یہ کیسی جمہوریت ہے

February 07, 2013

گزشتہ ہفتے بڑے اہتمام سے کھینچی گئی ایک تصویر اخبارات میں چھاپی گئی۔ قومی اسمبلی کے الوداعی سیشن کی تصویر۔ ارکان اسمبلی کا وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور اسپیکر فہمیدہ مرزاکے ساتھ گروپ فوٹو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے عہد تازہ کی تاریخ رقم کی اور پانچ سال تک ریاست اور ریاستی امور پر چھائے رہے۔ ریاست اور ریاستی امور پر اقتدار کا مطلب ہے ہزاروں لوگوں کی موت یا زندگی، خوشحالی یا غربت، خوشی یا غمی۔ ہمارے ان برسراقتدار لوگوں نے عوام کے لئے موت یا زندگی میں سے موت، خوشحالی یا غربت میں سے غربت اور خوشی یا غمی میں سے غم کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اقتدار کو اپنی ذاتی دولت میں اضافے کا ذریعہ بنایا اور ملک کو اتنا لوٹا کہ اس کی ہڈیاں بھی چبا ڈالیں۔ جس کی چوری کا ذکر آتا ہے وہ اربوں میں ہوتی ہے یہ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت ہے جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ”میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں برسات میں جس کی چھت ٹپکتی ہے، جس طرح اولادکی جنت ماں کے قدموں میں ہوتی ہے اسی طرح سیاستدانوں کی بہشت عوام کے قدموں میں ہوتی ہے“۔ کچھ اچھا کئے بغیر برسراقتدار لوگوں اور عوام کا تعلق کبھی اتنا کمزور نہیں ہوا تھا جتنا اس حکومت میں۔ ایک فقیر قومی اسمبلی کے الوداعی سیشن کی بڑی سی تصویر ہاتھ میں لئے صدا لگا رہا تھا ”مجھے کچھ دے دو ورنہ میں ان لوگوں کو ووٹ دے دوں گا اور یہ دوبارہ تم پر مسلط ہو جائیں گے“۔ دو وقت کی روٹی کبھی پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں رہا لیکن آج پاکستان میں 9کروڑ لوگ بھوکے ہیں، آبادی کا نصف۔ خبریں ہیں کہ چلی آتی ہیں ان بے بس لوگوں کی جو بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کے ساتھ خودکشی کرکے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ فوٹو سیشن سے ایک دن پہلے فیصل آباد کے محمد قاسم کی پانچ بچوں اور بیوی سمیت تصویر سامنے آئی تھی۔ محمد قاسم ایک سفید پوش جس نے بے روزگاری کی ذلتوں سے تنگ آکر بیوی بچوں کو قتل کرکے خودکشی کر لی۔ وہ ایک ایسے کارخانے میں ملازم تھا جو کئی مہینے پہلے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران صرف فیصل آباد میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
غربت، بھوک اور بے روزگاری حد سے بڑھ جائے تو خودکشی نجات کا راستہ نظر آتی ہے۔ خودکشی زدہ فرد کی لاش کے گرد کھڑے لوگوں کی آنکھوں میں چنگاریاں بھری ہوتی ہیں، نفرت کی چنگاریاں۔ اس نظام کو جلا دینے اور بھسم کردینے والی غیظ و غضب کی چنگاریاں۔کارل مارکس اور اس کی بیوی اپنی نمونیے کی مریض بچی کو رات بھر ٹھنڈے فرش پر لئے بیٹھے رہے۔اسے اڑھانے کے لئے ان کے پاس لحاف تک نہیں تھا۔ صبح وہ بچی مرگئی۔ اس بچی کی لاش نے کارل مارکس میں اس نظام کے خلاف نفرت کی وہ چنگاری پیدا کی جس نے اس سے وہ کتاب لکھوائی جو 1917ء کے انقلاب کا باعث بنی۔ پاکستان میں بھی لوگ خودکشی، بھوک، افلاس اور قتل و غارت کی شکار لاشوں کو دفناتے دفناتے اس نظام سے اتنا عاجز آچکے ہیں کہ اب وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے بجائے اس نظام کی تدفین چاہتے ہیں لیکن جمہوریت کی تقلید اور الیکشن کے خوش نما فریب کے ذریعے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسا الیکشن جن میں کامیابی میں دولت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تصور کیجئے اگر چھ ملین ڈالر اوباما کو نہ ملتے،چار ملین ڈالر سرکوزی کی مدد کو نہ آتے تو کیا وہ الیکشن میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ اگر نوازشریف اور زرداری کے پاس اربوں کھربوں روپے نہ ہوتے تو کیا وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتے تھے۔ 