فلائی اوورز کے نیچے بھی زندگی رواں دواں

September 26, 2019

محمد اسلم

لانڈھی ٹاؤن میں داؤد چورنگی کے پل کے نیچے وسیع و عریض بازار

کراچی میں مجموعی طور سے پچاس کے قریب پل اور فلائی اوورز ہیں ،جن میں سے بعض ندی ، نالوں پر بنائے گئے ہیں، کچھ ریلوے ٹریکس پر ہیں، جب کہ زیادہ تر سڑکوں کے جنکشن اور چوراہوں پر بنے ہوئےہیں اور ان سب کی تعمیر کا واحد مقصد ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانا ہے۔بہت سے پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے، رابطہ سڑکیں ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا ہجوم تو پلوں کے نیچے رہتا ہی ہے لیکن یہاں مختلف النوع کاروبار بھی ہوتے ہیں۔

شہید ملت فلائی اوور، بنارس کالونی فلائی اوور، لیاقت آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ کے پلوں کے نیچے پارکنگ لاٹ بنا دی گئی ہیں جب کہ صرف سہراب گوٹھ کا فلائی اوور ایسا ہے، جہاں تجاوزات نہیں ہیں بلکہ اس جگہ کو پیڑ پودے لگا کر خوب صورت بنایا گیا ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس کے نیچے دوانڈر پاسز بنے ہوئے ہیں۔

بنارس چوک پر فلائی اوور کے نیچے فروٹ مارکیٹ بن گئی ہے لیکن اس کے علاوہ یہاں ایک بڑا کباڑ بازار بھی لگتا ہے ،جہاں سائیکل سے لے کر برقی آلات، فریج اور ایئرکنڈیشن تک دستیاب ہیں۔ ندی ،نالوں پر بنے پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے سے سیوریج کاپانی بہتا رہتا ہے ۔

نیٹی جیٹی کے مقام پر،جہاں اوپر نیچے دو فلائی اوور اور دو قدیم پل بنے ہوئے ہیں،ان کے نیچے وزیر مینشن اور بندرگاہ کی طرف سے آنے والے ریلوے ٹریک کے ساتھ، سر سبز و شاداب پارک، فوڈکورٹ اور پلے لینڈ بنایا گیا ہے، جب کہ ناظم آباد سمیت کئی پلوں کے نیچے گداگر اور بے گھر لوگوں نے خیمے لگا کر گھر بنا لیے ہیں اور ’’کاروباراور رہائش‘‘ ساتھ ساتھ کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔

لیکن کراچی کا ایک پل ایسا بھی ہے ،جس کے نیچے نہ تو پارکنگ لاٹ بنی ہوئی ہے اور نہ ہی جھونپڑیاں ہیں بلکہ وہاں پل کی چھت کے نیچے پختہ دکانوں پر مشتمل ایک وسیع و عریض با زار قائم ہے ، درمیان میں ریلوے لائن گزرتی ہے، جس کے بعد دوبارہ دکانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

اس بازار کی ڈیڑھ سے دو ہزار دکانوں میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر سولار انرجی پلانٹ، خواتین کے زرق برق کڑھے ہوئے ڈریس، مردانہ شلوار قمیص سوٹ، بابا اور بےبی کے کپڑے تک فروخت ہوتے ہیں، اس بازار کے ساتھ کراچی سے اندرون ملک کی طرف جانے والی ریلوے لائن کے چھ ٹریک بچھے ہوئے ہیں۔ پل کے نیچے بنے مذکورہ بازار میں کاروبار کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خواہ سے ہے جب کہ چند دکانیں شہر کے مقامی لوگوں کی بھی ہیں۔

یہ پل لانڈھی ٹاؤن میں داؤد چورنگی سے قائدآباد کی جانب جانے والے راستے پر واقع ہے۔ 1986ء تک یہاں کوئی پل نہیں تھا، ملیر اور صدر کی طرف سے آنے والی بسیں ریلوے کراسنگ عبور کرکے لانڈھی، کورنگی کی جانب جایا کرتی تھیں۔

