احساس ِکمتری کے مارے لوگ

August 31, 2019

انسان کی تقدیر، نصیب سب لکھے ہوتے ہیں۔ تقدیر کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ نصیب کو حکمت، دانش، تدبر سے بدلنے کی جستجو کی جا سکتی ہے۔ نصیبوں جلے صرف داستانیں سنا کر ماضی کی لکیر پیٹتے ہیں۔ جاہل سے علم، عالم سے جہالت کی توقع رکھنا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ دورِ جہالت میں جب عالم کی کوئی وقعت نہیں رہتی اور جہالت چھا جاتی ہے تو معاشروں میں مایوسی کے اندھیرے پھیلتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب حکمت والے جاہلوں کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔ مایوسی اگرچہ گناہ ہے اور خود کشی حرام، لیکن مایوسی کی انتہا انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ جہاں زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ انسانی خصلت کی بنیاد ذہانت، دیانت، اتفاق، جذباتی استحکام، تبدیلی کی خواہش پر رکھی گئی ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہیں علامات کے گرد لوگوں کو متاثر کرنے میں گزار دیتا ہے۔ انسان اگرچہ سماجی جانور کہلایا اور جدید انسانی تحقیق یہ کہتی ہے کہ ہم سماجی طور پر اتنے ذہین ہوتے ہیں نہ ہمارا رویہ دوستانہ پھر بھی ہم اپنے گرد بسنے والوں کو مصنوعی طور پر متاثر کرنے کی ذہنی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں اور جو ہم فطری طور پر ہوتے نہیں، دراصل وہ ثابت کرنے کی کوشش (دھوکہ) کرتے ہیں۔ جدید انسانی فطرت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہم زیادہ تر احساس کمتری کے مارے لوگ ہیں۔ ہر وقت دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے مہنگی برانڈڈ چیزیں خرید کر ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی علت میں مبتلا ہیں۔ ہمارا یہی احساس کمتری، ہماری گفتگو، طور اطوار، عادات سے بھی جھلکتا ہے کہ جب آپ دلیل کا جواب دلیل، علم کا اظہار علم کے بجائے زبردستی اپنے نظریے یا سوچ کو یکطرفہ طور پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل آپ اپنے اندر کے خوف کو مٹانے، چھپانے کے احساس کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ اپنی بھوک پیاس مٹانے یا اچھا کھانا کھانے کی خواہش کو گھر کے پُرسکون ماحول، کسی عام سستے ہوٹل، ڈھابے کے قدرتی ماحول میں بیٹھ کر بھی پورا کر سکتے ہیں لیکن آپ کے اندر موجود کمتری کا احساس یا فالتو پیسے کی فراوانی کا تکبر آپ کو کسی فائیو اسٹار ہوٹل یا اعلیٰ ترین ریسٹورنٹ میں لے جاتا ہے۔ آپ فطرت سے دور اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں اور دنیا کو اپنے اندر کا خوف، احساس برتری دکھانا چاہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جو لوگ سستی یا کم قیمتی گاڑیوں کے بجائے مہنگی گاڑیوں کے شوقین ہوتے ہیں وہ دراصل ذہانت کی کم ترین سطح کو چھو رہے ہوتے ہیں اور وہ اس عمل سے لوگوں پر اپنی ذہانت کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں۔ انسانی فطرت کے احساس میں معاشی مسائل کا بنیادی کردار ہے۔ ہر انسان مختلف معاشی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ کسی کے ماں باپ انتہائی امیر تو کسی کے انتہائی غریب۔ شعوری آنکھ کھولنے کے بعد انسان اپنی معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کی جستجو میں جت جاتا ہے۔ کوئی کامیاب تو کوئی ناکام۔ کسی کی خواہشیں کچلی جاتی ہیں تو کسی کے ارمان گھر بیٹھے ہی پورے ہو جاتے ہیں اور کئی تقدیر اور نصیب والے اپنی ذہانت کے زور پر گدھڑی کے لعل بن جاتے ہیں۔ ایسے ذہین لوگ بُرے سے بُرے معاشی حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ایک دن دنیا کی نامور شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ دنیا کی کامیاب اور ذہین ترین شخصیات کی زندگی کا تجزیہ کریں تو یہ بات سچ ثابت ہوگی کہ جاہل کبھی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر پایا جبکہ ذہانت، دیانت، اتفاق، حقیقی تبدیلی کی خواہش جیسے عوامل کی حامل شخصیات نے فطرت کے قریب عجز و انکساری پر مبنی زندگی گزاری اور کم وسائل کے باوجود ہمیشہ دوام پایا۔ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں، پاکستان جن مسائل میں گھرا ہے، آنے والے وقت کی جو تصویر کشی کی جا سکتی ہے تو اندھیرا نظر آتا ہے۔ لوگ بھوک، پیاس، جائز و ناجائز خواہشات کی عدم تکمیل کے باعث شدید ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب چھ سات خواتین، مرد، جوان بچے خودکشی نہ کررہے ہوں۔ غیر فطری ماحول کے شکار کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ نہیں کر پا رہے تو وہ تنگ دستی کے باعث گھریلو جھگڑوں پر عدم برداشت کی آخری حد کو چھوتے ہوئے پورے کے پورے خاندان کی جان لینے پر مجبور ہیں۔ میڈیا ایسے واقعات کو محض عزت و غیرت کے نام پر قتل کی ایک واردات کے طور پر شائع کرتا ہے ان واقعات کے پیچھے پوشیدہ حقیقی عوامل اور اجتماعی خودکشی کی وجوہات کو سامنے نہیں لاتا۔ صورتحال کی گمبھیرتا کا اندازہ لگائیے، اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہمارے بے حس، احساس کمتری کے مارے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے کسی فرعون کی سجائی مقتل گاہ میں انسانوں کی موت کا کھیل تماشہ دیکھ کر اپنے اندر کے حیوان کی تسکین کررہے ہیں اور ان کی ہمنوا اشرافیہ تالیاں بجا رہی ہے۔ کیسی افتاد پڑی ہے ملک کنگال ہو گیا، گائے بھینسیں بیچ کر ’’قومی بچت اسکیم‘‘ کے موجد کاروں نے قوم کو ٹیکسوں کی زنجیروں میں ایسا جکڑا کہ سانس لینا بھی مشکل ہوگیا لیکن ان ’’فن کاروں‘‘ کی بے حسی، ہٹ دھرمی ختم نہ ہوئی۔ کفایت شعاری کے ان نام نہاد دعوے داروں کا نیا تماشہ تو ملاحظہ فرمائیے کہ بڑے بڑے مگرمچھوں کے پیٹ پھاڑ کر قومی خزانہ لوٹنے والوں کی گرفتاریوں کا جشن تو منا رہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ قوم کا خون چوسنے والے بڑے بڑے ساہو کاروں کے دو سو اٹھائیس ارب روپے کے قرضے بھی معاف کررہے ہیں۔ کس کس کا ماتم کریں، یہ احساس کمتری کی ماری اشرافیہ کو مافیا نہ کہیں تو کیا کہیں جو ہماری لاشوں سے بھی خون نچوڑ کر ان بڑے بڑے معاشی یتیموں کے قرضے معاف کر کے اقتدار کے یتیم خانوں میں ان کی کفالت کی جارہی ہے۔ کیا ان معاشی یتیموں کا بھی کسی نے احتساب کرنا ہے یا نہیں؟ اس اشرافیہ کا ایک اور تماشا دیکھئے لوگ بھوک پیاس سے مر رہے ہیں اور قبائلی اضلاع سے نومولود ایم پی اے صاحبان جو آپس میں رشتے دار بھی ہیں، فتح کا جشن منانے ہزاروں ووٹروں کا لائو لشکر لے کر وادی کالام پہنچ گئے۔ کاش دولت کی اس فراوانی سے ووٹرز کے بچوں کو تعلیم و صحت اور روزگار کی سہولیات فراہم کر دی جاتیں۔ آخر ہم کس مٹی کے بنے لوگ ہیں۔ آئے دن ایک نیا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ خدارا اجتماعی خودکشی نہ کریں۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک جوان بیٹی گزشتہ چھ سات سال سے آفس سے گھر جاتے فٹ پاتھ پر بیٹھے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ جس کی گود میں پہلے دن ایک نومولود بچہ تھا، یہی بچہ فٹ پاتھ پر کھیلتے کودتے بڑا ہوگیا۔ یہ نامعلوم بیٹی دھوپ، گرمی، بارش، سردی کا ہر موسم رات کی تاریکی میں فٹ پاتھ پر گزارتی ہے۔ کہاں کی رہنے والی ہے، اس کے دکھ کیا ہیں۔ یہ ایک الگ کہانی ہے مگر اس بچے کی فٹ پاتھ پر پرورش دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