٹھٹھوی

August 06, 2019

سندھ کی سر زمین صدیوں سے علم و عرفان کا مرکز رہی ہے۔ اس مردم خیز خطے میں جو مقام ٹھٹھہ کو حاصل ہے وہ کسی اور علاقے کو نہیں۔یہ شہر مختلف ادوار میں سندھ کا دار السلطنت بھی رہا ہے۔ علوم و فنون کےحوالے سے یہ بغدادِ ثانی کہلاتا تھا۔سندھ کے کلہوڑا خاندان کے عہد حکمرانی میں ٹھٹھہ دینی علوم کا مرکز تھا، جہاں ہر طرف علم کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ایک ہی وقت میں سیکڑوں تعلیمی مراکز موجود تھے جہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء و فضلاءعلم کے پیاسوں کو سیراب کر رہے تھے۔ انہی مشہور شخصیات میں سے ایک شیخ الاسلام، عظیم محدث، یگانۂ روزگار فقیہ اور قادر الکلام شاعر مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی ہیں،جن کا شہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔ آپ کا نام محمد ہاشم اور ذات کے پنہور تھے۔ آپ کا نسب عرب قبیلے بنو حارث بن عبد المطلب سے ملتاہے۔ اس قبیلے کے افراد محمد بن قاسم کے ساتھ پہلی صدی ہجری میں سندھ آئے اور ان میں سے کچھ لوگوں نے تبلیغِ اسلام ک خاطر یہیں سکونت اختیا کرلی تھی۔ انہی سے مخدوم محمد ہاشم کے آبا و اجداد کا سلسلہ نسب جاکر ملتا ہے۔ مخدوم صاحب کے آبا و اجداد پہلے سیہون میں آباد ہوئے، پھر آپ کے والد مخدوم عبد الغفور سیہون سے ہجرت کرکے ضلع ٹھٹھہ میں واقع بٹھورو نامی قصبہ میں سکونت پذیر ہوئے، جہاں بروز بدھ 10ربیع الاول 1104ھ بمطابق 19 نومبر1692ء کو مخدوم محمد ہاشم کی ولادت ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مخدوم عبد الغفور ٹھٹھوی سے بٹھورو میں حاصل کی۔ یہیں قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی، صرف و نحو اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے ٹھٹھہ شہر کا رخ کیا جو اس وقت علم و ادب کے حوالے سے دنیا میں شہرت رکھتا تھا۔ یہاں انہوں نے مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ پھرسندھ کے مشہور عالمِ دین مخدوم ضیاء الدین ٹھٹھوی سے علمِ حدیث کی تعلیم حاصل کی اور یوں نو برس کی عمر میں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی1702ء میں مخدوم ہاشم کے والد بزرگوار مخدوم عبد الغفور ٹھٹھوی وفات پاگئے۔ 1135ھ میں انہوں نےحجازِ مقدس کا سفر اختیار کیا،فریضہ حج کی ادائیگی کے ساتھ روضہ رسول ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ اس سفر کے دوران تحصیلِ علم کا موقع ملا اور مکہ اور مدینہ منورہ کے مشہور علما اور محدثین سے علمِ حدیث، فقہ، عقائد اور تفسیر کے علوم کی تحصیل کی اور اسنادحاصل کیں۔ مخدوم محمد ہاشم نے سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور اساتذہ کرام میں اپنے والد مخدوم عبد الغفور ٹھٹھوی، مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی، مخدوم ضیاء الدین ٹھٹھوی، مخدوم رحمت اللہ ٹھٹھوی اور مخدوم محمد معین ٹھٹھوی اور سفرِ حرمین کے دوران جن اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا ان میں شیخ عبد القادر حنفی صدیقی مکی، شیخ عبد بن علی مصری، شیخ ابو طاہر مدنی ، شیخ علی بن عبد المالک دراوی کے نام سر فہرست ہیں۔

مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے تحصیلِ علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں بہرام پور میں سکونت اختیار کی اور وہاں کے لوگوں کو دینِ اسلام کی اشاعت، ترویج کے لیے وعظ اور تقریروں کا سلسلہ شروع کیا مگر وہاں کے لوگوں کو مخدوم محمد ہاشم کے وعظ و تقریروں کی اہمیت کا اندازا نہ ہوسکا، اسی لیے مخدوم صاحب دلبرداشتہ ہوکر بہرام پور سے ٹھٹھہ شہر میں جا بسے اورو ہاں اگر محلہ میں واقع جامع خسرو (دابگراں والی مسجد) کے قریب دار العلوم ہاشمیہ کے نام سے ایک عظیم الشان مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا، جہاں انہوں نے حسبِ خواہش دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔اس مدرسے میں نہ صرف سندھ بلکہ بیرونِ سندھ خاص کر گجرات، کاٹھیاواڑ اور افغانستان سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر آپ کے مشہور شاگردوںمیں مخدوم ابو الحسن صغیر ٹھٹھویمدنی، مخدوم عبد الرحمن ٹھٹھوی(فرزند)، مخدوم عبد اللطیف ٹھٹھوی(فرزند)، مخدوم نور محمد نصرپوری، شاہ فقیر اللہ علوی شکارپوری، شیخ الاسلام مراد سیہوانی، عزت اللہ کیریو، حافظ آدم طالب ٹھٹوی، نور محمد خستہ ٹکھڑائی، سید صالح محمد شاہ جیلانی گھوٹکی والے اور مخدوم عبد اللہ میندھرو شامل ہیں۔

