’سندھی دست کاری‘ دنیا بھر میں قومی ثقافت کی پہچان

September 24, 2019

سندھی دستکاری نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول اور اپنی مثال آپ ہے۔سندھی دستکاری کے شعبے سے نہ صرف خواتین کی اکثریت وابستہ ہے جو دستکاری کے ذریعے خواتین کے استعمال کے لیےخوب صورت اشیاء تیار کرتی ہیں۔ ان میں دلکش ودیدہ زیب سندھی سوٹ، گلے، پٹیاں، بیڈ شیٹس،چادریں،دستی پنکھے اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ان اشیاء کا استعمال بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں زیادہ تر خواتین ہی کرتی ہیں۔ سندھی دستکاری ایک بڑی گھریلو صنعت کے طور پر موجود ہے، خاص طور پر اندرون سندھ کے اکثریتی اضلاع میں خواتین گھروں میں اپنے ہاتھوں سے روایتی قسم کی اشیاء بناتی ہیں۔

سندھی دستکاری گھریلو صنعت ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ کی ثقافت کابھی حصہ ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں خاص طور پر سکھر، گھوٹکی، خیرپور، شکارپور، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، نوشہرو فیروز،سمیت دیگر اضلاع میں خواتین گھروں میں دستکاری کا کام کرتی ہیں ۔ گھریلو دست کاری کے ذریعے بننے والے خوبصورت دیدہ زیب ملبوسات ، بیڈ شیٹس، چادریں اور دیگر اشیاء سکھر سمیت سندھ بھر کی ہول سیل منڈیوں میں لائی جاتی ہیں جہاں سے نہ صرف پاکستان کے تمام شہروں بلکہ بیرون ممالک بھی برآمد ہوتی ہیں، جبکہ کراچی ، لاہور ،پشاور ، کوئٹہ ، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد سمیت ملک کے تمام شہروں سے لوگ سکھر آتے ہیں اور مارکیٹوں میں خریداری کے دوران ان کی ترجیح سندھی دستکاری سے بنے ہوئے ملبوسات، سندھی گلے،چادریں، دستی پنکھے اور دیگر اشیاء کی خریداری ہوتی ہے۔

سکھر سمیت اندرون سندھ کے اضلاع سے لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں اپنے رشتے داروں ، دوستوں کو سندھی ثقافت سے روشناس کرانے اور تحفے کے طور پر یہ اشیاء بھجواتے ہیں ۔ ہاتھ سے بنے ہوئےسندھی ملبوسات نہ صرف متعدد خواتین فنکار استعمال کرتی ہیں بلکہ سندھ سمیت ملک بھر میں ان ملبوسات کا استعمال عام خواتین کے ساتھ ساتھ متعدد اراکین اسمبلی بھی کرتی ہیں، سندھی دستکاری جوکہ بڑی گھریلو صنعت کے طور پر موجود ہے لیکن سرکاری سطح پر سرپرستی نہ ہونےکی وجہ سے رو بہ زوال ہے۔

اس صنعت سے وابستہ دیہی علاقوں کی خواتین کو خاطر خواہ اجرت نہیں دی جاتی، ہاتھ سے بنے ہوئے سندھی سوٹ، چادریں، دستی پنکھے ،گلے، ملبوسات پر لگائی جانے والی پٹیاں اور دیگر اشیاء جن پر بہت زیادہ محنت ہوتی ہے لیکن اس محنت کے اعتبار سے اجرت انتہائی ناکافی ہے،گھریلو صنعت کی اشیاء تیار اور فروخت کرنے والے ایک مقامی تاجر محمد علی شیخ کے مطابق ایک سوٹ جو دستکاری کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے اس کی قیمت 800سے لے کر 3000روپے تک ہوتی ہے اور اس کو تیار کرنے والی خاتون کو اجرت 200روپے سے 500روپے تک دی جاتی ہے، اسی طرح خواتین کے ملبوسات پر لگائے جانے والے گلے کی اجرت بھی محنت کش خواتین کو 50روپے سے لے کر 200روپے تک دی جاتی ہے، جبکہ مارکیٹوں میں گلے کی قیمت 200روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

مذکورہ دکاندار کے مطابق ایک خاتون گھر میں روزانہ 50روپے سے 100روپے کی کڑھائی کا کام کرتی ہے، اس طرح متعدد گھرانے ایسے ہیں جن میں کئی کئی خواتین ہاتھ کی کڑھائی کا کام کر کے ماہانہ ہزاروں روپے کماتی ہیں۔ سندھی دستکاری کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے اور ہاتھ سے کڑھائی کئے ہوئے سندھی سوٹ ،چادریں گلے، ملبوسات پر لگانے والی مختلف اقسام کی پٹیاں، پھول، پرس ، دستی پنکھے اوردیگر اشیاء پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ اپنے عزیز وں اور دوست احباب کو تحفے کے طور پر بھجواتے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومت نے سندھ کی اس ثقافتی دستکاری کی صنعت پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔، اگر اس گھریلو صنعت کے فروغ پر توجہ دی جائے تو اس سے نہ صرف دیہی علاقوں کی عوام میں خوشحالی آئے گی بلکہ پاکستان کو بھاری زر مبادلہ بھی حاصل ہو سکتا ہے، سندھی دستکاری کے ذریعے بنی ہوئی اشیاء کودنیا بھر میں متعارف کرانے کیلئے اگر حکومتی سطح پر کوششیں کی جائیں تو نہ صرف اس صنعت کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ اس گھریلو صنعت سے جڑے ہوئے ہزاروں خاندان خوشحال ہونے کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کو بھی اس کے خاطر خواہ افوائد حاصل ہوں گے،سکھرایوان صنعت وتجارت کے صدر عامر علی خان غوری، عرفان صمد، جاوید شیخ، ملک محمد یعقوب، اسرار بھٹی و اراکینِ مجلسِ انتظامیہ کا بھی یہ کہنا ہے کہ سندھی دستکاری سندھ میں گھریلو صنعت کے طور پر موجود ہے خاص طور پر اندرون سندھ میں نہ صرف سینکڑوں بلکہ ہزاروں خاندان اس سے جڑے ہوئے ہیں ۔

اگر حکومت اس گھریلو صنعت کی ترقی اور بہتری کے لئے اقدامات کرے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان چھوٹی گھریلو صنعتوں کے فروغ، ترقی اور بہتری کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے، سکھر سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما میڈم خورشید افغان کا کہنا ہے کہ سندھی دستکاری سندھ میں سب سے بڑی گھریلو صنعت ہے کیونکہ اندرون سندھ میں ہزاروں خاندان اس صنعت سے وابستہ ہیں لیکن حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی نہ ہونے اور محنت کش خواتین کو ان کی معقول اجرت نہیں ملتی جتنی محنت خواتین سلائی، کڑائی پر کرتی ہیں اس کے مقابلے میں انہیں 20فیصد بھی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا، اس گھریلو صنعت کو حکومتی سطح پر سرپرستی کی ضرورت ہے، دستکاری کی اس گھریلو صنعت کے ذریعے تیار ہونے والی اشیاء پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین استعمال کرتی ہیں۔