لا حول ولا قوّة الّا باللہ

February 18, 2013

ملبورن آسٹریلیا میں زیر تعلیم ایک پاکستانی طالب علم محمد عمیر زبیری نے مجھے ایک ای میل بھیجی ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے لکھا کہ دوسرے مغربی ممالک کی طرح اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ایک بڑی تعداد میں پاکستانی نوجوان آسٹریلیا میں بھی مقیم ہیں۔ عمیر کے مطابق ایسے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کو اُن کے والدین نے اپنی جیب سے ایک خطیر رقم خرچ کر کے بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجا تا کہ وہ کامیاب آدمی بن سکیں۔ یہ بات کرنے کے بعد مجھ سے یہ نوجوان پوچھتا ہے، ”آپ مجھے بتائیں کہ اسلام کو سمجھے اور اس پر عمل کیے بغیر کوئی انسان کیسے کامیاب ہو سکتا ہے“۔ پھر خود ہی جواب بھی دیتا ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لیے تو اپنا سب کچھ داو پر لگانے کے لیے تیار ہوتے ہیں تا کہ وہ ”کامیاب“ ہو جائیں مگر بچوں کو اسلام کی اصل تعلیم نہیں دی جاتی۔ بیرون ملک زیر تعلیم اپنے بچوں سے بات کرتے ہوے اکثر والدین پوچھتے ہیں کہ بیٹا پڑھائی کیسی جا رہی ہے، گریڈز کیسے لیے مگر یہ نہیں پوچھا جاتا کہ بیٹا نماز پڑھی، قرآن کی تلاوت کی۔ عمیر نے کہاکہ اس بات سے بے خبر کہ اُن کا دین ایسے معاملات میں کیا کہتا ہے کتنے پاکستانی نوجوانوں نے وہاں لڑکیوں سے دوستیاں پال رکھی ہیں بغیر پروا کیے کہ اسلام میں زنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اکثر شراب بھی پیتے ہیں اور شراب خانوں اورڈسکو کلب میں جانا اُن کا ایک معمول ہے۔ میوزک اُن کے لیے زندگی ہے اور وہ کہتے ہیں اس سے وہ روحانی طاقت حاصل کرتے ہیں۔ گویا ہر وہ چیز جس کو اسلام حرام قرار دیتا ہے یا اُسے برائی جانتا ہے اُن کے لیے نہ صرف جائز ہے ۔قرآن کو فہم کے ساتھ اُنہوں نے پڑھا نہیں جبکہ سنت رسولﷺ سے بھی وہ غافل ہیں۔ یہ سب کچھ لکھ کر نوجوان نے مجھ سے درخواست کی میں اپنے کالم میں اس مسئلہ کو اجاگر کروں تا کہ والدین کو یہ پتہ چل سکے کہ کسی ماڈرن مغربی ملک میں پڑھنا اور وہاں سکونت اختیار کرنا قطعی طور پر کامیابی نہیں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوے رستہ پر چلے۔ عمیر نے وضاحت کی کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ والدین اپنے بچوں کو عالم دین یا مفتی بنا دیں جن کو اسلام پر پورا عبور ہو بلکہ اُس کی درخواست ہے کہ والدین کم از کم اپنی اولاد کو حلال و حرام کی تمیز تو سکھا دیں اور اُنہیں اُتنا دینی علم تو سکھا دیں جو ایک عام مسلمان کے لیے لازمی ہے تاکہ وہ اچھائی اور بُرائی کے درمیان تمیز کر سکے۔
جوبات والدین کو کرنا چاہیے وہ اس نوجوان نے کر دی۔ اکثر ماں باپ تو اس احساس سے ہی عاری ہیں کہ اُن کو روز حشر اس بات کا جواب دینا ہو گا کہ کیا اُنہوں نے اپنے بچوں کو دین پڑھایا سکھایا۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور سارا زور دنیا میں اپنے بچوں کا کیرئیر بنانے پر لگادیا اور اس سلسلے میں جائز ناجائز اور حلال حرام کو بھی نہیں دیکھا تو پھر والدین کا یہ طرز عمل نہ صرف اُن کی اپنی ذات بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم کے مترادف ہے۔ دنیا کی تعلیم کا حصول عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے مگر دین کو چھوڑ کر دنیا کو پکڑ لینا سرا سر گھاٹے کا سودا ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو موت آنی ہے اور مرنے کے بعد ہم سے اپنے ایک ایک عمل کی جواب طلبی ہو گی۔ ہم جنت اور دوزخ پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے رستے پر چلنے اور اُسی کی رحمت سے ہی ہمیں جنت ملے گی ورنہ دوزخ کے علاوہ ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو سکتا۔ دین کو بھلا کر دنیا میں اپنے بچوں کو کامیابی کے خواہاں والدین کاش یہ سمجھ سکیں کہ جو کچھ دنیا کے حصول کے لیے وہ کر رہے ہیں وہ نہ صرف اُن کی اپنی تباہی بلکہ اُن کی اپنی اولاد کی تباہی کا سامان ہے۔اپنے بچوں کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے والے والدین ایک لمحہ کے لیے کیا یہ خیال بھی اپنے دماغ میں لا سکتے ہیں کہ اُن کی اولاد میں سے کوئی بھی بچہ جہنم کا ایندھن بنے۔ یقیناً کوئی ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایسے انجام کا تصور نہیں کر سکتے۔ مگر دنیا میں ہم والدین اس قدر مگن ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کے لیے دنیا میں کامیابی کو ہی اصل کامیابی جان لیا اور دنیا کی کامیابی بھی وہ جو اسلام کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو۔ نیک اولاد تو ماں باپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوتی ہے اور اگر اولاد دین سے دور ہو اور اس دوری میں دنیا کی کامیابی کے خواہاں والدین کا ہاتھ ہو تو ایسی اولاد اپنے والدین کے لیے گناہ جاریہ کا کام کرتی ہے۔ ایسی ہی اولاد جس کو والدین نے اسلام نہیں سکھایا اپنے والدین کے لیے دوزخ کا سبب بنے گی۔ آج کی نام نہاد تہذیب کا حال دیکھیں کہ اگر کوئی شراب نہ پیے، عورتوں سے دوستی نہ کرے اور پارٹیوں میں جانے سے پرہیز کرے تو اُسے دقیانوس اور پینڈو سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی نماز پڑھتا ہو، داڑھی رکھ لے تو اُسے طالبان کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس گمراہ کن تہذیب کا ہمارے ذہنوں میں اتنا گہرا اثر پڑ چکا ہے کہ ایک اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے نماز نہیں پڑھتا کیوں کہ اُسے طالبان کا نام دیا جاتا ہے۔ نماز اللہ کا حکم ہے اور مسلمان پر فرض ہے مگر اس کے باوجود اگر ایک ”پڑھا لکھا“ اینکر پرسن اس فرض کی ادائیگی میں شرم محسوس کرتا ہے تو پھرکیا کہا جائے۔ ویسے یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ چند سال قبل برطانیہ میں ”اعلیٰ تعلیم“ کے لیے گئے ہوئے ایک پاکستانی صحافی نے واپسی سے قبل اپنے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو لکھا کہ میں واپس تو آ رہا ہوں مگر میں نے سنا ہے کہ میرا ایک سینئیر اپنے ہم عصروں کو نماز پڑھنے کا کہتا ہے جس سے دفتر کا ماحول خراب ہو گیا ہے۔ لا حول ولا قوّة الّا باللہ۔