مخدوم محمد ہاشم کے زمانے میں ٹھٹھہ میں شریعت اسلام کا نفاذ تھا۔ یہاں مخدوم صاحب کے حکم اور فتاویٰ کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے تھے۔ آپ کے دست مبارک پرہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ وقت کے حکمرانوں احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ افشار سے بھی آپ کی خط و کتابت تھی۔ شاہانِ وقت بھی آپ کی خواہش کے مطابق دین اسلام کے احکامات جاری کرنے میں آپ کی مدد کرتے تھے۔ آپ کو سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں، غیر شرعی رسومات اور بدعات کا بہت رنج تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ٹھٹھہ میں رائج مختلف بدعات اور غیر اسلامی رسومات کو بند کرانے کے لیے حاکمِ سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑو سے ایک حکم نامہ جاری کرایا جس پر2 شعبان 1172ھ کی تاریخ مرقوم ہے۔ اس حکم نامہ کے اجرا کے بعد ٹھٹھہ سے بہت سی غیر شرعی رسومات، عورتوں کا قبروں پر جانا اور دوسری بدعات کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا تھا۔ مخدوم محمد ہاشم کی شہرت سے خائف کچھ لوگوں نے حاکمِ سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑو کو مخدوم صاحب کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ ان سازشی لوگوں کے خلاف نکلا اور میاں غلام شاہ کلوڑو نے مخدوم صاحب کو ٹھٹھہ کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز کرکے مخالفین کیے مُنہ ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے۔

مخدوم محمد ہاشم نے حصولِ علم کے بعد روحانی تعلیم و تربیت اور اکتسابِ فیض کے حصول کے لئے مرشد کی تلاش شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں اس زمانے کی مشہور روحانی شخصیت مخدوم ابو القاسم نقشبندی ٹھٹھوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے اپنی مریدی میں لینے کی درخواست کی لیکن مخدوم ابو القاسم نقشبندی نے آپ کو سلسلۂ قادریہ کی معروف شخصیت سید سعد اللہ سلونی سورتی سے رجوع کرنے کا حکم دیا، لہٰذا آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں 1123ھ سے 1124ھ تک قیام فرمایا۔ بعد ازاں سید سعد اللہ سلونی قادری نے مخدوم محمد ہاشم کو سلسلۂ قادریہ کا خرقہ پہناتے ہوئے اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم محمد ہاشم کی اولاد میں سےدو فرزند مخدوم عبد الرحمن اور مخدوم عبد اللطیف تھے جنہوں نے اپنے وقت میں بڑا نام کمایا اور وہ اپنے وقت کے جید علما میں شمار ہوتے تھے۔ مخدوم عبد الرحمن کا انتقال جوناگڑھ کے سفر کے دوران ہوا اور جونا گڑھ ہی میں سپردِ خاک ہوئے، جبکہ مخدوم عبد اللطیف سندھ کے حکمراں میاں سرفراز کلہوڑو کے عہد میں قاضی القضا کے منصب پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنے والد کی علمی وراثت کو سنبھالا اور ان کے جاں نشیںمقرر ہوئے۔ مخدوم عبد اللطیف ٹھٹھہ میں آسودہ خاک ہیں۔

مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے جہاں فروغِ اسلام کے لیے بہت سی جہات پر کام کیا وہیں تصنیف و تالیف میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے، جن سے آج بھی دنیا کے ماہرین علم و فن اپنی تحقیقات میں استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی تصانیف اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کی تحریریں تحقیقی نکات اور تبحرِ علمی کی شاہکار ہیں۔ آپ نے فقہ، حدیث، اسماء الرجال، سیرت النبی، قواعد، قرآن، علمِ عروض، ارکانِ اسلام اور بہت سے دیگر موضوعات پر ایک اندازے کے مطابق ایک سو پچاس سے زائد کتب عربی، فارسی اور سندھی زبانوں میں یادگار چھوڑی ہیں، جن زاد الفقیر، قوت العاشقین، راحت المؤمنین، تفسیرِ ہاشمی، سایہ نامہ، بناء الاسلام، تحفۃ التائبین، مظھر الانوار، وسیلۃ القبول فی حضرت رسولﷺ، جنۃ النعیم فی فضائل القرآن الکریم، کشف الرین عن مسئلۃر فع الیدین، بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ، التحفۃ المرغوب، فرائض الاسلام، الوصیۃ الھاشمیہ، بیاض ہاشمی، قصیدۃ یا سالکا، حیاۃ الصائبین، فتح القوی فی نسب النبی، حیات القلوب فی زیارۃالمحبوب، مدح نامہ سندھ، الباقیات الصالحات، وسیلۃ الغریب وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی تصانیف کے مخطوطات بھارت، پاکستان، مصر، اسپین، جاپان، سعودی عرب، عراق، برطانیہ اور یورپ کے کئی کتب خانوں میں موجود ہیں۔ پاکستان خصوصاً سندھ اور بیرونِ پاکستان آپ کے مخطوطات کی دریافت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی 70 برس کی عمر میں بروز بدھ 6 رجب 1174 ھ بمطابق 11 فروری 1761ء کو ٹھٹھہ شہر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ٹھٹھہ میں آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔ ان کے انتقال سے سندھ ایک عظیم مصنف، یگانۂ روزگار فقیہ، معاشرے میں غیر شرعی رسوم و بدعات کے خلاف کمر بستہ مصلح اور جید عالم سے محروم ہوگیا۔