1973ء کے آئین میں نوآبادیاتی ایکٹ کی نقل کرتے ہوئے اسمبلیوں کی بے تحاشہ بڑی نشستیں مقرر کی گئی ہیں جن میں صرف وڈیرے، فیوڈل سردار اور ارب پتی سرمایہ دار انتہائی مہنگے الیکشن لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔ گزشتہ8/انتخابات میں فیصل آباد کے دیہی علاقوں پر مشتمل نشستوں کے نتائج کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر مرتبہ کامیاب ہونے والوں کا تعلق وہاں کے چھ امیر ترین خاندانوں میں سے ایک کے ساتھ تھا۔ اس نظام اور اس کے نمائندوں نے غریب اور بے کس لوگوں سے زندگی چھین لی ہے۔ یہ مقتدر لوگ غریبوں کو ٹارگٹ کلرز اور خودکشیوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ شاہ رخ جتوئی ایک نوجوان کو بے دردی سے شکار کرنے کے بعد بغیر سفری دستاویزات کے بآسانی دبئی پہنچا دیا جاتا ہے۔ رینٹل پاور پروجیکٹ میں ملوث ہونے کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنا دیئے جاتے ہیں۔ توقیر صادق ناقابل یقین لوٹ مار، سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ہونے کے باوجود دبئی پہنچ جاتا ہے۔ تفتیشی ایجنسیاں دبئی جاتی ہیں اور اس کی زیارت کر کے واپس آجاتی ہیں۔ ایفیڈرین کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ، ان کے بیٹے، وفاقی وزیر مخدوم شہاب اور خوشنود لاشاری کی بے پناہ دولت پر انسداد منشیات کی عدالت حیران کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔
وطن عزیز میں آج کل الیکشن کا موسم ہے۔ اربوں روپے کی انتخابی مہموں کا موسم، سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم، جھوٹ گھڑنے، بے دریغ پھیلانے اور دل و دماغ کو محصور کرنے کا موسم۔ ذہن، زندگی، عقل اور جذبوں میں ایک طوفان برپا کرکے ہر طرف سے ایک ہی صدا آرہی ہے الیکشن نجات کا ذریعہ ہیں، جمہوریت ہی بقا کا واحد راستہ ہے، جو جمہوریت پر ایمان نہیں رکھتا واجب التعزیر۔ جمہوریت کی خامیوں کا ذکر کیا جائے تو جواب آتا ہے مزید جمہوریت۔ آہستہ آہستہ اقتدار کی عوام کو منتقلی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا صرف چہرے بدل جاتے ہیں نظام وہی رہتا ہے۔ سودی معاشی نظام۔ دو انتہاؤں کا نظام۔ چند افراد کے ہاتھوں میں اتنی دولت، آرام وآسائش کی ایسی بہشت کہ نعمتوں کا شمار ناممکن اور اکثریت پر عرصہٴ حیات تنگ۔ پاکستان میں اس نظام کے بدترین مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ لاہور میں حکومت کی سب سے اہم ترین شخصیت کے لئے دو سو کنال پر ایک محل تعمیر کیا جارہا ہے۔تیس انچ موٹی بم پروف دیواریں،32کمرے کئی ہال، پانچ سوئمنگ پول، دو ہیلی پیڈ۔ دوسری طرف لاہور کے بھاٹی گیٹ میں ایک ایسا گھر جو صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا پانچ افراد کے زندگی بتانے کیلئے ایک چارپائی۔ پرانا ہونے کی وجہ سے چھت گر گئی اور پانچوں افراد جاں بحق۔ اس سودی سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں سماج کو ایسی ہی دو انتہاؤں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف دولت کے بے تحاشہ انبار اور دوسری طرف بدترین غربت۔ ایک فیصد امریکیوں کے پاس قومی دولت کا 42.1 فیصد ہے۔ 19فیصد کے پاس 53.5فیصد اور80فیصد عدم مساوات کے شکار امریکیوں کے پاس محض 4.7 فیصد۔ سوئٹزرلینڈ کی قومی دولت کا 71.3فیصد، فرانس کی قومی دولت کا 61فیصد اور کینیڈا کی قومی دولت کا 53فیصد اس سودی معیشت میں دس فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں جمہوریت اپنی تمام خوبیوں منصفانہ الیکشن،غیرجانبدار الیکشن کمیشن اور ایماندار قیادت کے تحت بروئے کار ہے۔ وال اسٹریٹ سے لیکر پاکستان تک یہ نظام موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جمہوریت کی تمام تر چکا چوند اور فریب کاریوں کے باوجود ہر زبان پر ایک ہی سوال ہے ”یہ کیسی جمہوریت ہے“۔