پھر آبی جارحیت!

August 21, 2019

تقسیم ہند کے بعد بھارت نے وطنِ عزیز کی راہ میں جہاں دیگر مسائل پیدا کئے وہیں وہ پاکستان کا پانی بار بار روک لیتا تھا جس پر عالمی بینک کی ثالثی میں 1960میں دونوں ملکوں کے مابین سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے تحت تین مشرقی دریائوں کے پانی پر بھارت کا حق جبکہ تین مغربی دریائوں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اس کے باوجود ہمسایہ ملک کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک طرف وہ ڈیمز بنا کر مغربی دریائوں کے پانی کو روکنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف ہر مون سون میں سیلابی صورتحال میں بغیر اطلاع دئیے اپنے ڈیموں کا پانی پاکستان کی جانب چھوڑ دیتا ہے۔ 1973میں پنجاب میں اسی وجہ سے ایسا خطرناک سیلاب آیا تھا کہ تینوں ملکی دریائوں کے پانی آپس میں مل گئے، جس میں انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ ملکی زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ رواں موسم برسات میں بھی بھارت نے دریائے ستلج اور سندھ میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیا جس سے پنجاب و سندھ کے کئی دیہات زیر آب آگئے اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مودی سرکار نے بغیر اطلاع لداخ ڈیم کے 3سپل ویز کھولنے کے ساتھ الچی و بھاکڑا ڈیم سے بھی 50ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا۔ سیلاب کی سنگینی کے پیش نظر زیر آب علاقوں میں امدادی کارروائیوں کیلئے فوج طلب کر لی گئی ہے۔ واضح رہے کہ انڈس ٹریٹی کے تحت بھارت دریائوں میں پانی کے بہائو کی بابت ڈیٹا فراہم کرنے کا پابند ہے۔ تاہم کچھ عرصے سے اس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیٹا شیئرنگ بند کی ہوئی ہے جس پر ہمیں ورلڈ بینک کے پلیٹ فارم پر موثر آواز اٹھانا چاہئے۔ دیکھا جائے تو اس معاملے میں ہماری کوتاہی و بے توجہی کا بھی دخل رہا ہے، بھارت کی معاہدہ شکنی سے متعلقہ عالمی اداروں کو بروقت آگاہ کرنے میں ناکامی کا اس نے خوب فائدہ اٹھایا اور کشن گنگا جیسے متنازع آبی منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب ہوا۔ دوسری جانب ہمیں ڈیموں اور چھوٹے آبی ذخیروں کی تعمیر پر بھی توجہ دینا ہو گی تاکہ سیلابی پانی تباہی پھیلانے کے بجائے مستقبل میں ملکی آبی ضرورتیں پوری کرسکے۔