قریب میں ہی لانڈھی ریلوے اسٹیشن ہے۔ 80,90کے عشرے تک یہاں سے دن بھر میں تقریباً پچاس سے زائدمسافر، مال بردارگاڑیاں اور لوکل ٹرینیں گزرا کرتی تھیں اور ہر نصف گھنٹہ بعد یہ گزرگاہ لوہے کی زنجیریں باندھ کر آنے جانے والی گاڑیوں کے لیے بند کردی جاتی تھی کیوں کہ اس جگہ ریلوے پھاٹک بھی موجود نہیں تھا، اس لیے موٹی موٹی زنجیریں لگائی گئی تھیں۔ اس جگہ پل بنانے کی ضرورت تو کافی عرصے سے محسوس کی جارہی تھی لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔

بلا آخرمذکورہ پل کی تعمیر کا سلسلہ1988 میں شروع ہوا اور89 ء میں مکمل ہوا۔ تقریباً چار فرلانگ طویل اس پل کا آغاز قائدآباد پر ڈی سی آفس اور گلستان سینما ،جبکہ اس کا اختتام داؤد چورنگی پر ہوتا ہے۔داؤد چورنگی کے ساتھ پھل فروشوں کے ٹھیلے کھڑے ہیں جب کہ’’ پل بازار‘‘ کی طرف جانے کے لیے پل کے نیچے، دائیں اور بائیں جانب سے راستے نکلتے ہیں۔اس کی دائیں جانب صنعتی علاقہ ہے،فیکٹریوں کی دیوار کے ساتھ دکانیں ہیں، جبکہ سڑک کے کنارے آئی لینڈ پرایک رفاہی ادارے کا ایمبولینس بوتھ بھی بنا ہوا ہے۔

مذکورہ پل مضبوط ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے ،جس کے نیچے خلاء ہے ، اسی لیے پل کے نیچے ، اس کی چھت تک دیواریں بنا کر ہزاروں کی تعداد میں دکانیں تعمیر کی گئی ہیں، جن میں مختلف اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازارمیں شام کے اوقات میں خریداری کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے، جن میں سے قریب کی آبادیوں میں رہنے والوں کے علاوہ قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے خریداربھی شامل ہیں، جو قائد آباد کے اسٹاپ پر اتر کر پل بازار میں خریداری کی غرض سے آتے ہیں۔

لانڈھی ٹاؤن کے اس علاقے میں تقریباً ڈیڑھ درجن بستیاں ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آباد ہیں لیکن یہاں پچاس مربع کلومیٹر کے رقبے میں بابر مارکیٹ تک کوئی بازار نہیں ہے۔ اس لیے مقامی آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس بازار کا قیام عمل میں لایا گیاہے۔ اطراف میں صنعتی علاقہ اور گنجان بستیوں کی وجہ سے ایک بڑا بازار بنانے کے لیے وسیع و عریض قطہ اراضی کی ضرورت تھی جویہاں میسر نہیں تھا۔

پل کی تعمیر سے پہلے سڑک کے دونوں اطراف میں کاروباری طبقہ آباد تھا، جس نے قائدآباد اور داؤد چورنگی کے درمیان ایک بڑے بازار کا مطالبہ طویل عرصے سے انتظامیہ کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے مذکورہ ریلوے کراسنگ پر پل کی تعمیر میں بھی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں۔ مذکورہ ’’پل بازار‘‘ میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں، جن میں درزیوں کے کارخانے اورگودام بھی بنے ہوئے ہیں، یہاں بچوں کے اسکول بیگز ، یونیفارم اور کتابوں، کاپیوں کی بھی دکانیں ہیں۔

