’ماہِ صفر‘ کے حوالے سے بدشگونی کا تصور

October 11, 2019

دین اسلام نے انسان کی ہر سطح پر کامل رہنمائی کی ہے۔اللہ کی ذات پر ایمان، اعتقاد اور توکل کا تقاضا یہ ہے کہ سب کچھ اسی سے ہونے کا یقین انسان کے قلب و ذہن میں راسخ ہو۔کسی شے کے بارے میں بدفالی ،نحوست اورتوہّم پرستی کا نظریہ درحقیقت ایک غیراسلامی سوچ اوراسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے۔

ہمارے معاشرے میں بدفالی ،نحوست اور توہّم پرستی جہاں دیگر امور میں سمجھی جاتی ہے،وہاں ماہِ صفر کے متعلق عموماً لوگ بے شمار غلطیوں ،ضعیف الاعتقادی ،بدفالی اور توہّم پرستی کا شکار نظر آتے ہیں،جس کا حقیقت اور اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔’’ صفر المظفر‘‘اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے، اسلام کی آمد سے قبل بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا۔ اسلام نے اس کے نام کو برقرار رکھا۔

اس بارے میں خودساختہ تمام نظریات قرآن وسنّت کے منافی ہیں،احادیثِ نبویؐ میں کسی شے کے متعلق بدفالی، نحوست اور توہّم پرستی کی سختی سے تردید کی گئی ہے

اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں، مثلاًلوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے جنگ وجدال کا مہینہ شمار کرتے تھے اور جوں ہی محرم کا مہینہ ختم ہوتا ، آپس میں جنگ شروع کردیتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر )اسلامی تعلیمات سے دوری کے سبب آج کے مسلمانوں میں ایسی بہت سی باتیں رواج پا چکی ہیں، جن کا نہ صرف یہ کہ سنت و شریعت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ وہ شریعت و سنت کی تعلیمات سے سراسر متصادم بھی ہیں۔

عموماًمعاشرے میںصفر المظفرکی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا جاتا ہے، بلکہ بعض مقامات پر تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر اور بعض جگہوں پر چُوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے۔

اب تو رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم ﷺ کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذایہ نظریہ اپنا لیا گیا کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں۔

عوام میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس مہینے میں لولے، لنگڑے اور اندھے جنات بڑی کثرت سے آسمان سے اترتے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔بعض علاقوں میں صفر کے مہینے کے اختتام پر خواتین مکڑی کے جالے صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’اے صفر!دور ہوجا‘‘۔ان تمام باتوں کی بنیاد اس مہینے میں بکثرت جنات کے زمین پر اترنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے نظریے پر ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔

اسی طرح عوام میں مشہور ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ ہوگیا تھا اور آپﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا، پھر تفریح کے لیے گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، اسی بناء پر لوگوں میں مختلف رسمیں مشہور ہیں:بعض خواتین گھی، چینی یا گڑ کی روٹیاں پکا کر تقسیم کرتی ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کیا تھا۔

بعض لوگ اس بدھ کو اہتمام سے سیرو تفریح کے لیے باغات اور پارکوں میں جاتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اس روز اپنی صحت یابی کی خوشی میں حضور اکرمﷺ نے تفریح فرمائی تھی۔بعض لوگ پکے ہوئے چھولے اور عمدہ قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کرتے ہیں۔

بعض علاقوں میں باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے۔مزدور اور کاریگر مالکان سے اس دن کھانے، مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں ان تمام رسومات کی بنیاد غلط اعتقاد ہے کہ حضور اکرم ﷺ صفر کے آخری بدھ کو صحت یاب ہوئے ،حالانکہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ نہیں، بلکہ آغاز ہوا اور اسی بیماری میں آپ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔

اسی طرح عوام کی ایک بڑی تعداد اس مہینے میں شادی بیاہ کو ممنوع سمجھتی ہے اور مشہور ہے کہ ’’جو شادی صفر میں ہوگی ،وہ صِفر ثابت ہوگی‘‘، لہٰذا بعض لوگ اس مہینے میں شادی سے انتہائی گریز کرتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ تاریخوں تک کو محض صفر کی وجہ سے تبدیل کردیتے ہیں، اسی طرح خوشی کی دوسری کوئی تقریب بھی منعقد کرنے سے قصداً گریز کیا جاتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ صفر کا مہینہ (نعوذباللہ) نامبارک اور منحوس ہے، لہٰذا اس میں کیا جانے والا کام بھی نامبارک و منحوس ثابت ہوگا۔یہ اعتقاد سراسر غلط اور خلافِ شریعت و سنت ہے۔سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ بھی منحوس نہیں ہے۔

متعدد احادیث میں سرور کونین ﷺ نے اس بات کی نفی واضح طور پر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی چیز میں فی نفسہٖ کوئی نحوست نہیں ہوتی۔حکیم بن معاویہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی چیزمیں کوئی نحوست نہیں۔ گھر، عورت، سواری (جس کو لوگ منحوس سمجھتے ہیں)ان سے بھی برکت ہوتی ہے۔(ترمذی)

علامہ عبدالحق محدث دہلویؒ اس موضوع پر متعدد احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’خلاصہ یہ کہ نحوست کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں:’’اس سے مزید ثابت ہوا کہ نحوست اور بُرے شگون کا رسول اکرم ﷺ نے انکار فرمایا ہے۔‘‘اس تفصیل سے واضح ہوا کہ کسی چیز میں اس کی ذات کے اعتبار سے کوئی نحوست نہیں ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔ (مسلم شریف)امام بخاریؒ نقل کرتے ہیں: ماہ صفر میں بیماری، بدشگونی و نحوست، شیطان جنات کی گرفت کے اثرات کی کوئی حقیقت نہیں۔(بخاری ذیل حدیث لاعدویٰ ولاطیرۃ)

خلاصہ یہ کہ شریعت نے سال بھر کے ہر دن اور ہر مہینے میں نکاح اور شادی بیاہ کو جائز رکھا ہے اور کسی مہینے یا دن میں ان امور کی ممانعت نہیں فرمائی۔ ہر صاحب عقل اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں ماہ صفر کے متعلق جتنی بھی باتیں پھیلی ہوئی ہیں، اُن میں سے کسی کا بھی تعلق شریعت اسلامیہ کے ساتھ نہیں ہے اور نہ صرف شریعت اسلامیہ نے ان سب باتوں کی واضح طور پر تردید فرمائی ہے، بلکہ آج کے زمانے میں بھی ملت اسلامیہ کے اندر پائے جانے والے تمام مکاتب فکر کے مقتدائوں نے انہیں بے اصل قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد فرمادیا ہے۔اس کے باوجود اگر مسلمانوں میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو یہ بدعقیدگی کے زمرے میں آتی ہیں جو انسان کے ایمان کے لئے بھی انتہائی خطرناک ہے۔

اس لیے کہ بے عمل یا بدعمل کا آخرت میں کسی نہ کسی وقت چھٹکارا ہوجائے گا، لیکن بدعقیدہ کا چھٹکارا انتہائی مشکل ہے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شریعت اسلامیہ اور عقائد و اعمال کے حوالے سے حق قبول کرنے اور تاحیات اس پر جمے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)