کیا ہماری بنیاد نفرت پر ہے؟

September 05, 2019

مسئلہ کشمیر ان دنوں اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے خطے نے ڈیڑھ سو کروڑ انسانوں کی امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مسئلہ کشمیر کی گمبھیرتا نے ڈیڑھ ارب انسانوں کو اپنا یرغمالی بنا لیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا جیسے دونوں ایٹمی ممالک جہاں اس ایشو کے اسیر بنے ہوئے ہیں، وہیں ان ہر دو ممالک کے عوام پیہم باہمی منافرتوں کی بھٹی میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ پروپیگنڈہ وار ان دنوں ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے۔ رہ گئے خود کشمیری عوام! تو کیا وہ سکھی ہیں؟ وہ ہم سب سے زیادہ دکھی ہیں، ان کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں وہ شاید سب سے خلاصی چاہتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے اور بھارت کے نزدیک کشمیر اُس کے وجود کا لازمی حصہ یعنی بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔

کشمیر کو ایک رستے ہوئے زخم یا ناسور کی حیثیت سے سات دہائیاں بیت گئی ہیں لیکن تازہ درد یا آپریشن کی تاریخ 5اگست کا دن ہے جب مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر مبنی انڈین آئین کے آرٹیکل 370اور 35A کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا۔ اس پر بشمول ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محترمہ محبوبہ مفتی، کشمیری عوام کا غم و غصہ قابلِ فہم ہے تاہم اپنے اہل وطن کا غم و غصہ دیکھتے ہوئے یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ ہم نے تو پچھلی سات دہائیوں میں کبھی بھی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35Aکو کبھی تسلیم نہیںکیا، پھر اس کی تنسیخ پر اتنا شور کیوں۔ ہمارے عوام، میڈیا اور حکومتوں نے پچھلی سات دہائیوں میں کبھی بھی کشمیریوں کی خود مختاری کے بھارتی آئین کے اس نام نہاد آرٹیکل کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ہمارا 70سالوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ’’استصوابِ رائے‘‘ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ یعنی کشمیریوں کے سامنے دو ہی آپشن ہیں، بھارت کے ساتھ شامل ہو جائیں یا پاکستان کے ساتھ۔ بالفرض ’’حق خود اختیاری‘‘ کے بالمقابل ’’حق خود مختاری‘‘کا نعرہ Viableیا قابلِ عمل نہیں ہے تو کیا مذہبی بنیادوں پر کشمیر کی تقسیم ممکن ہو گی؟ 47ء میں انڈیا کی پارٹیشن جس طرح ہوئی اور آبادیوں کے انخلا میں بدترین بربادیوں کی داستانیں اس خطہ ارضی کو جس طرح آگ اور خون کے الائو اور بہاؤ میں ڈبو گئی ہیں، اس کے بعد کوئی بھی دلِ درد مند یا انسانوں سے محبت کرنے والا انسان اس قیامت خیر تباہی کی وکالت یا تحسین کیسے کر سکتا ہے؟ اس کے بعد میجارٹی رائے کی مطابقت میں یہی آپشن بچتی ہے کہ پورا کشمیر کسی ایک ملک کے پاس ہی رہے۔ اگر ہم ماضی میں نہیں رہتے، حال میں جیتے ہیں تو یہ سوچیں کہ کیا زمینی حقائق کی مطابقت میں ایسے ممکن ہے؟ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے میڈیا بالخصوص اہل دانش کو ان پہلوئوں پر بھی تھوڑا سا وقت نکال کر غور کر لینا چاہئے۔

ان دنوں ہماری سیاست و صحافت میں آر ایس ایس کے بالمقابل کانگرس،مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی خوب تحسین کی جا رہی ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے ہمارے وزیراعظم نے حال ہی میں ایک امریکی اخبار میں تفصیلی مضمون لکھا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی احتجاجی ریلی سے خطاب میں بھی دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ RSSکا نظریہ سمجھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ کیا ہے؟ انتہا پسند ہندو لیڈر ساور کر نے یہ متشدد جماعت مسلمانوں کی نفرت میں بنائی تھی یعنی اس کی پیدائش (1927) میں ہی مسلم دشمنی شامل تھی۔ ہندوتوا کا مطلب ہی یہ تھا کہ جن لوگوں نے ہندو مذہب کو چھوڑ کر کوئی بھی دوسرا مذہب اختیار کیا ہے، وہ شیر شرم بنیں اور اپنے اصل مذہب میں واپس آجائیں چاہے وہ مسیحی ہیں یا مسلمان یا کسی بھی اور دھرم میں گئے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ RSSاور BJPصرف ہندوتوا کو مانتے ہیں۔ آر ایس ایس کو نہ روکا گیا تو وہ مسلمانوں کے بعد دوسری اقلیتوں کو بھی تنگ کریں گے۔ آر ایس ایس کے نظریے کے خلاف سب کو آواز اٹھانا چاہئے۔ RSSکے ممبر نتھو رام گوڈسے نے ہی مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا جبکہ مودی کی قیادت میں BJPکی موجودہ فاشسٹ حکومت نے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے سیکولرزم کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مودی اور اس کے وزراء RSS کے ممبر ہیں ان سے کسی بہتری کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟

باتیں یہ سب درست کہی جا سکتی ہیں لیکن کئی دانشور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عین ان حساس لمحات میں صورتحال کی اس متوقع سنگینی کا پیشگی احساس و ادراک کیوں نہ کیا گیا؟ جب ہم نے آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوات پر یقین رکھنے والوں کی شدید مخالفت کی تو خدانے بدترین متشدد لوگ ہم پر مسلط کر دیئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دو قومی نظریہ دونوں اطراف سے حقیقت بن کر اٹھ کھڑا ہو ا ہے، ہمیں ضرور غور کرنا چاہئے کہ اس کا اصل کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر ایک چیز ہمارے اعلیٰ ترین منصب سے ہی نہیں پورے میڈیا میں تکرار سے کہی جا رہی ہے وہ کشمیر ایشو کو مذہب سے جوڑنے والی ہے، مثال کے طور پر یہ کہنا کہ ’’اگر کشمیری لوگ مسلمان نہ ہوتے تو پوری دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی‘‘ مزید یہ کہ ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو عالمی برادری خاموش رہتی ہے‘‘۔ ہمارے صدر نے بھی کہا ہے کہ ’’کشمیر دنیا بھر کے مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے‘‘۔ میرا اس ضمن میں موقف یہ ہے کہ اگر آپ لوگ کشمیری عوام کے سچے ہمدرد ہیں تو پھر اس نوع کے سلوگن سے ان کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے سے احتراز فرمائیں اور یہ سمجھ لیں کہ آج کی مہذب دنیا ہماری مذہبیت سے نالاں ہے تو اس کا ایک وسیع پس منظر ہے۔ جب ہم اپنا مطمح نظر اسلام و غیر کی صورت بیان کرتے ہیں تو ہماری مظلومیت بھی اس کی نذر ہو جاتی ہے، دنیا اسے جہادی پروگرام خیال کرتے ہوئے اس میں دہشت گردی کی بو سونگھنے لگتی ہے۔ آج کی مہذب دنیا ان تنگناؤں سے کہیں آگے گزر چکی ہے۔ (جاری ہے)