جڑی بوٹیاں، حکمت کا سامان، زعفران، مشک و عنبر اور شہد بھی فروخت ہوتا ہے جو جوڑیا بازار سے خرید کر لایا جاتا ہے۔ان دکانوں میں ماربل سے بنے ہوئے،بیلن، ہاون دستے بھی فروخت ہوتے ہیں، جب کہ بچوں کے کھلونے، چھوٹے بڑے برقی آلات، بلوچی و پشتون روایتی ٹوپیوں کی بھی دکانیں ہیں۔ اس بازار میں سوات اور گلگت کی دست کاری بھی ملے گی، یہاں نائیلون کی ڈوریوں سے بنائے گئے نفیس آئینے بھی مل جاتے ہیں۔

آمنے سامنے دو دکانیں مسالہ جات فروخت کرنے والوں کی ہیں۔ہر دکان میں پسائی کی دو مشینیں لگی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک پر ہلدی، مرچیں، گرم مسالے، دھنیا پیسے جاتے ہیں جب کہ دوسری میں جڑی بوٹیوں اور ادویات کی پسائی ہوتی ہے۔

یہاں پر کمبل ، گاؤ تکیے، پلاسٹک شیٹس، واسکٹ اور اونی سوئٹر کی دکانیں بھی ہیں۔ ایک حصے میں ٹیلرنگ شاپس اور گارمنٹس کے کارخانے ہیں، جن میں سلائی کی بڑی جوکی مشینیں، کاج، بٹن اور اوور لاک مشینیں لگی ہوئی ہیں۔

نصف درجن دکانیں برقعہ اور عبایا کی بھی ہیں۔ اس بازار میں لوہے اور ٹین کے بکس اور بڑے صندوق بھی فروخت ہوتے ہیں ۔ پختون اور قبائلی بستیوں میں کپڑوں کےصندوق سے زیادہ آٹا ، چاول اور چینی محفوظ کرنے کے لیے لوہے کے بکسوں کی زیادہ مانگ ہے۔

یہاں بجلی کا نظام قانونی طریقے سے میٹر پر چلتا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہونے اور امن و امان کی صورت حال متاثر ہونے سے مذکورہ بازارپر بھی اثر پڑا ہے۔ یہاں ایک کمیٹی بھی ہے جو صفائی، ستھرائی، بجلی اور پانی کے مسائل نمٹاتی ہے ۔

پل کے نیچے ریلوے لائنوں کے ساتھ لکڑی کے کیبن بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کرائے پر دیئے گئے ہیں، ان میں پلاسٹک کے برتن، کاسمیٹک کی اشیاء ،تولیہ، گھڑیاں اور دوسری چیزیں فروخت ہوتی ہیں ۔ موچی کی دکان بھی ہے ، وہ یہاں چار سال سے نئے پرانے جوتے بیچتا اور ان کی مرمت کرتا ہے۔

یہاں پر ریلوے لائن کے چھ ٹریک بنے ہوئے ہیں ، جن میں سے دو پر ٹرینوں کی آمدورفت اور بقیہ پر منشیات کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ کاروبار لانڈھی اسٹیشن تک پھیلا ہوا ہے یہی لوگ ریلوے ٹریک سے گزرنے والوں کے ساتھ لوٹ مار کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔

ریلوے ٹریک کے دوسری جانب قائد آباد تک پختہ دکانوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے، جہاں بڑے اور بچوں کی مچھردانیاں ، نئے پرانے ملبوسات اور دیگر سامان فروخت ہوتا ہے، یہاں اشیائے خورونوش کے کئی ہوٹل ہیں ،جہاں چپلی کباب، پلاؤ، زردہ، مچھلی فرائی او کلیجی فروخت ہوتی ہے۔ بازارکے اس حصے میں روایتی حقے ، تمباکو، ایمپلی فائر، ساؤنڈ سسٹم، برقی پنکھوں، تھرماس، اور واٹر کولر کی دکانیں ہیں۔

ان دکانوں کے ساتھ ہی پرانے کپڑوں کے اسٹال بھی لگے ہوئے ہیں۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ بنا ہوا مذکورہ’’ پل بازار‘‘ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بنکاک میں ریلوے ٹریک پر بنے ہوئے چھتری بازار سے کسی طور سے بھی کم نہیں ہے۔