وزیراعظم کا متوقع دورئہ چین اور مسئلہ کشمیر

October 03, 2019

عمران خان چین جا رہے ہیں۔ اُن کا دورہ چین اِن حالات میں ہوگا کہ جب پاکستان سنگین حالات سے نبردآزما ہے۔ معیشت کے میدان میں روز بروز ایک تنزلی کا سفر ہمیں در پیش ہے جبکہ جو تازہ افتاد بھارت نے کشمیر میں برپا کی ہے وہ ایک اور سردرد ہے کہ کشمیر میں جب کبھی بھی کرفیو اٹھایا جاتا ہے تو وہاں کے عوام کا ردِعمل کیا ہوگا اور اِس حوالے سے بھارتی بربریت کیا شکل اختیار کرے گی اور پھر پاکستان کا ردِعمل کیا ہوگا۔ اگر اِن دونوں معاملات پر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ اِن کی کڑیاں وطن عزیز میں جاری بدترین سیاسی عدم استحکام سے جا ملتی ہیں۔ عمران خان چین اِن حالات میں جا رہے ہیں کہ جب یہ تصور بہت تیزی سے اپنی جڑیں مظبوط کر رہا ہے کہ سی پیک پر دانستہ طور پر کام کی رفتار کو سست کر دیا گیا ہے۔ پھر سی پیک کے منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات بھی موجودہ حکومت کے وزراء کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں اور ایسے الزامات کے سامنے آنے کے بعد چینی سفارتکاروں اور وزارتِ خارجہ کے افراد میں تلخی در آنا ایک معمول کی بات ہے۔ وہ جب کبھی بھی ملتے ہیں تو فوراً پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت سی پیک کے تحت جاری منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی رہی ہے مگر کیا کہیں پر کسی بے ضابطگی کی باقاعدہ نشاندہی کی گئی ہے؟ درحقیقت پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد چین ورطہ حیرت میں پڑ گیا ہے کہ اس سب کا سی پیک کی تعمیر سے کیا واسطہ تھا۔ اُنہوں نے معاہدہ پاکستان کی ریاست سے کیا تھا لہٰذا ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پاکستان کی یہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں کو داخلی سیاست کی نذر نہ ہونے دے۔ یہ سوال وہاں عمران خان کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔ پاکستان میں سیاسی تبدیلی نے سی پیک اور قطر سے کیے گئے ایل این جی معاہدوں کو بری طرح سے متاثر کیا اور یہ بالکل واضح ہے کہ اس کی سیاسی وجوہات ہیں۔ ایل این جی معاہدہ قطر کی ریاست سے ہوا تھا جبکہ سی پیک کے معاملات بھی چینی ریاست سے طے پائے۔ ان دونوں میں کسی بدعنوانی کا الزام لگانے کا مطلب ہے کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ریاستیں اپنا سودا بیچنے کے لئے دوسرے ممالک میں بدعنوانی کرواتی ہیں۔ اس کے اتنے گمبھیر نتائج ہیں کہ کوئی بھی ریاست آپ سے معاہدہ کرنے سے گھبرائے گی کہ بعد میں یہ ہمیں بھی میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنا دینگے۔ وہاں چین میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ عرب ممالک کے کون سے مفادات ہیں جن کا تحفظ موجودہ حکومت گوادر کے معاملات میں کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو چین میں اس حوالے سے لگی لپٹی بغیر بات کرنا چاہئے تاکہ ہمارے الفاظ کا بھرم مستقبل میں بھی قائم رہ سکے۔ اگر کہا کچھ گیا اور کیا کچھ گیا تو مملکت پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ اسلئے ایسی ہر غلطی سے اجتناب کرناچاہئے۔

کشمیر کا معاملہ بھی بری طرح سلگ رہا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ مودی سرکار اس بار ایسا کرنے کی جرات کیوں کر گئی حالانکہ بھارتی آئین میں کشمیر کے حوالے سے تبدیلی ان کے گزشتہ انتخابات میں بھی منشور کا حصہ تھی بلکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ آزادی کے وقت سے اب تک جو اقدام کرنے کی جرات کوئی اور بھارتی حکومت نہ کر سکی تھی وہ اب کیسے ہو گیا۔ جواب بالکل واضح ہے کہ مودی پاکستان کے سیاسی عدم استحکام سے ہلہ شیری پا گیا۔ یہ تصور کہ پاکستان کی حکومت سیاسی مشکلات کا شکار ہے، اُس کی ہمت بندھا گیا۔ چین نے بھی لداخ کے مسئلے سے ہٹ کر وہ موقف نہیں اپنایا جو پاکستان کا موقف ہے اور یہی چیلنج پاکستان کو در پیش ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ابھی تازہ تازہ گنوایا گیا ہے۔ بہت مناسب ہوتا اگر جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران جو پاکستان کا وفد گیا تھا، اس میں وزیراعظم آزاد کشمیر بھی شامل ہوتے اور صرف جنرل اسمبلی کی کارروائی کا ہی حصہ نہیں بنتے بلکہ اس کے علاوہ جتنی ملاقاتیںہوئیں، ان میں بھی شامل ہوتے۔ اگر سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران خان یہ قدم اٹھا لیتے تو کشمیر کے حوالے سے ہمارے موقف کو کم از کم اتنی عالمی پذیرائی ضرور مل جاتی کہ ہم کم از کم انسانی حقوق کے حوالے سے 16ووٹ تو حاصل کر لیتے۔ ابھی کچھ روز قبل پنجاب یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف اور الطاف حسن قریشی کی تنظیم پائنا کے زیرِ اہتمام کشمیر پر قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا کہ جس سے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، مجیب الرحمن شامی، میں نے اور چند دیگر مقررین نے خطاب کیا جبکہ منتظمین میں ڈاکٹر نیاز بیگ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر ممتاز، ڈاکٹر امان اللہ اور ڈاکٹر امجدمگسی شامل تھے۔ وہاں بھی ان صاحبانِ علم اور سینکڑوں طلبا و طالبات کے سامنے بھی یہی گزارشات پیش کیں کہ کشمیر کے مسئلے پر سفارتکاری کسی جذباتیت سے بہتری کی جانب روانہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ کشمیر پر پہلا حق کشمیریوں کا ہے۔ ضروری ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چین جانے والے وفد کا حصہ ہوں۔ کشمیر اور گلگت بلتستان اسمبلیوں کے اراکین پر کمیٹی قائم کی جائے جو کشمیر پالیسی وضع کرے جس کی روشنی میں پاکستان پیش رفت کرے جبکہ کشمیر مسئلے پر جانے والے تمام پارلیمانی وفود میں بھی ان دونوں اسمبلیوں اور حریت کانفرنس کے اراکین شامل ہوں تاکہ بات میں وزن پیدا کیا جا سکے۔ بات اُن ممالک کی سنی جاتی ہے جن کی پشت پر انکی پوری قوم کھڑی ہو لیکن اگر حکمت عملی موجودہ ہی رہی تو پھر جہاں مرضی چلے جائیں 16ووٹ بھی نہیں مل سکیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)