محبوبہ مفتی صاحبہ!بھرم ہم بھی نہیں رکھتے

August 18, 2019

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
اس ماہ اگست میں بہت کچھ ہوگا اور ہورہا ہے۔ مسلمانوں کے اہم مشترک مسائل بھی پاک مہینوںمیں ابھرتے ہیں تو آزادی کے عناصر کا جوش بھی بہت مدہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کافر و مشرک و یہود بھی۔ پھر ہم بھی کوئی بہت اچھے مذہبی روادار یا باعمل قوم نہیںکہ بھرم ہی رکھ لیںاپنی قومیت کا، مملکت خدادادکا اپنے مذہب کا، اپنے مذہبی پیشوائوں کا اور اپنے قابل احترام قائدین و بانی پاکستان کا اور دیگر مخلصین وطن کا بھی بھرم ہم نہیںرکھتے۔ تو
آج کل محبوبہ مفتی کے ایک پیغام کو، ایک پچھتاوے کو پاکستانی قوم اپنے لئے فخر سمجھ رہی ہے کہ شکر ہے کہ ہمیںخدا نے علیحدہ سے تشخص کیساتھ ایک آزاد وطن جیسی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ کہنے کو تو محبوبہ مفتی نے کہہ دیا کہ ’’دو قومی نظریئے کو رد کرکے 1947ء میں انڈیا کیساتھ ایک امید کیساتھ الحاق کرنا ہماری بہت بڑی غلطی تھی اور ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دینے میںغلط تھے نیز یہ کہ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کا مندر کہتے ہیں وہ بھی مایوس کن ہے۔‘‘ محبوبہ مفتی صاحبہ، اس ملک خداداد کا اور دو قومی نظریے کا بھرم ہم ایسے رکھتے ہیں کہ بس آزاد ہی ہوگئے ہیں۔ اپنے مقاصد میں، بے فکری میں، اپنے اصولوں میں، اچھی انسانیت چہ معنی دارد۔ ہم نے آزادی کا مطلب ہندوئوں کی غلامی سے نکلنے کو ہی لیا ہے۔ دو قومی نظریہ اس آزادی میں معاون ضرور ثابت ہوا ہے مگر اس آزادی کے پیچھے ہمارے کئی مقاصد بھی تو تھے۔ خالی آزادی؟ نہیںخالی آزادی نہیں! کیا ہمارے قائدین اور بانیان نے صرف آزادی مانگی تھی انہوںنے یہ نہیںچاہا تھا کہ اسلامی ریاست کا قیام ہو، پاکستان اسلامی ریاست کا مضبوط قلعہ ثابت ہو، مگر ہم تاحال طاقتور اسلامی ممالک کے غلام ہی ہیں، وہ بھی ہماری مدد سے زیادہ کافر و یہود کی منافع بخش پالیسیوں کو مظلوم مسلمانوں کی مدد سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں اسی لئے اگر ہم آزادی سے زیادہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد میں مگن ہوجائیں تو دوہری خوشیوں کا جشن مناتے کہ آزاد بھی ہیں تو مضبوط بھی ہیں جیسی خوشی و اطمینان کا جشن مزہ دیتا۔ افسوس کہ ہم نہ اسلامی ریاستی بنانے کی فکر میں ہیں اور نہ طاقتور مسلمان بننے کی فکر میں۔ آج آزاد ریاست والے بھی ذہن میں فتور پالتے نظرآتے ہیں۔ سیاستدان سے لیکر عام آدمی تک کے ذہن میں مطلب کی آندھیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ نفاذ اسلام تو کیا انسانیت بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ نفسانفسی کا بازار تو بہت پہلے گرم ہوچکا تھا۔ تعصب بھی ایک ہی ملک و قوم میں نظر آتا ہے۔ نظریات کا ٹکرائو یہاں ہر بندۂ بشر سینہ ٹھوک کر کرتا ہے۔ مختلف قوموں میں اور غلام ممالک میں یہ سب ہونا چاہئے کہ مگر ہمارے یہاںکا حال مختلف نہیںہے۔ ہمارے یہاں آپ کو صوبائی تعصب بھی ملے گا کبھی سندھیوں اور پٹھانوں کا تو کبھی پنجابی اور بلوچیوں کا۔ باقی ہوا نکالنے میں سیاستدان پیچھے نہیںرہتے۔ کراچی کا حال اسکی زندہ مثال ہے جہاںتعصب ہی ابھرا ہے۔ انسانیت اور قومیت یہاں کام نہیں آتی۔ افراتفری کی بھیڑ چال نے اسے کراچی کی بجائے کچراگھر بنادیا۔ حالانکہ گھر صاف و ستھرا ہو تو مسائل کم ہوجاتے ہیں۔ نظام زندگی معیاری طریقے سے چلتا ہے، ہسپتالوں پر بوجھ کم پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز اور دوائوں کی قلت سے بھی بچاجاسکتا ہے۔ مگر محبوبہ مفتی صاحبہ ہم لوگ ہر وقت سیاسی کھیل کھیلنے کے موڈ میں رہتے ہیں۔ آپ لوگوں کے بچے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔ مگر ہمارے بہت سے بچے اسی آزادی کے مہینے میںسیاستدانوں کے تضاد و تعصب میں کہ پیرس بنائیں پاکستان کو کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے کے مقابلے میںایسی ایسی سیاسی چالوں میں ہمارے بچے ہی کام آتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کے اختلاف و تنوع کی نظر ہوکر جان سے چلے جاتے ہیں۔ شہروں کو سیاسی اکھاڑہ بنانے والوں نے اسے صاف ستھرا اکھاڑہ تو نہ بنایا مگر گندہ ترین کردیا اپنی اپنی چپقلش میں شہروں کے حسن کو کائی زدہ کردیا کہ جس کی میل اور کائی میں غریبوں کی نسلیں دھنس کر رہ گئیں۔ کچھ تو اس کچرے و کائی زدہ شہر کے گندے و گدلے پانی میں ڈوب کر مر بھی گئے، کیونکہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اذیت ناک برقی شعاعیں اس آزادی کے مہینے میں ان کے جسم میںکرنٹ لگا کے انہیںزندگی سے آزاد کردیں گی۔ محبوبہ صاحبہ، اسقدر اذیت ناک موت اس سال ہمارے بچے و جوانوں نے بھی لی ہے۔ خدا انہیں غریق جنت کرے۔ یہ بھرم ہے عوام و خاص کا کہ سیاسی ڈرامہ ہی رچا کر وقتی طور پر خدمت بھی یہ سیاستدان نہیں کرتے۔ یہ بھول جاتے ہیں یکسر کہ انہیں آئندہ بھی ووٹ لینا ہے اور اقتدار میں آنا ہے۔ اب تو ہمارے سیاستدانوں کو کوئی ڈر بھی نہیں ہے کہ عوام کے ووٹوں سے آنے کا اب تو وہ اپنی دولت کے بل پر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصل طاقت عوام نہیں دولت ہے اقتدار کا راستہ، محبوبہ مفتی صاحبہ، دو قومی نظریئے کا بھرم ہم نے کچھ یوںرکھا کہ کئی قومیں اس ملک خداداد کی جھولی میں پلنے لگیں ہم ایک قوم بن کر نہ رہے، اسی طرح کچھ حال ہم نے نظریئے کا بھی کیا کہ ہر ایک نے اپنا اپنا نظریہ، خیال، نقطہ اور سوچ دھونس کیطرح جمایا وہ جو مرکزی نقطہ نظر تھا ہمارا یعنی کہ ایک قوم، ایک ملک ہم اس سے آزادی کے بعد سے ہی غافل ہوگئے تھے۔ آزاد قوم اپنی آزادی کی خوشی میں بڑے بزرگوں کی قربانیاں بھول جاتے ہین۔ محمودہ مفتی صاحبہ، ہم آپ لوگوں کی آزادی کیلئے بھی بے حد فکر مند ہیں۔ آپ بالکل قید ہیں ان دنوںبھارت نے انسانیت کو شرما دیا طویل کرفیو لگا کر۔ بلکہ قیدیوں کو بھی کھانا مل جاتا ہے جو وہ زندہ رہتےہیں۔ بھرم کہیں کا بھی نہیں رہ گیا قوموں کے درمیان۔ آپ کشمیری بھی آزادی کی تعریف و ستائش میں نغمے گاتے گاتے آزاد فضا اور آزادی کی وادیوں میں گھومنے کی بجائے گھروں میں بھوکے قید کردیئے گئے۔ اس سے اچھا تو وہ دور تھا کاغذ کا، پتوں کا، دھاتوں کا، پتھروں کا، جھونپڑیوں کا اور پھر غاروں کا کہ جہاں انسان آزادی سے سانس لیکر آزاد گھومتا تھا جو چاہے کھالیتا تھا۔ کوئی فکر نہ تھی جہان بسانے کی، تہذیب کے نقشوں نے طرز زندگی بدل لینے کی آگہی دیدی شعور دیدیا مگر ہم اپنا اپنا مذہب، اپنا اپنا تہذیب و تمدن، اپنی اپنی بودوباش چھوڑ کر دوسروں کی اقدار کے غاصب ہوگئے۔ کاش دنیا کا چلن یہ ہو کہ اپنی زمین و خطے پر اپنی طرز کی زندگی گزارو کسی کے خطے و مذہب کو اپنی جاگیر سمجھ کر قبضہ نہ کرو۔ جیو اور جینے دو کشمیریوں کو بھی بھارتیوں۔